محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے!

مولانا سید آصف ندوی

خالق کائنات نے امام الانبیاء، سید المرسلین، شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین، فخر موجودات، رسالت مآب  ﷺ کو جس مقام بلند وبرتر سے سرفراز فرمایا ہے اس سے نہ صرف ہر صاحب ایمان بلکہ ہر فردِ بشر بخوبی واقف ہے۔  اللہ تعالی نے اپنے نبی پاک ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا  ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘  ائے محبوب ہم نے آپ کے آوازہ کو بلند کیا ہے،  چنانچہ اس پوری کائنات میں خالق ِ کائنات کے بعدمخلوق میں سے اگر سب سے زیادہ کسی کا ذکر خیر کیا جاتا ہے تو لاریب وہ ذات صرف اور صرف رسالت  مآب  ﷺ کی  ذات اقدس ہے۔ کرۂ ارض پر موجود ہر صاحب ایمان کے کلمۂ شہادت میں آپ کا نام،  موذن کی اذان واقامت میں آپ کا نام، نمازی کے تشہد و درود میں آپ کا نام، ذاکرین کی مجالس ذکر میں آپ کا  ذکر خیر، صوفیوں کی خاموش سرگوشیوں میں آپ کا خیال بلکہ ہر مسلمان کے سینے میں اور اس کی زبان پر آپ کا نام نامی بصد ادب و احترام جاری و ساری رہتا ہے۔ اور کیوں نہ جاری ہو کہ خالقِ کائنات نے اس روئے زمین پر کسی بھی فرد بشر کو آپ ﷺ سے زیادہ عزت وشرف والا نہیں بنایا۔  امام طبری نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس کا  یہ اثر نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں  ’’مَا خَلَقَ اللّٰہُ وَ مَا ذَرَعَ نَفْساًأکْرَمَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ وَمَا سَمِعْتُ اللّٰہَ أقْسَمَ بِحَیَاۃِ أَحَدٍ غیرَہُ‘‘  اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی شخص کو نبی کریم  ﷺ سے زیادہ عزت والا نہیں پیدا فرمایا، اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (لَعَمْرُکَ إِنَّہُمْ لَفِی سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ)  آپ کی جان کی قسم وہ اپنی مدہوشی میں بالکل بہکے ہوئے تھے۔

  دشمنانِ دین و اعداء اسلام لاکھ  تدبیریں کرتے رہ گئے لیکن وہ آپ کے نام مبارک کو مٹا نہ سکیں، بلکہ اس طرح کے مذموم عزائم اور ناپاک خیالات کے حاملین خود روسیاہ ہو کر اس صفحۂ ہستی سے ناپید ہوگئے اور ان کے وجود کا ذکر تو بہت دور ان کا نام تک باقی نہ رہا، آپ کے رب نے آپ کو ایسی رفعت و بلندیٔ شان سے نوازا تھا جس کے آگے کسی مخالف کی مخالفت چلنے پائی اور نہ ہی کسی معاند اور بدخواہ کا عناد اور بدخواہی کارگر ہونے پائی بلکہ عناد و مخالفت کے تمام تر بادل چھٹ کر کافور ہوگئے، اور رسالت مآب  ﷺ کا ذکر خیر ہے کہ ہر دن پہلے سے زیادہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور آپ کی مبارک یاد کی قندیلیں عشاق و محبین کے سینوں میں روز بروز فروزاں سے فروزاں تر ہوتی ہی چلی جارہی ہیں۔

  پورا عالم کفر اور خصوصاً یہود ونصاریٰ اور ہنودو مشرکین روز بروز اسلام اورمحبین شارع اسلام کے وسیع ہوتے دائرے کو دیکھ کر ہمہ وقت پیچ وتاب کھاتے رہتے ہیں، اور ان کا یہ اضطراب اور غم و غصہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ ابتداء اسلام ہی سے اسلام اور رسالت مآب ﷺ کے دشمن ازلی بنے چلے آرہے ہیں۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

