محمد مختار وفا نہیں رہے!

صفدر امام قادری

یکم اگست ۲۰۱۸ء کو میں اٹلی کے شہر میلان میں تھا۔ واٹس ایپ پر محمد مختار وفا کا تفصیل سے لکھا ہوا مسیج ملا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ دو دن قبل وہ بتیا سے پٹنہ تشریف لائے تھے، مجھے فون کیا اور جواب نہ ملنے کی صورت میں ہمارے فلیٹ پر تشریف لائے مگر ملاقات نہیں ہوسکی۔ اخبار میں اتوار کی صبح پیرس کے سفرنامے کے پڑھنے کے بعد انھیں پتا چلا کہ میں ملک سے باہر ہوں۔ انھوں نے یہ لکھا کہ خیمے سے الگ عنوان سے اپنا دوسرا شعری مجموعہ ترتیب دے چکا ہوں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں کتاب پر اظہارِ خیال کروں۔ وجہ بھی لکھی کہ ’’میری شاعری کے پہلے قاری، مداح یا ناقد آپ ہی ہیں ‘‘۔ میں نے انھیں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مسودہ کوریر سے بھیج دینے کی گزارش کی۔ اتفاق سے ۴؍اگست کو جب میں روم پہنچا تو ان کی جانب سے یہ اطلاع آئی کہ ان کے اور ہمارے استاد سیدہاشم رضا کا ۳؍بجے دن میں انتقال ہوگیا۔ کل شام ہاشم رضا کے سلسلے سے ایک تعزیتی نشست میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فیس بک پہ ان کی تصویر نظر آئی اور آج ۳؍بجے دن یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ محمد مختار وفا راہیِ ملکِ عدم ہوگئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

 آج سے تقریباً ۳۵؍برس پہلے ایم۔ ایم۔ وفا نے ایک شعر کہا تھا:

آئینہ توڑ کے ریزوں میں سراپا دیکھوں

خود سے ملنے کا یہ انداز عجب ہے کہ نہیں

ہمیں کیا معلوم تھا کہ ایم۔ ایم۔ وفا اپنے اسی شعر کے مطابق زندگی کا ڈھب اختیار کرلیں گے اور اپنے ہی بتائے راستے پر سب کو حیران اور ششدر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ چار برس پہلے بینک کی ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ رفتہ رفتہ اپنی تخلیقات کو یکجا کرکے چھاپنے کی طرف توجہ شروع کی۔ گذشتہ سال آخری دور میں ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’منظر اس پار کا‘‘شائع ہوا اور بڑے اہتمام سے اس کا اجرا ہوا۔ دوسرے مجموعے کی تیاری شروع کی اور چھپنے کے انتظامات میں لگے۔ اس دوران اردو اور ہندی میں ٹائپ کرنے میں مہارت حاصل کی اور اپنے اشعار اور دوسروں کے اشعار پر اظہارِ تاثرات میں فیس بک پر کچھ اتنے انہماک سے وہ نظر آنے لگے تھے جیسے نئی عمر کے لوگو ں کی طرح وہ اپنے وقت کا انٹرنیٹ پر مصرف لے رہے ہوں۔ ہمیں کیا معلوم کہ قدرت نے بچے ہوئے سارے وقت کو ایسی رفتار دے دی تھی کہ انھیں معلوم تھا کہ تمام سرگرمیاں اسی دوران انجام تک پہنچا لینی ہیں۔ وہی آج ہوگیا۔

