پھر وہی فرقہ واریت، نفرت اور بھٹکائو!

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

یوپی کو ابھی دو مرحلے کے چنائو سے اور گزرنا ہے۔ الیکشن آگے بڑھنے کے ساتھ کئی تبدیلیوں کا گواہ بن رہا ہے۔ پہلے تین مرحلے تک یہاں وکاس کا مدا خاص تھا۔ سماجوادی پارٹی کا تھیم سانگ ’کام بولتا ہے‘ دھوم مچارہا تھا۔ نریندر مودی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے’ کارنامے بولتے ہیں ‘ کا جملہ اچھالا تھا۔وہ بی جے پی کی پریورتن ریلیوں میں اپنی حکومت کی کارکردگی، نوٹ بندی کے فائدے اور یوپی کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی باتیں کررہے تھے۔ تیسرے دور کی ووٹنگ کے بعد جس طرح خود مودی جی نے چنائو کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی، اس سے بہار اسمبلی الیکشن کی تاریخ دوہراتی ہوئی نظرآتی ہے۔ وہاں شروعاتی مراحل کا انتخاب ہاتھ سے نکلتا دیکھ مایوسی اور بدحواسی میں مودی جی نے فرقہ وارانہ چھونک لگانے کی کمان سنبھالی تھی۔ انہوں نے دلتوں ، پچھڑوں وغیرہ کے ریزرویشن میں سے ایک حصہ چھین کر ایک خاص طبقہ (مسلمانوں ) کو دینے کا مہاگٹھ بندھن پر الزام لگایا تھا۔ اسی طرح یوپی کے فتح پور میں انہوں نے کہا کہ’’ گائوں میں اگر قبرستان بنتا ہے تو شمشان بھی بننا چاہئے، رمضان میں بجلی دو تو ہولی پر بھی دو، بھید بھائو نہیں ہونا چاہئے۔ عید پر بجلی دیتے ہو تو دیوالی پر بھی دو، یہ صحیح ہے کہ کسی کے ساتھ بھی بھید بھائو نہیں ہونا چاہئے۔ بجلی ڈپارٹمنٹ یوپی حکومت کے اعداد بتاتے ہیں کہ رمضان اور عید سے زیادہ بجلی سپلائی ہولی اور دیوالی پر ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چناوی ریلی میں اس طرح کے بیان کا مقصد بھید بھائو کو اجاگر کرنا تھا یا پھر ووٹوں کوگول بند کرنا؟

نریندرمودی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی ریاست میں سخت مقابلہ جھیل رہی ہے۔ اس لئے اس نے چنائو پرچار میں بے دھڑک فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا کھیل شروع کردیا ہے۔ ویسے یوگی آدتیہ ناتھ، ساکشی مہاراج، نرنجن جیوتی، ونے کٹیار اور سنجیو بالیان ابتداء سے ہی فرقہ وارانہ زبان بول رہے ہیں ۔ نریندر مودی کے تفریق پیدا کرنے والے بول نئے نہیں ہیں ۔ 2002 میں گجرات فساد سے متاثر جو لوگ کیمپوں میں رہ رہے تھے،تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کیمپوں کو بچے پیدا کرنے کی فیکٹری اور مسلم خواتین کو اس فیکٹری کی مشین بتایا تھا، تب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔   مخالفین کو گھیرنے، نیچا دکھانے اور تفریق پیدا کرنے والے  ان کے کئی بیان چرچا میں رہے ہیں لیکن سب کا ساتھ سب کے وکاس کادم بھرنے والے وزیراعظم سے سیاسی فائدے کیلئے اس طرح کے بانٹنے والے بیان کی امید نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ وزیراعظم بھی معمولی سیاسی مفادات سے دوچار ہوں گے تو کیا ان کا یہ رویہ سب کیلئے قابل قبول، سب کو فائدہ پہنچانے والا یا سب کا خیال رکھنے والا ہوگا؟ جواب ہے ۔نہیں ، اس لئے ان کے غیر مناسب لفظوں پر اعتراض ہوگا ہی۔ الیکشن کو فرقہ وارانہ مدوں کی بنیاد پر ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش کے طورپر بھی اسے نامنظور ہی کرنا ہوگا۔