 چراغ مصطفوی  سے شرارِ بولہبی

 اور ہمہ وقت اس تگ ودوں میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح آپ کے دامانِ مبارک پر چھینٹے اڑاکر اس کو داغدار کریں تاکہ کسی بھی طرح اسلام کے شیوع کو روک سکے اور یہی وجہ ہے کہ وقت بوقت مسلسل ایسے مکروہ واقعات اورمنظم و طئے شدہ دلخراش حادثات سامنے آتے رہتے ہیں جس میں یہ بدبخت و بدباطن اور خبیث ٹولے رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی اور ہرزہ سرائی کرکے اپنی روسیاہی کا سامان کرتے رہتے ہیں،  خصوصاً  یوروپ و امریکہ میں ایسے واقعات زیادہ پیش آتے رہے ہیں۔ لیکن ادہرگذشتہ چند سالوں سے ہمارے وطن عزیز بھارت میں بھی بہت سے بد باطن نبی آخر الزماں ﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی کئے جارہے ہیں، ہر کس وناکس  جو قابلیت و اہلیت سے بالکل ہی عاری ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح عوام کی توجہ کا مرکز بن جائیں اور جو سماج میں اپنی شناخت اور اپنا نام پیدا کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ ایسی اوچھی حرکتوں کے مرتکب ہوئے چلے جارہے ہیں،  اور ایسے بہت سارے ودیشی بھگوڑے مجرم بھی جو اپنے اپنے ملکوں میں اس شنیع فعل کے مرتکب ہونے کی وجہ سے قابل گردن زنی قرار دئے گئے ہیں اور فراری و مطلوبہ اشتہاری مجرم ہیں، وہ بھی اب بجائے یوروپ و امریکہ کے بھارت کو ایک بہترین پناہ گاہ تصور کرتے ہوئے یہاں کا رخ کر رہے ہیں، اور حکومت ہند بھی یہاں کے جمہوری آئین و دستور کو بالائے طاق رکھ کر کروڑوں لوگوں کے جذبات کا خون کرنے والے ان وحشی درندوں اور احسان ناشناس ابن الوقتوں کو وطن عزیز میں نہ صرف پناہ دے رہی ہے بلکہ ان ملعونوں کو ہر طرح کا تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے۔

 میں یہ سمجھنے سے بالکل بھی قاصر ہوں کہ آخروہ حکومت ہند اور اس کا وہ قانون جو وقت کے معروف و مشہور اور قابل ترین آرٹسٹ آنجہانی مقبول فدا حسین کو (جو اپنے فن میں سکۂ رائج الوقت کا درجہ رکھتا تھا)محض اس بناء پرکہ وہ دیوی دیوتاؤں کی برہنہ تصویریں بنا کر(جوتصویریں فن آرٹس کے ایک بہترین شاہکارکا درجہ رکھتی تھیں اور جو بعد میں 16  لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئیں ) بہت سارے شہریوں کے جذبات و اعتقاد کو ٹھیس پہنچانے اور انہیں مشتعل کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور دیوی دیوتاؤں کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں،  دربدری پر مجبور کردیتا ہے، اور اس غریب کو اپنی عمر کے آخری پڑاؤ پر غریب الوطنی اختیار کئے بنا اپنی جان کی حفاظت کا سامان نظر نہیں آیا اورجس نے وطن واپسی کی ہزار حسرتوں کے باوجود دیار غیر میں اپنی آخری سانسیں لی۔ وہی حکومت اور و ہی قانون  پتہ نہیں کیوں سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور تاریک پتے (طارق فتح) جیسے ملعون دریدہ دہنوں کو (جو ہرنئے دن اسلام اور پاک ومکرم شارع اسلام ﷺ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرکے نہ صرف ہمارے وطن عزیز بھارت میں بسنے والے مسلمان بلکہ پوری دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح اور ان کے سینوں کو چھلنی کرنے کا کام کررہے ہیں )  نہ صرف پناہ دے رہی ہے بلکہ تحفظ بھی فراہم کررہی ہے۔ کیا حکومت ہندکو ملک عزیز کے کروڑوں مسلم شہریوں کے جذبات و احساسات کا ذرا سا بھی احساس نہیں، یا وہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھتی ہے،  یا پھر وہ خود ہی کچھ ایسا سامان تو نہیں کرنا چاہتی ہے جس کے ذریعے گاہ بگاہ ایسے دلخراش واقعات رونما ہوتے رہیں جو مسلمانانِ ہند کی اسلامی حمیت اور ایمانی غیرت کا جنازہ نکالتے رہا کریں اور اس کے ذریعے مسلمانانِ ہندکی گھر واپسی کا عمل آسان  بنایا جاسکے،  ارباب اقتداراور ان کے نظریہ ساز اگر اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو ان سے صرف اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ ’’ ایں خیال است ومحال است و جنوں است‘‘۔