پہلے ایم۔ ایم۔ وفا کے نام سے لکھتے تھے مگر بعد میں محمد مختار وفا کے نام سے تخلیقات شائع ہونے لگیں۔ اصل نام محمد مختار ہی تھا مگر خاص حلقے میں وہ ایم۔ ایم۔ وفا ہی رہے۔ ایم۔ ایم۔ وفا میرے بڑے بھائی کے ہم جماعت تھے اور جب وہ اسکول سے نکل رہے تھے تو ہم وہاں داخل ہوئے۔ اس کے بعد وہ اسکول کے اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے سکریٹری منتخب ہوئے اور جب وہ اس عہدے سے الگ ہوئے تو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کا سکریٹری مجھے منتخب کیا گیا اور انھوں نے اس طور پر مجھے اپنا چارج دیا۔ ہم کالج میں پہنچے تو تھوڑی بہت شعر گوئی کے جراسیم پیدا ہونے لگے تھے۔ سب سے پہلے جو پانچ دس غزلیں نظمیں کہیں، انھیں خاموشی سے کاغذ پر لکھ کر ایم۔ ایم۔ و فا کے پاس جاکر مٹھی میں تھما دیتا تھا اور وہ ان کی اصلاح کرکے اسی طرح رازدارانہ انداز میں راستوں میں ملتے ہوئے مٹھی میں سپرد کردیتے۔ سال بھر یہ چیز چلی ہوگی تب تک بی۔ اے۔ کے امتحان کا دور آگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ شعر کی تقطیع کا فن امتحان کے لیے لازم ہے، سکھا دیجیے۔ تیس چالیس منٹ میں میری ڈائری میں انھوں نے تقطیع کرکے جو سکھایا، اب تک اسی بنیادی علم کی روشنی میں کچا پکا کام چل رہا ہے۔

  ایم۔ ایم۔ وفا اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں ملازمت کررہے تھے۔ کالج میں انھوں نے آنرس معاشیات میں کررکھا تھا لیکن بی۔ اے۔ پاس کرکے جب ہم مظفر پور پہنچے تو انھیں اردو میں پرائیویٹ سے ایم۔ اے۔ کرنے کے لیے راغب کیا اور انھوں نے درجۂ اول سے اس میں کامیابی حاصل کی۔ میری کوشش تو یہ بھی تھی کہ وہ بینک سے یونی ورسٹی کے راستے تک چلے آئیں مگر ایک ملازمت کے جنجال میں پھنسنے کے بعد آسانی سے آدمی نکل نہیں پاتا ہے۔ بتیا ہم سے بھی چھوٹا اور ایم۔ ایم۔ وفا کا بھی بینک کی مشغولیت اور مقامی ادبی مصروفیات کے پیش نظر سرگرمیاں محدود ہوتی گئیں۔ ۱۹۸۵ء میں ان کی منتخب غزلوں کا دیوناگری رسمِ خط میں پہلا مجموعہ ’’سفر ادھورا ہے‘‘ کے نام سے میں نے شائع کیا اور بڑے اہتمام سے اس سلسلے سے تقریب منعقد ہوئی مگر چھپنے چھپانے کا یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ ان سے بزرگ دوست منظر سلطان موجود تھے اور دونوں نئے انداز کی شاعری کررہے تھے مگر مشاعروں اور مقامی تقریبات میں منظر سلطان کچھ زیادہ اور محمد مختار وفا کچھ کم مشغول ہوئے جس سے ادب کے قومی منظر نامے پر لکھت پڑھت کے حوالے سے انھیں لوگ بھولنے لگے۔ منظر سلطان بھی اچانک دو برس پہلے رخصت ہوئے۔ ان کی موت کی خبر ایم۔ ایم۔ وفا نے ہی مجھے دی اور اب وہ بھی اسی راستے پر چل دیے۔

 قدرت کی یہ کون سی مصلحت ہے کہ جب آدمی اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے اصل مشن میں لگتا ہے، جب اس کی پہچان قائم ہونے لگتی ہے اور دنیا کو یہ توقع ہونے لگتی ہے کہ یہ کچھ کرکے جائے گا تب اسے بلا لیا جاتا ہے۔ بے شک سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایم۔ ایم۔ وفا پھر سے ادبی دنیا میں لوٹ آئے ہیں۔ پرانی نئی پونجی جمع کرکے لوگوں کے سامنے لارہے ہیں۔ بینک کی تکنیکی زندگی سے نکل کر ادیبوں، شاعروں کے بیچ گھلنے ملنے لگے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر تبادلۂ خیالات میں حصہ لے رہے ہیں اور اپنی نپی تلی باتیں کہنے کے لیے سرگرم ہوئے ہیں مگر’ موت سے کس کو رستگاری ہے‘۔

