محمد اقبالؔ

فیض احمد  فیض

(انگریزی سے ترجمہ:سجاد باقر رضوی)

 کوئی شخص بھی شاعری میں عظمت کاحامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ عظیم فلسفی بھی نہ ہو‘‘۔ یہ قول اس نہایت ذی شعور نقاد کا ہے جوکا لرجؔ کے نام سے موسوم ہے۔ خواہ مغرب میں یہ مفروضہ کلیتاً قابل قبول نہ ہو لیکن مشرق میں بالخصوص مسلمانوں میں، عظیم ناموں کی ایک فہرست اس کی شہادت دیتی ہے۔ جلال الدین رومیؔ (۱۲۰۷ء تا۱۲۷۳)ء مصلح الدین سعدیؔ (وفات ۱۳۱۳ء)، شمس الدین حافظؔ وفات (۱۳۸۹ء) ابن الحسن خسروؔ(۱۲۵۳ء تا۱۳۲۵ء) اسد اللہ خاں غالبؔ (۱۷۷۹ء تا ۱۸۶۹ء) اقبال ڈاکٹر۔ سر  شیخ محمد۔ یاعلامہ جیسا کہ انہیں احتراماً پکارا جاتا ہے) بلاحیل و حجت اسی منفرد سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ تاہم ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ عہد وسطیٰ کے پیش رئووں کے برعکس محض یہ نہیں کہ انہوں نے سفر کے مختلف مدرسہ ہائے فکر کا، جس میں قدیم و جدید دونوں شامل ہیں بہ نظر نمائد مطالعہ کیاتھا بلکہ وہ ایک سے زیادہ زبانوں میں ایسا نثری سرمایہ بھی رکھتے ہیں جس میں منطقی اختصار کے ساتھ انہوں نے حقیقی دنیا کے مسائل کااپنا حل پیش کیا ہے۔

 تمام ’’شاعران اثبات‘‘ مثلا ’’ڈانٹےؔ، ملٹنؔ، اور گوئٹےؔ کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں۔ انہیں کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے اور برصغیرہندوپاک کے مسلمانوں کی نسل کی معاشرتی، مذہبی اور سیاسی معیارات فکر کے لئے غیر مستند نہیں بلکہ مسلمہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے تھے۔

 غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کی دہائیاں شدیدا ذہنی الجھنوں او رجذباتی اذیتوں کا دور تھیں۔ مغلیہ خاندان کی مسلم حکومت کا زوال۔۱۸۵۷ میں برطانوی حکومت کے خلاف سرکشی کاخونیں انتقام۔ جاگیرداری نظام کے حقوق، اقدار او ررعایتوں کا خاتمہ۔ غیرمسلم باشندوں کو قوت و دولت کی بیشتر اعلیٰ حیثیتوں کی تفویض۔ یہ ساری باتیں اجتماعی ذہن کو منتشر کررہی تھیں۔ تباہ حالی نے انہیں سرحد پار کی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ، جو خود بھی ایسے ہی حالات سے دو چار تھیں، بھائی چارے کے رشتے میں پیوست کردیا تھا۔ عثمانی ترکوں کے ساتھ، مشترق وسطیٰ کے عربوں کے ساتھ، شمالی افریقہ میں لیبیا، مرکش اور ٹیونس کے لوگوں کے ساتھ۔ وہ ایک سکوں بخش و حوصلہ پرور آواز کے منتظر تھے جوہو انہیں بے اطمینانی کے بنجرپن سے باہر نکالے پچھلے دور کے رہنما آوازیں، آزاد خیال مصلحین کی دھیمی آوازیں جو انہیں برطانوی حکمرانوں کے بدیشی طور طریق سے مصالحت کرنے پر اکسارہی تھیں۔ نیز مذہبی علما کی درشت آوازیں جو انہیں کفار کے دلفریب اطوار کو رو کرکے اجداد کی روایات کی جانب واپس بلارہی تھیں۔ یہ دونوں آوازیں نئے دانشور طبقے کے لئے کوئی اپیل نہ رکھتی تھیں۔ شاعر اقبال ان کی ناآسودگی کے سوتوں سے کماحقہ واقف تھے اور مفکر اقبال ان کے اس فکری اور روحانی کرب کی ماہیت کو خوب سمجھتے تھے جو جدیدیت اور روایت کے دیوان کی کلائیوں کو گرفت میں لے کر مختلف سمتوں میں کشاکش سے پیدا کررہے تھے۔وہ دونوں سے ذہنی و جذباتی اُنس رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ہندی مسلمانان عالم اور خدا-انسان اور فطرت کی تکون سے متعلق عصری مسائل کے جوابات تلاش کرلئے۔

اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کرلیا۔ مثال کے طو رپر ہیگلؔ کاتصور انسان اور تاریخ کے انسانی عمل کانتیجہ ہونے کاقصور، کانتؔ کا عقل مطلق کے بارے میں استدلال، سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کے خلاف مارکسؔ کا شدید رد عمل، نطشےؔ کا آزاد خیال بورژو اخلاقیات کارو اور حصول قوت و اقتدار کااستحسان، وجدانی علم کی صحت کے حق میں، برگساں کی بحث اینسٹائنؔ کاچہار ابعادی زمانی/مکانی تسلسل کاتصور وغیرہ اس کے باوجود ان کاخیال تھا کہ مغرب کے عینی و مادی دونوں قسم کے فلسفے یہاں کے لوگ کی معاشرتی و نظریاتی صورت حال سے بڑی حد تک مطابقت نہیں رکھتے۔ انہیں یہ محکم یقین تھا کہ مذہب اسلام او رہماری محترم و پاکیزہ روایات یعنی پیغمبر اسلام کی عملی زندگی اور ان کے اقوال، یہی وہ بنیادیں ہیں جو ان کے پیغام کے لئے سند ہوسکتی ہیں۔

اور انہیں پراقبال نے اپنی بصیرت کی روشنی ڈالی۔ مسلم ذہن کو آزاد کرانے کی ضرورت ایک طرف تو تقریباً پانچ سو سال کے معاشرتی و فکری جمود سے پیدا شدہ بنجرپن سے تھی اور دوسری طرف عقل دشمن، رجعت پسند متعصب قوتوں کے جبر سے۔ پہلے اقدام کے طو رپر، قدیم زمانے کے پیغمبروں کی طرح، انہوں نے خانہ خدا کو جھوٹے بتوں سے-فرسودہ روایت پرستوں، تاریک ضمیرملا،تارک الدنیا صوفی، مجمع بازوں اور شورش پسندوں سے پاک کرنے کی کوشش کی۔

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

میرے لئے مٹی کاحرم اور بنادو

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے لڑا دو(بال جبریل)

محض اسی طورپر ’’خانۂ خدا ‘‘ زمین پر اس کے خلیفہ انسان کے شایان شان ہوسکتا ہے۔

 اقبالؔ محض معنوی طو رپر ہی نہیں لفظی طو رپر بھی انسان دوست ہیں۔ ان کے لئے ’’حقیقت کی کوئی صورت اتنی توانا، اتنی دلکشا اور اتنی حسین نہیں جتنی کہ روح انسانی ‘‘۔ زوالِ آدم رحمت الٰہی سے محرومی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ منزل ارتقا ہے جو اسے اس عمل تخلیق میں جو مسلسل جاری ہے ہم کار خدا کا درجہ دیتی ہے اس لئے کائنات مکمل نہیں، یہ اب بھی مرحلہ تکمیل میں ہے او رانسان کو اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے تاکہ وہ کسی حد تک انتشار میں نظم و ضبط پیدا کرسکے۔ یہ عام اجسام جتنا خدا کی تخلیق ہے اتنا ہی انسان کی بھی۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق خدا وندی۔ فطرت یامادہ۔ مقابلتاً غیر متحرک اور جامد ہے جبکہ انسان کی تخلیقی قومیں ایسے ارتقائی عمل کی حرکت میں ظاہر ہوتی ہیں جولازماں بھی ہے او رلامکاں بھی۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں (بال جبریل)