 ایک مسلمان خواہ وہ کیسا ہی بد عمل ہو، اور کتنا ہی بحر عصیاں میں غرق ہو لیکن وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کے ایمان کی تکمیل محبت نبوی کے بغیر ہوہی نہیں سکتی،  وہ سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن رسالت مآب  ﷺ کی شان اقدس کے خلاف ذرہ برابر ہرزہ سرائی اور یاوہ گوئی کو بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتا۔  عروہ بن مسعود ثقفیؓ  نے جب حدیبیہ کے مقام پرصحابہ کرام کی رسالت مآب  ﷺ کے ساتھ محبت و وارفتگی کے ایمان افروز اور روح پرور مناظر دیکھے تو وہ واپس لوٹ کر اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ میں نے روم و ایران اور حبشہ کے بادشاہوں کے درباروں میں ان بادشاہوں کا ادب و احترام ہوتے ہوئے دیکھا ہے(اور اس مشاہدہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ میں نے) ہرگز کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے اصحاب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہو جتنی محمد ﷺ کے اصحاب اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور میں نے انہیں (اصحاب محمد) کو ایسی قوم پایا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے نبی کو غیر کے سپرد نہیں کریں گے( یعنی وہ اپنے نبی پاک  ﷺ کی نصرت واعانت کو ترک نہیں کریں گے)  لہذا میں تمہیں یہ مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کا خیال اپنے دلوں سے نکال ڈالو، تم انہیں ہرگز بھی شکست نہیں سکتے۔

 آج بھی امت محمدیہ و ملت اسلامیہ کی عظمت ورفعت، شان وشوکت، قوت وطاقت اور اس کا جلال و ہیبت صرف اور صرف اپنے نبی  پاک ﷺ کے ساتھ والہانہ تعلق، عشق و وارفتگی، اور ان کی محبت وعظمت کے ساتھ وابستہ ہے۔ نبی کریم  ﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ تعلق و محبت مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ایسی شاہ کلید(Master Kea) ہے  جس کے ہوتے ہوئے دنیا کے ہر مقفل تالے کو کھولا جاسکتا ہے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

 لیکن یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ وطن عزیز میں رسالت مآب فدہ ابی و امی وروحی ونفسی  ﷺ کی شان اقدس میں مختصر سی مدت میں متعدد بدبختوں (آشو پریہار، تاریک پتے ودیگر) نے انتہائی نازیبا کلمات کے ذریعہ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی کیا۔ لیکن مجموعی طور پر پورے ملک میں کہیں سے کوئی صدائے احتجاج تک بلند نہ ہوئی (الاماشاء اللہ)۔ آخر ہمارے جذبۂ عشق نبوی کو کیا ہوگیا ہے ؟  رسالت مآب  ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت اور اس کا دفاع اس امت کے ہر فرد پر نبی کریم  ﷺ کا ایک اہم ترین حق ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ ایک ودیشی اور اپنے ملک کا بھگوڑا ملعون’’ طارق فتح ‘‘  اسلام دشمن میڈیا کی سواری پر سوار ہوکر برادران وطن کے سامنے اسلام، شارع اسلام  ﷺ  اور مسلمانوں کی انتہائی غلط تصویریں  پیش کئے جارہا ہے اور ہم مسلمان ہیں کہ وطن عزیز کے آئینی و دستوری سہولیات کو استعمال کرکے اس کے خلاف کوئی عملی اقدام تک نہیں کر رہے ہیں،  بے حسی کی انتہا ہے۔

 میں اپنے برادران اسلام سے دل کی گہرائیوں سے یہ التماس کرتا ہوں کہ آپ کم از کم اپنے اپنے مقام پر کلکٹر اور دیگر متعلقہ ذمہ داران کی خدمت میں محضر پیش کرکے ریاست و مرکز میں بیٹھے بے حس ارباب اقتدار تک یہ بات پہنچائیں کہ ان بھگوڑے گستاخوں کو ملک عزیز میں پناہ اور تحفظ فراہم کئے جانے سے مسلمانوں میں کس قدر اضطراب و بے چینی کا عالم ہے۔ لہذا ہم حکومت ہند سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسے تمام عناصر کو جو نہ صرف اسلام و صاحب اسلام علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنی نفرت آمیز گفتگو کے ذریعے ہندو مسلم اتحاد کو بھی پارہ پارہ کرکے بھارت کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کا کام کررہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