 ادھر بزمِ صدف کے کئی عالمی پروگرام ہوئے اور سب میں میں نے انھیں مدعو کیا۔ سلطان اختر پر سے می نار ہوا، انھوں نے مقالہ لکھا۔ سے می نار میں پیش کیا۔ ایک مجلس کی صدارت کی۔ مجتبیٰ حسین پر سے می نار برپا ہوا، انھوں نے اس کے لیے بھی مضمون لکھا۔ سے می نار میں تشریف لائے اور اپنا مقالہ پیش کیا۔ وہ بھی کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ان میں اچھی خاصی تنقیدی صلاحیت تھی جس کا استعمال وہ براے نام کررہے تھے۔ تیس برس پہلے میں نے ایک بار شمشادسحر کی ایک نظم کا تجزیہ کرنے کے لیے کہا۔ ان کی’ کاربنکل‘ نظم کا ایسا خوب صورت تجزیہ انھوں نے کیا کہ جی خوش ہوگیا۔ تب سے میں نے فرمائش کرکے ان سے کئی مضامین لکھائے اور وہ متعدد کاروباری نقادوں سے زیادہ بہتر اور نکتہ رس معلوم ہوئے۔

 یہ موقع نہیں کہ ان کے ادبی کاموں کا احتساب کیا جاسکے مگر نثر و نظم دونوں سرمایے کی بنیاد پر مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ چمپارن کے موجودہ لکھنے والوں میں بزرگوں میں شاکر کریمی اور عظیم اقبال کے بعد محمد مختار وفا سب سے اہم شخصیت کے مالک تھے۔ خلوص اور نئی نسل کی حوصلہ افزائی کو بنیاد مانیں تو وہ چمپارن میں تنہا چراغ کی طرح روشن تھے۔ اشرف قادری اور ناظم بھارتی کے بعد وہی تھے جو بے لوث حوصلہ افزائی کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے تھے۔ اب ان کے بعد والوں کا فرض ہے کہ اس شمع کو بجھنے سے بچائیں۔ ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ، ان کا نثری سرمایہ اور باقی ماندہ کلام یکجا کرکے جلد از جلد شائع کراکے اس امانت کو قوم کے حوالے کردیں۔ میرے لیے یہ ذاتی نقصان ہے کہ جس سے شاعری اور ادب کا پہلا سبق پڑھا، اب اسے مرحوم لکھنا پڑے۔ دوسرے مجموعے پر وہ چاہتے تھے کہ میں لکھوں، ان شاء اللہ دل لگا کر لکھوں گا مگر شعر کے اپنے پہلے استاد سے جو داد چاہتا تھا، وہ کون دے گا؟ سید ہاشم رضا کی موت کے بعد ابھی پلکیں بھی نہ سوکھی تھیں کہ ایم۔ ایم۔ وفا چلتے پھرتے گزر گئے۔ نہ بیمار پڑے، نہ اپنے اضمحلال کا پتا لگنے دیا۔ ایک ہی بار اپنی اور ہماری دنیا لُٹا کر چلے گئے۔ یہ سچ ہے کہ ایم۔ ایم۔ وفا میر اور غالب نہیں تھے مگر ہم نے تو میر اور غالب تک پہنچنے کا راستہ وہیں سے سیکھا تھا۔ اب ان کے بغیر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی ایسا ہو جو ہماری کوئی چیز چھپے اور غیر مشروط طریقے سے جس کے دل سے دعا نکلے۔ ا س میں میرے لیے اشرف قادری کے بعد صرف محمد مختار وفا تھے۔ وقت نے بیس برس کے اندر دونوں شجر سایہ دار گرا دیے۔ آگے وقت اور کیا کیا دکھائے گا، خدا معلوم!!

تبصرے بند ہیں۔