……………

توشب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

بیابان وکہسار وراغ آفریدی

خیابان و گلزار وباغ آفریدم(پیام مشرق)

اس کے منطقی نتیجے کے طو رپر اقبالؔ نے اسلامی تصور توحید- خدا کی وحدت اور اکائی کے تصورکو عالم اجسام اور عالم ارواح کی اکائی کے تصور پر منطبق کیااو رخدا کے ماودائی تصور کی جگہ وجودی تصور کو قائم کیا، اور اس طرح دین و دنیا او رروح و مادہ کی ثنویت کو ختم کیا اے۔’’روح اپنے امکانات کو فطرت مادے او ردنیا میں ظاہر کرتی ہے۔پس جو کچھ دنیوی ہے وہی اپنے وجود کی ماہیت میں دینی بھی ہے‘‘۔

علاوہ ازیں چونکہ مادی قوتوں کی تدریجی تسخیر کے ذریعے انسانی ارتقا کاعمل مسلسل اور لامتناہی ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ کائنات کا دائم عنصر محض تغیر و تبدیلی ہے    ؎ ثبات ایک تغیر کو ہے اس زمانے میں (بانگ درا)

  یہ اصول داخلہ و نظریاتی صورت حال پر اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ معاشرتی و مادی صورت حال پر۔ یہاں تک کہ مذہبی احکامات پر بھی۔’’ابدی اصول اگر تغیر کے تمام امکانات کو خارج کردیں جو کہ قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہے تو یہ اس شئے کو جامد بنانے کے مترادف ہے جو اپنے جوہر کے اعتبار سے حر کی ہے‘‘۔ ایسے روایتی صوفی سے جو موجود دنیا کو واہمہ اور انسان کے دنیوی عمل کو کار لاحاصل سمجھ کر اسے رد کردیتاہے اقبال کنارہ کش ہوجاتے ہیں مگر وہ متشرع فقیہوں اور ان کی جامد و ساکن عصبیت کو بھی پوری قوت سے رد کردیتے ہیں۔

 آخری بات: اس تخلیقی عمل میں خاص عامل انسانی انا یاشخصیت یاذات یا خودی ہے جس نام سے اقبال اسے پکارتے ہیں۔ تخلیق کے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کیلئے انسانی ذات کیلئے دو تحفظات ضروری ہیں۔ اول ادراک کے ذریعے عالم اجسام کاعلم، دوم و جدانی جذب یااقبال کی اصطلاح میں عشق۔ انہیں کے ذریعے اعلیٰ تر اقدار او رنصب العین کاحصول ممکن ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ شخصیت کاتصور ہمیں ایک معیار اقدار مہیا کرتا ہے۔ ’’جو کچھ شخصیت کی توانائی کاباعث بنے وہ خوب ہے اور جو اسے کمزور کرے وہ بد فن‘‘، مذہب اور اخلاقیات کو شخصیت کے اسی تصور کی بنیاد پر رکھناچاہئے(۲)۔ لیکن یہ شخصیت یا ذات خود کو نہ تنہا فروغ دے سکتی ہے اور نہ توانا کرسکتی ہے۔ یہ بحیثیت مجموعی معاشرتی تعلقات کے حوالے سے ممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال کا ’’مرد کامل‘‘ نطشےؔ کے ’’سپرمین‘‘ سے مختلف ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ اقبال کے حتمی فیصلے ہر قسم کے قومی تعصبات، استعماری مقبوضات، نسلی امتیازات، معاشرتی استحصال اور ذاتی اغراض کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ہر صورت حال انسانی شخصیت کو مسخ کرتی ہے اور اس کی تذلیل کاباعث بنتی ہے۔

