مدارس اسلامیہ کی تعلیم و تحریک

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ان دنوں دینی مدارس غیروں کے ہی نہیں اپنوں کے بھی نشانہ پر ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ کبھی کوئی ان کی تعلیم پر سوال اٹھتا ہے تو کبھی ان کے ذریعہ بچوں کے مستقبل کو برباد ہونے سے بچانے کیلئے جدید کاری پر بات ہوتی ہے۔ کبھی انہیں شدت پسندوں کو تیار کرنے کی فیکٹری بتایا جاتا ہے، تو کبھی ان میں ترنگا لہرانے کی ویڈیو گرافی کرانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اکثر ان کی آمدنی کے ذرائع اور اخراجات کو لے کر شک وشبہات ظاہر کئے جاتے ہیں۔ آجکل طلبہ مدارس کے ڈریس کوڈ پر بحث ہو رہی ہے۔

مدارس سے واقفیت کیلئے ان کی تحریک اور تعلیمی تاریخ کو جاننا ضروری ہے۔ جب دنیا میں کہیں بھی ادارہ جاتی نظام نہیں تھا، اس وقت عباسی خلفاء خاص طور پر ہارون رشید نے ایسے مدارس قائم کیے تھے جہاں دینی علوم کے ساتھ سائنس، تاریخ، حکمت،ثقافت، منطق، فلسفہ، علم نجوم، علم فلکیات، علم کیمیا، آرٹ، کلچر اور مختلف زبانوں کی تعلیم ہوتی تھی۔ ہارون رشید نے بیت الحکمہ کے نام سے لائبریری قائم کی تھی جس میں دنیا کی اہم ترین کتابیں جمع کی گئی تھیں۔ وسیع پیمانے پر کتابوں کا دیگر زبانوں سے عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یونانی اور بھارتیہ علوم محفوظ ہو گئے۔ اس وقت یورپ کلیسا کی بالا دستی اور ہر چیز میں مداخلت کی بناء پر خونریز جنگوں میں ملوث تھا۔ وہاں جو بھی غوروفکر یا کلیسائی دقیانوسی تصورات سے الگ بات کرتا، اسے سماج کو گمراہ کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ مامون الرشید کو جب پلیٹو کی تحقیقات اور لائبریری کا علم ہوا تو وہ ساری کتابیں بیت الحکمہ لے آئے اور ان کا عربی میں ترجمہ کرایا۔ اسی طرح بھارت کی بہت سی کتابیں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہوئیں۔ پنچ تنتر کی کہانیاں سنسکرت میں لکھی گئی تھیں جن کا عربی میں قلیلہ و دمنہ کے نام سے ترجمہ ہوا بعد میں عربی سے ہی بھارت کی زبانوں میں اسے منتقل کیا گیا ہے۔ منصور کے زمانہ میں سوریہ سدھانت کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہوا جسے بعد میں بڑی قیمت ادا کرکے یورپ نے اس کی ایک کاپی حاصل کی۔ آج کی خلائی تحقیقات اسی کتاب کی مرہونِ منت ہے۔

اس دور کو اسلام اور مسلم سائنسدانوں کے سنہرے دور کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ مسلم سائنسداں انہیں مدارس کی دین تھے جو اس وقت موجود تھے۔ ان مدارس میں لیکچر کے ذریعہ تعلیم دی جاتی تھی اور عملی مشق نصاب کا لازمی جزو تھا۔ مباحثہ، سوال وجواب، غور وفکر اور تحقیق کا تعلیمی ٹول کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مختصر یہ کہ جدید تعلیم کا نظریہ بیت الحکمہ کا ہی تیار کردہ ہے۔ یوروپ اس دور کو اپنا بلیک ٹائم کہتا ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جب بھارت میں تکشلا، نالندہ اور وکرم شیلا جیسی یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی تھیں۔ تعلیم حاصل کرنے کیلئے دور دراز علاقوں جیسے تبت، چین، کوریہ، جاپان اور سینٹرل ایشیا سے طلبہ یہاں آتے تھے۔ سناتنی ہندوؤں اور بودھوں کے تصادم کی وجہ سے یہ یونیورسٹیاں زوال پذیر ہو گئیں۔ اسی طرح سقوط بغداد کے بعد وہ مدارس جو دنیا بھر کے علوم کو محفوظ کرنے اور علماء کی پزیرائی کرنے کا کام کر رہے تھے، تنزلی کا شکار ہو گئے۔

بھارت میں پہلی مرتبہ سکندر لودی نے عوام کیلئے مدارس قائم کیے تھے۔ اس سے پہلے عام لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں تھا۔ تعلیم صرف برہمن یا اعلیٰ ذات کے لوگوں تک محدود تھی۔ سکندر لودی کے ذریعہ قائم کردہ مدارس میں ہندو مسلمان، اعلیٰ و ادنیٰ سب ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ اس وقت سرکار کے کام کاج کی زبان فارسی تھی۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے اردو اور انگریزی کو بڑھاوا دیا۔ جس کی وجہ سے یہاں کے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بے کار ہو گئے۔ لارڈ میکالے نے اپنے ایک بیان میں زیادہ تر لوگوں کے خواندہ ہونے کی بات مانی ہے۔ اس نے نئی تعلیمی پالیسی لاگو کی جس سے انگریزوں کو اپنی ضرورت کے لوگ مل گئے لیکن ساتھ ہی ان پڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اسی کے نتیجے میں کہاوت بنی پڑھے فارسی بیچے تیل۔

ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کیلئے 1857 میں جو لڑائی لڑی گئی اس میں علماء کرام پیش پیش تھے۔ اس میں ناکامی کی وجہ سے بڑی تعداد میں علماء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اسی کے بعد انگریز پوری طرح ملک پر قبض ہو گئے۔ عام معافی کے بعد انگریزوں نے ملک کے مختلف حصوں میں عالیہ مدارس قائم کئے۔ ان میں طعام وقیام اور تعلیم کا مفت انتظام تھا۔ انگریزوں نے عیسایت کے تئیں جس طرح کا جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا اس نے بچے ہوئے علماء میں مسلمانوں کے ایمان اور دینی علوم کو بچانے کی فکر پیدا کی۔ جس کے نتیجہ میں 31 مئی 1866 کو دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا۔ دارالعلوم کی بنیاد دیوبند میں شاید اس لئے رکھی گئی کہ اس کے چاروں طرف کھیتی سے جڑے کسان مسلمانوں کے گاؤں ہیں۔ دارالعلوم میں بھی وہی نظام رکھا گیا جو عالیہ مدارس میں تھا۔ اس کے تمام اخراجات مسلمانوں کے مخیر حضرات برداشت کرتے اور غلہ کی ضرورت آس پاس کے مسلم کسانوں سے پوری ہوتی تھی۔ اسی نہج پر پورے ملک میں مدارس قائم ہوئے۔ کچھ علماء نے دارالعلوم کے نصاب سے اختلاف کیا جس کے نتیجہ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء، الاصلاح، الفلاح، سلفیہ اور جامیہ رضویہ منظراسلام جیسے مدارس وجود میں آئے۔

ملک میں پچھلی دو دہائیوں میں جس تیزی سے مکاتب اور مدارس قائم ہو ئے اور ہو رہے ہیں انہیں دیکھ کر مدرسوں کے کاروباری شکل میں بدل جانے کا شک ہوتا ہے۔ ان کے اخراجات کو پورا کرنے کے نام پر ایک ہجوم ہے جو چندہ جمع کرنے کا کام کر رہا ہے۔ پہلے مدارس اپنے علاقہ کے لوگوں کے تعاون سے چلتے تھے۔ کچھ بڑے مدارس جن کا خرچ زیادہ ہوتا تھا وہ بڑے شہروں میں جا کر اپنی ضرورت پوری کر لیتے تھے، اس میں اخلاص شامل تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ مدارس کے لوگ زکوٰۃ، فطرہ، عیانت اور صدقات سب پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے غربا ومساکین کا حق مارا جا رہا ہے۔ شمالی ہند کے مدارس کے سفرا کی بڑی تعداد جنوب میں نظر آتی ہے۔ ان میں سے کتنے صحیح ہیں، یہ اندازہ کرنا بھی جنوب کے لوگوں کیلئے دشوار ہے۔ اب تو مدارس کے لوگ دیگر ممالک سے بھی چندہ جمع کرکے لانے لگے ہیں۔ کچھ چندہ کرنے والے پچاس فیصد کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ غریب خاندانوں کے بچوں کو زبردستی مولویوں کے ذریعہ مدرسہ لانے کی شکایتیں بھی ملی ہیں۔ مدارس کی باڑھ سے مسلکی اختلاف اور قومی انتشار میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے قرآن سے دوری، قرآن جگہ جگہ غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور تقلید کی نفی کرتا ہے۔ مدارس کے نصاب میں غلاموں کی مثالیں موجود ہیں جبکہ غلامی ختم ہوئے سیکڑوں سال ہو چکے۔ تعلیم ذہن کھولنے اور وسعت پیدا کرنے کا کام کرتی ہے لیکن مدارس سوچ کو محدود کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ وہاں شیخ الحدیث تو ہوتے ہیں لیکن مفسر قرآن نہیں ہوتے۔ مدارس کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے جبکہ اسلام قلعہ میں محصور ہونے کیلئے نہیں بلکہ ہدایت کیلئے آیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو دین پر اپنی سہولت کے لحاظ سے عمل کرتا ہے اس کیلئے دنیا میں ذلت اور قیامت میں شدید عذاب ہے۔ اس کے باوجود علماء یہ سمجھاتے ہیں کہ قرآن عام لوگوں کی سمجھ میں آنے والی کتاب نہیں ہے۔

مدارس کے حضرات نے مفت لازمی تعلیم کو بنیادی حقوق میں شامل کیے جانے کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ ایسا ہونے پر سب کو بنیادی تعلیم فراہم کرنا سرکار کی ذمہ داری ہو جاتی جس کی وجہ سے مدارس بند ہو سکتے تھے۔ مدارس مسلمانوں کا ایسا سرمایہ ہیں جن سے قوم کی تعلیمی نیو مضبوط کی جا سکتی ہے۔ مدارس پر تنقید کرنے والوں کی باتوں پر دھیان نہ بھی دیا جائے لیکن ان سے وہ بھی مطمئن نہیں ہیں جو ان کا حصہ ہیں یا رہے ہیں کیونکہ یہ زمانہ کے لحاظ سے اپنے آپ کو اپ ڈیٹ نہیں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بارہ چودہ سال گزارنے والے بچے کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنی روزی روٹی کیسے حاصل کرے گا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسکول میں پڑھنے والے مدارس کے طلبہ سے زیادہ دین دار ہوتے ہیں۔ علم صرف علم ہوتا ہے لیکن مدارس نے اسے دنیا اور دین کے خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ سرکار یا اس کے نمائندے کسی خاص مقصد کے تحت ان پر تنقید کرتے ہیں۔ کوئی انگلی نہ اٹھا ئے، اس کا خیال خود مدارس کو رکھنا ہوگا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مدارس نے سرکار کے سرو شکچھا ابھیان کو کامیاب بنانے اور خواندگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ان علاقوں میں بھی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں جہاں تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس اعتبار سے بھی ان کی خدمات کو دیکھا جانا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