کہنے کی ضرورت نہیں دھیرے دھیرے یوپی کا چنائوبنیادی مدوں سے دور ہوتا  جارہا ہے۔ جب الیکشن شروع ہوا تھا تو اس بات کی امید بندھی تھی کہ اس بار پانی، بجلی، بدحال سڑکیں ، پولس کا رویہ، کسانوں کی حالت میں سدھار، تعلیم، روزگار،صحت، کوپوشن، لڑکیوں اور لڑکوں میں بھید بھائو ختم کرنے اور بندیل کھنڈ جیسے پچھڑے علاقوں کے مسئلے خاص مدے بنیں گے۔ بی جے پی، سماجوادی پارٹی ،کانگریس اور بی ایس پی نے اپنے انتخابی منشور میں ان کو جگہ بھی دی تھی۔ فرقہ وارانہ جملے بازی سے عوام کا دھیان ان مدوں سے بھٹکایا جارہا ہے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ’کساب‘ سے یوپی کو مکتی دلانی ہے۔ کساب کا مطلب بتایا جاتا ہے ’کانگریس، سپا اور بی ایس پی۔ ووٹروں کو بتایا جارہا ہے کہ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی مسلم غنڈوں کو بچارہی ہے۔ بی جے پی کی سرکار آئے گی تو ان کو الٹا لٹکا دیا جائے گا۔ غنڈوں کو سزا ملے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا ہے لیکن مسلم غنڈے کہنے کا مطلب کیا ہے؟

اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق پانچویں مرحلے کے انتخاب میں حصہ لینے والے 612امیدواروں میں سے 117 یعنی 19 فیصد ایسے ہیں جن کا کرمنل ریکارڈ ہے۔ ان میں سے 96 نے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا اقرار کیا ہے۔ ان میں قتل، اقدام قتل، اغوا، پھروتی اور عورتوں کے خلاف جرائم جیسے معاملے شامل ہیں ۔ پارٹی کے اعتبار سے دیکھیں تو بی جے پی نے 51 میں سے 21،(41فیصد)بی ایس پی 23(45فیصد) لوک دل 30میں 8(27فیصد) ایس پی نے17اور کانگریس نے 3کرمنل کو ٹکٹ دیئے۔ چوتھے مرحلے میں 17فیصد کرمنل میدان میں تھے۔ چھٹے دور کے انتخاب میں ان کی تعداد 20 فیصد ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں گناکسانوں کو 14دن کے اندر ان کے بقایا کا چیک دلانے، چھوٹے اور منجھولے کسانوں کے فصلی قرض معاف کرنے، قرض لینے پر سود میں معافی، کھیتی  ہرمزدوروں کو دو لاکھ کا بیمہ دینے، غریبوں کو 100 یونٹ بجلی تین روپے کی در سے دینے، پندرہ منٹ میں مریضوں کو ایمبولینس فراہم کرنے اور غریب کے گھر میں  بیٹی پیدا ہونے پر پانچ ہزار روپے دینے جیسے وعدے شامل ہیں ۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور سینئر لیڈ ر  و رون گاندھی نے اندور میں کہا کہ چھوٹے کسان قرض کے بوجھ سے دب کر خودکشی کررہے ہیں لیکن مالیہ جیسے لوگوں کو ہزاروں کروڑ کا قرض لے کر ملک سے باہر جانے دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکار خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد 7500 بتاکر گمراہ کررہی ہے،یہ تعداد پچاس ہزار ہے۔ وہیں بی جے پی کے اقتدار والی ریاست راجستھان میں کسانوں پر بجلی کی بڑھی ہوئی حدیں لاگو ہونے سے ان کی حالت خراب ہے اس کے خلاف آل انڈیا کسان سبھا پوری ریاست میں آندولن کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو وعدے بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں کئے ہیں کیا ایسی سہولیات ان کی اقتدار والی کسی ریاست میں فراہم کی جا رہی ہیں ؟ یا یہ  2014 کے پارلیمانی انتخاب کی طرح صرف چناوی جملے ہیں ۔