 یہ بات قابل فہم ہے کہ اقبال کے بارے میں و افرتنقیدی مواد، ان کی شاعری کی تحسین اور قدری جائزے کے بجائے ان کے پیغام اور تصورات کے مطالعے او رتجزئیے سے متعلق ہے۔ تاہم ان کی جذبہ کی شدت سے بھر پور تھرتھراتی ہوئی شاعری اور اس شاعری کی قائل کرنے والی تاثیران کے بیشتر اثر ورسوخ کا باعث ہے ان کی شعری مجموعی میں ہیت مواد، خیال و اسلوب واضح خطوط پر حرکت کرتے نظرآتے ہیں اور سلسلہ تخلیق کے طویل عرصے میں ان کاارتقا دلچسپ مطالعے کاموضوع ہے۔ پہلے دور میں جو ۱۹۰۵ء تک ختم ہوجاتا ہے بیشتر نظمیں مظاہر فطرت کے محرکات استعجاب و حیرت سے متعلق ہیں۔ سحر وغروب آفتاب،پہاڑ و دریا، چاند، ستارے اور نوجوانی کی بے سبب اداسیاں۔ مختصر نظموں کے اسی داخلی دو رکے بعد طویل نظموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ شدید جذبات پر مشتمل خطیبانہ نظمیں، جن میں زیادہ تر قومی یا بین الاقوامی سیاسی موضوعات پر ہیں۔ یہ تمام نظمیں اردو میں ہیں۔   ۱۹۱۵  میں اقبال نے اپنی پہلی طویل فلسفیانہ نظم ’’اسرار خودی‘‘ فارسی زبان میں پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی فلسفیانہ فکر کا دوسرا دور جو زیادہ تر فارسی منظومات پر مشتمل تھا، شروع ہوا۔ اور آخر میں تیسری دہائی کے اوائل میں ان کے پیغامات اور فن کاتکمیلی ہوا جو تین اردو مجموعوں پر مشتمل تھا، بال جبریل،ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اس وقت تک ان کی تلاش کا سفر داخلی تجربوں کے ٹکڑوں، فطرت سے پیدا ہونے والے تحیر، ہندی مسلمانوں اور اسلامی دنیا کی زبوں حالی سے پیدا شدہ حقائق۔ خدا، کائنات او رانسان کے بارے مین پرسکون فکر تک پہنچ گیا۔

 شعری بصیرت کے دائرے میں تدریجی پھیلائو کے تناسب سے ان کے شعری موضوعات میں کمی ہوتی گئی اسراف، پھیلائو سے استحکام ایک مدت چلتے ہوئے آخر کار ان کی فکر آخری برسوں کے تصور و حدت تک پہنچ گئی۔ اسی قسم کی تبدیلی اسلوب میں بھی ہوئی۔ تفاصیل کے بجائے ایجازو اختصار، تزئین اور ایمائیت کے بجائے واضح اور بلاواسطہ بیان، شاندار خطابت کے بجائے سادہ شاعری۔ سیاسی یا فلسفیانہ طویل نظم یامسدس کی ہئیت کی جگہ غزل، قطعہ او رباعی کے ایجاز نے لے لی۔ جذباتی فضا میں تبدیلی محبت کے احساس کے بجائے عشق کے شدید جذبات کی صورت میں ہوئی۔ بالغ ذہن کی ان نظموں میں اقبال نے مشرقی شاعری کی عام تزئینی روایت جمود کرکے بہت سے طریق کار ایسے وضع کئے جن کے باعث ان کی نظموں کی سختی و درشتی دور ہوگئی مگر معنی کی اعلیٰ سطح قائم فتوحات کانظام و آہنگ اور بہت سی ایسی عروضی ایجادات جو ترجمہ کی صورت میں معدوم ہوجاتی ہیں۔ دوم خیال انگیز اسم استعمال جو ان سے پہلے اردو شاعری میں مروج نہ تھا۔ مثلاً’’ریگ روانِ کاظمہ‘‘۔ ’’کوہ وماوند کی برف‘‘۔ ’’عراق و حجاز کے ریگزار‘‘ حسین عظمت روما۔’’جمال قرطبہ‘‘۔ ’’سمر قندو اصفہان کی شان‘‘ وغیرہ۔ سوم یہ کہ انہوں نے بہت سے غیر معروف الفاظ کا اجراء مگر منسوخ نہیں، جو غیر مستمل ہیں مگر مبہم نہیں ؛ نیز یہ کہ انہوں نے ان سب کیلئے ایسے آہنگ اور اوزان استعمال کئے جو اردو میں شاید ہی آسکے ہوں۔