ذات،دھرم کے نام پر چناوی فصل کاٹنے والوں پر سپریم کورٹ نے نکیل کسی ہے۔ الیکشن کمیشن کے انتخابات کے ضابطوں میں یہ شرط شامل ہے۔ سوشل میڈیا پر ذات، مذہب پر جم کر زہر اگلا جارہاہے۔ ووٹروں کو اکسانے والے پیغام پوسٹ ہورہے ہیں ۔ انتظامیہ اس پر انکش لگانے میں ناکام ہے۔ اتناہی نہیں الیکشن کمیشن کے مقررہ ضابطوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سپا  ،بسپا کو ہندوئوں کے ساتھ بھید بھائو والی پارٹیاں بتاکر ان پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ دلتوں کی پڑھائی کا پیسہ مدرسوں میں لگاتی ہیں اور وکاس کیلئے دی گئی رقم سے کربلا، قبرستان کی چہار دیواری بنواتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کربلا اور قبرستان وقف کی زمین پر ہیں ۔ وقف بورڈ سرکار کی تحویل میں ، توان کی چہاردیواری کون کرائے گا؟ وقف جائیدادوں پر اکثر سرکار اور غیر مسلموں کا قبضہ ہے وہ کیسے خالی ہو۔انہوں نے فیض آباد میں کہاکہ سپا جیتی تو کربلا، قبرستان بنیں گے اور بی جے پی جیتی تو رام مندر بنے گا۔

درگا وسرجن پر ڈی جے بجانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یوپی کو کشمیر نہیں بننے دیا جائے گا۔ پوروانچل کے اضلاع میں بی جے پی نے نعرہ دیا ہے’’رام،رام ہرے ،ہرے، کمل کھلے گھرے گھرے‘‘ وہیں ساکشی مہاراج اپنے احمقانہ بیانوں کی حدیں پار کررہے ہیں ۔ چار بیوی چودہ بچے کی بات وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں اب انہوں نے کہا ہے کہ سب کی آخری رسومات ہندوئوں جیسی ہوں یعنی سب کو جلایا جائے کسی کو دفن کرنے کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ مسلم ممالک میں ہندوئوں کیلئے شمشان نہیں ہیں اور نہ ہی ان کیلئے مندر ہیں ۔ وہ اپنے وزیراعظم سے ہی پوچھ لیتے تو انہیں اس کی نظیریں مل جاتیں ۔ بی جے پی کے صدرامت شاہ نے چن کر آنے پر سلاٹر ہائوس بند کرنے کااعلان کیا ہے۔ اس کے ذریعہ وہ گوشت مخالف ہندوئوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر گوشت کے مخالف ہو تو بی جے پی کی ووٹ دو۔کیا ان کا یہ بیان مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلاکر ووٹ مانگنے کے زمرے میں نہیں آتا؟

بھاجپا نے اپنی انتخابی مہم اٹاوہ سے غیر یادو اوبی سی کو جوڑ کر شروع کی تھی۔ ٹکٹ دینے سے لے کر انتخابی جلسے، جلوس اور ریلیوں میں ذاتوں اور برادریوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ پارٹی کے ممبران کو اپنی برادری کی پنچایتوں سے بات کرنے اور انہیں پارٹی سے جوڑنے کا کام دیاگیا ہے۔ مودی کے وزیراعظم بننے سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی وزیراعظم نے چنائو میں اپنی ذات بتاکر کسی خاص ـذات کے ووٹ مانگے ہوں ۔ مودی جی نے بہار چنائو میں یہ کام بنا ہچکچاہٹ کیاتھا۔ کسی سبھا میں پچھڑی ذات کا تو کسی میں انتہائی پچھڑے طبقہ کا بتایا۔ ایک دلت اکثریتی علاقے میں تو انہوں نے اپنے آپ کو ایک دلت ماں کی کوکھ سے پیدا ہوا بیٹا بتایا تھا۔ اس وقت ذات کے نام پر ووٹ مانگنا خلاف قانون ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے آپ کو یوپی کا گود لیا بیٹا بتایا۔ متھرا (یوپی) سے دوارکا (گجرات) کا رشتہ جوڑتے ہوئے خود کو کشن کا کل یوگی اوتار بتانے سے بھی وہ نہیں چوکے۔ یوپی چنائو میں ان کی ہر تقریر سیاسی انحطاط کا نیا ریکارڈ بنارہی ہے۔کیا ان کے یہ بول الیکشن کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟

غیر جانبدارانہ انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے جمہوری نظام اور الیکشن کمیشن کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے۔ لیکن پانچ ریاستوں کے موجودہ انتخابات کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا جس سے الیکشن کمیشن پر سوال اٹھ رہے ہیں ۔ اتراکھنڈ میں راہل گاندھی کا روڈ شو مقررہ وقت سے دیر تک چلنے کی صورت میں ان پر مقدمہ قائم ہو گیا لیکن نریندر مودی کی ہری دوار میں بغیر منظوری کے ریلی کرنے کیلئے پارٹی کی مقامی یونٹ پر ایف آئی آر درج ہوئی ۔ پانچوں ریاستوں کے آخری مرحلہ کی پولنگ کے اختتام تک ایگزٹ پول پر اس لئے پابندی عائد کی گئی تاکہ باقی مرحلوں کے ووٹر اس رائے سے متاثر نہ ہوں ۔ اسی پابندی کے تحت جاگرن گروپ کے ایک ایڈیٹر کو ووٹروں کی آراء پر مشتمل ایگزٹ پول شائع کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے یوپی کی تین گریجویٹ ایم ایل سی سیٹوں کے نتائج جاری کردیے۔ اس کا بی جے پی نے خوب بھوں پوبجایا کہ لوگ بھاجپا کے ساتھ ہیں ۔ اتنا ہی نہیں 23 فروری کو مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی عام کردیئے گئے؟ کیا اس کا اثر یوپی کے انتخابات پر نہیں پڑے گا؟ اس دوران یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ کہیں ووٹ پڑرہے ہیں اورکہیں اسی دن انتخابی ریلی ہورہی ہے جس میں وزیراعظم تقریر کررہے ہیں ۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ یوپی کا الیکشن اتنا لمبا کیوں کھینچا گیا؟

ایسا لگتا ہے کہ دوسرے آئینی اداروں کی طرح الیکشن کمیشن کی اپنی آزادانہ حیثیت مجروح ہوئی ہے یا پھر وہ سرکار کے اشارے پر کام کررہا ہے۔ تبھی تو اس کی نظردوسری پارٹیوں کے قابل گرفت بیانات پر زیادہ ہے۔ لیکن بی جے پی کے بد زبان لیڈروں پر وہ کوئی گرفت نہیں کررہا۔ خاص طورپر بی جے پی کے صدر امت شاہ اوروزیراعظم نریندرمودی کے بیانات پر تو بالکل  بھی نہیں ۔ سوائے خانہ پری کے بیانوں کے کہ پارٹیوں کے لیڈران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ کریں ۔ جب مذہبی کارڈکھیلنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ضابطوں کی ان دیکھی کرر ہے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ یہ سیاست نہیں بلکہ حب الوطنی ہے۔ دراصل یوپی میں جس طرح کی غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی و تمدنی بیان بازی ہورہی ہے وہ بی جے پی کی مایوسی و بدحواسی کو ظاہر کرتی ہے۔ راج ناتھ سنگھ تو یہاں تک کہہ گئے کہ 2014 میں آپ نے ہمیں کرتا دیاتھا اب پاجامہ دے دو۔ خیر یوپی کے لوگ سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اور یہ بھی کہ کون بھید بھائو اور تفریق کررہا ہے۔ ریاست میں 19.31 فیصد مسلمان ہیں بی جے پی نے ان میں سے ایک کوبھی ٹکٹ نہیں دیا جبکہ 2014 کے انتخابات کے بعد خود بی جے پی کے  صدر نے قبول کیاتھا کہ انہیں  15 فیصد مسلمانوں کے ووٹ ملے ہیں ۔وجے گوئل نے مانا تھا کہ 40 سیٹیں مسلمانوں کے ووٹوں کی وجہ سے ہی بی جے پی جیت پائی۔ اس الیکشن میں فرقہ وارانہ نفرت پیدا کر بانٹنے اور ووٹروں کو بھٹکانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ یہ الیکشن کے نتائج بتائیں گے کہ تفریق پیدا کرنے والے یوپی کے عوام کوگمراہ کرنے میں کتنے کامیاب ہوئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