 اس منزل پر شدید داخلی چھان بین اور مختلف جہتوں میں غور و فکر کے بعد انہیں بالاخر وہ موضوع مل گیا جو اپنی وسعت کے حسن کی پوری شعری بصیرت پر چھاگیا اور وہ دہرا موضوع تھا انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی۔ انسان کے خلاف صفاآرا قسمت، استحصال، اس کی باطنی خامیاں اور خارج میں ایک دشمن سنگ دل فطرت اور ان سب کااحاطہ کرتی ہوئی اس کی تنہائی چیلنج جس کے بالمقابل المیہ کے ہیرو انسان کی عظمت ہے، لامتناہی کشمکش اور وصال خداوندی کے لئے اورحصول اس کامقدر ہے وہ اس شان و شوکت اور اس دکھ درد کا،امیدوں اور پریشانیوں کا، انسانی زندگی کے اس کے شعورل کانغمہ خواں ہے۔ کبھی ان نغموں میں نرمی و ہمدردی ہوتی ہے تو کبھی شدید غصہ او رجھنجھلاہٹ اور ’’اقبال نے یقین اور اظہار کی ایسی وسعت و لطافت کی سطح پر کیا جو ان کے عہد میں کوئی نظیر نہیں رکھتی‘‘۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    اقبال کی عظمت کا اعتراف پروفیسر آرنلڈ ، آر اے نکلسن ، این میری شمل ، ہرمن ہیسے ، ایران کے ملک الشعرا بہار ، بلبل ہند سروجنی نائڈو ، ٹیگور ، فیض ، فراق ، مجنوں گورکھپوری ، بہت بڑے ترقی پسند نقاد سید احتشام حسین جنھوں نے اقبال کو اردو سرمائے کا سب سے قیمتی موتی قرار دیا ہے۔ گوپی چند نارنگ ، بہت بڑے رومانی نقاد نیاز فتح پوری ، کس کس کا نام لیں۔ اردو کا کون سا بڑا شاعر یا نقاد ایسا ہے جس نے اقبال کو نہ سراہا ہو۔دور حاضر کے ایک بہت بڑے نقاد شمس الرحمن فاروقی ہیں انھوں نے دو کتب اقبال پر لکھی ہیں۔ ابھی کچھ دن قبل ترکی کے ایک سکالر ڈاکٹر خلیل طوقار نے اقبال کو ترک شاعر کہا ہے۔ اقبال کا ایک مجسمہ مشہد میں لگایا گیا ہے۔ ایران والے اقبال کو ایک طرح سے قومی شاعر ہی سمجھتے ہیں ۔قونیہ میں مزار رومی کے احاطے میں اقبال کا علامتی مزار ترکوں نے بنایا ہے۔ جرمنی والوں نے ایک سڑک کا نام اقبال کے نام سے موسوم کردیا ہے۔نہرو جب اقبال سے ملاقات کے لیے آئےتو احترام سے نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔ مہاتما گاندھی اقبال کے گیت گاتےتھے۔ ان کا ایک خط سامنے آیا ہے۔ اقبال اردو کے واحد شاعر ہیں جن پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان پر لگ بھگ دو سو پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر بھارت میں لکھے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں ان پر پانچ ہزار سے زائد کتب لکھی جا چکی ہیں۔ ایران کے روحانی راہنما آیت اللہ خامنہ ای نے اقبال کو ستارہ بلند شرق قرار دیا اور ان پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کی کتب کے تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کی عظمت کے مداح رائٹسٹ ہی نہیں لیفٹسٹ بڑے بڑے نقادوں نےبھی ان کوخراج تحسین پیش کیاہے. پانچ یونیورسٹیوں نے اقبال کو اعزازی پی ایچ ڈی ڈگریوں سے نوازا ہے..

تبصرے بند ہیں۔