انور اعظمی کے افسانے

ڈاکٹر فیاض احمد

انور اعظمی کی شخصیت کئی خوبیوں کی حامل ہے وہ بیک وقت ایک اچھے انسان، عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز شاعر، بے باک صحافی، مضمون نگار وافسانہ نگار تھے۔

انور اعظمی کے مضامین اور افسانے ماہنامہ ــ’’دانش‘‘  رامپور، ماہنامہ ’’زندگی‘‘ رامپور، کے علاوہ ’’معیار‘  ’انوار‘  ’فردوس‘  ’سلسبیل‘‘اور ’’حیات نو‘‘جیسے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے جبکہ بحیثیت صحافی وہ برما کے  ہفت روزہ اخبار ــ’ البلاغ ‘  ہفت روزہ ’انقلاب ، روزنامہ’’  پرواز  سے وابستہ رہے کچھ دنوں روزنامہ’  پیغام‘ کانپور سے بھی وابستگی رہی اور ہر جگہ اس کثیر الجہت قلمکار نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔ انور اعظمی کو زندگی نے کم مہلت دی اس کے باوجود  انھوں  نے بیش بہا علمی و ادبی خدمات انجام دیں ۔ ان کی علمی ادبی و صحافتی خدمات  اور ان کی مقبولیت کا دائیرہ ہندوستان کی  بہ نسبت برما میں زیادہ وسیع تھا شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال کے بعد ہندوستان میں تو کسی نے ان کو یاد  نہیں کیا کسی کی آنکھ اشکبار نہیں ہوئی لیکن برما میں ان کے رفقاء اور دیگر  اہل علم و ادب نے ان کی جدائی پر آنسو بھی بہائے  اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا  اعتراف  بھی کھلے دل سے کیا۔ چنانچہ ان کے انتقال کے بعد برما کے ہفت روزہ اخبار ؛انقلاب ؛نے  اپریل  ۱۹۶۱ میں باقاعدہ انور اعظمی نمبر شائع کر کے ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اسی طرح برما کے روزنامہ اخبار ؛پرواز ؛میں بھی ان کے متعدد احباب اور اہل علم کے تفصیلی مضامین شائع ہوئے جس سے ان کی شہرت و مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے بقول مولانا احمد محمود کوثر اصلاحی کہ  :مضامین سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بر بنائے عقیدت نہ تھا بلکہ مبنی بر حقیقت ہے

ہندوستان میں انور اعظمی کے رفقاء میں مولانا احمد محمود کوثر اعظمی شاید واحد آدمی تھے جن کی آنکھیں ان کی موت پر سب سے زیادہ  اشکبار ہوئی تھیں اور انھوں نے ان کی حیات و خدمات پر بہت تفصیلی مضمون لکھا تھا جو ان کی نظموں کے مجموعہ کلام ؛اذان سحر ؛ میں شامل ہے۔ ادھر  چند سالوں قبل انور اعظمی کی شخصیت اور فن پردو لوگوں نے پی ایچ ڈی کر کے ان کو علمی حلقوں میں متعارف کرانے کا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر سلمان نے شبلی کالج اعظم گڑھ سے اور ڈاکٹر ساجد نے شانتی نکیتن سے پی ایچ ڈی کی ہے دونوں کو راقم السطور کی جانب سے تہ دل سے مبارکباد۔

انور اعظمی کے انتقال کے بعد ان کے ورثہ نے ان کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد اور تمام جاندار و بے جان املاک پر حق ملکیت جتایا اور سب نے اپنی اپنی وسعت اور ظرف کے مطابق اپنا حق وصول کیا لیکن انکی اصل میراث ان کے علمی وادبی سرمائے کو کسی نے بھی لائق اعتنا ء نہیں سمجھا کیونکہ یہ  گھاٹے  کا سودا تھا اور مادہ پرستی کے اس  دور میں گھاٹے کا سودا کون کرتا ہے تجارت پیشہ لوگ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے وہ تو خدا بھلا کرے انور اعظمی کے عزیز دوست مولانا احمد محمود کوثر اعظمی صاحب  کا کہ انہوں نے حق دوستی ادا کیا اور انہی کی کوششوں  کے  طفیل ان کی پر جوش نظموں کا مجموعہ ’’اذان سحر‘‘ ۱۹۶۷ ؁میں منظر عام پر آیا تھا جو اب نایاب ہو چکا ہے ان کا ایک شعر آج بھی میرے ذہن میں گونجتا ہے

انور مر ی اذان سحر کچھ  نہ ہو مگر

برہم مزاج دیروکلیسا ہوا تو ہے

انور اعظمی نے اپنے قلم کے ذریعہ  ایک انقلاب لانے کی کوشش کی تھی اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیر و حرم کی پروا کئے بغیر حق گوئی و بے باکی کا ثبوت دیا لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہیں دی اور علم و ادب کا یہ چڑھتا سورج زوال سے پہلے ہی غروب  ہوگیا۔

  ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مردہ پرستی کی روایت بہت قدیم رہی ہے، جہاں زندوں کو جلا دیا جا تا ہے لیکن مردوں کے مجسمے بناکر ان کی پوجا کی جاتی ہے ان کی تصویروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں جہاں حقیقی فنکار تو گمنام مرجاتے ہیں لیکن جوڑتوڑ میں ماہر۔ خوشامد پسند خصیہ بردار سرکاری ڈونگوں کے چمچے اعزاز سے نوازے جاتے ہیں جہاں کے لوگ اصلی فنکار کو تو جیتے جی گھاس بھی نہیں ڈالتے لیکن مرنے کے بعد پدم شری، گیان پیٹھ  یا بھارت رتن کا مطالبہ ضرور کرتے ہیں اکیڈمیوں اور سرکاری اداروں کا تو یہ حال ہو چکا ہے کہ ان کے انعامات بھی اب گالی محسوس ہوتے ہیں۔ دانشوروں اور نقادوں کا معاملہ  تو پہلے بھی’’ من ترا حاجی بگویم  تو مرا حاجی بگو ‘‘تھا آج بھی وہی ہے بہر کیف۔ ۔ ۔

انور اعظمی کے اعزہ و اقارب کوان کی وفات کے نصف صدی سے زائد عرصہ کے بعدان کا خیال آیا اور ہندوستان کی مردہ پرستی کی روایت  پر عمل کرتے ہوئے ان کی علمی وراثت کومنظر عام پر لانے کا جذبہ  بیدارہوا   بہر کیف۔ ۔ ۔ ۔ دیر آید  درست آید

انور اعظمی نے جس دور میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا وہ انتہائی پر آشوب دور تھا ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں کتنے خاندان تقسیم ہو چکے تھے کتنے بکھر چکے تھے کتنے رئیس وزمیندار راتوں رات فقیر ہوچکے تھے اور کتنے رذیل وزیر بن چکے تھے، عوام پریشان تھی ملک تباہی کے دور سے گذر رہا تھا، ان حالات میں ادیبوں قلمکاروں اور شاعروں کی ایک جماعت تھی جو ملک و قوم کے درد کو اپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام تک پہنچارہی تھی انور اعظمی نے بھی اس درد ناک منظر کو قریب سے دیکھا تھا ان کی آنکھیں  بھی خون کے آنسو روئی تھیں وہی درد  اور کرب ان کے افسانوں میں صاف طور پر نظرآتاہے

انور اعظمی چونکہ مدرسۃالاصلاح کے پروردہ اور جماعت اسلامی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے جن کے سینے میں ایک جاں گداز دل دھڑکتا تھا اسی لئے ان کی تحریروں میں اخوت، محبت، انسانیت، بھائی چارگی اور اصلاح معاشرہ کا عنصر نمایاں ہے انہوں نے نظم و نثر ہر جگہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے سماج و معاشرہ کے ناسوروں پر نشتر زنی کی ہے ان کے افسانوں میں جو  خاص  بات نظر آتی ہے وہ یہ کہ بیشتر افسانوں کا (سب کا نہیں )  اختتام  ایک خاص پیغام یا اصلاحی پہلو پر ہوتا ہے  افسانے کی آخری چند سطور یا چند جملے سے افسانہ کا مقصد نہ صرف واضح ہو جاتا ہے بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے  مثال کے طور پر ایک افسانہ  ؛؛بقدر وسعت‘‘ کا اختتام یوں ہوتاہے کہ ــ’

’منشی جی ہوں یا وحید خان ہر شخص تو اپنی وسعت بھر  دوسرے کی گردن ہی کاٹتاہے‘‘

اسی طرح افسانہ ِ ِ؛ پاگل، کا اختتام ملاحظہ ہو

’’میں سوچ رہا تھا کہ کل ڈاکیہ کو بتلا سکوں گا کہ پیٹ سے بلند کچھ اور بھی ہے جس کے سامنے جاڑے کی شدت اور گرمی کی تیزی کا بھی کچھ اثر نہیں ‘‘

انور اعظی کے بیشتر افسانوں کا اختتام اسی انداز میں ہوتاہے جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ’’ وہ ادب  برائے ادب ‘‘کے قائل نہیں بلکہ ’’ادب برائے زندگی ‘‘ کے علمبردار ہیں ان کے نزدیک ادب صرف وقت گذاری اور تفریح کا سامان نہیں بلکہ اس سے ذہن و دل کی آبیاری اور سماج کی اصلاح مطلوب ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں افسانہ کے بنیادی عناصر (پلاٹ ، کردار، مکالمہ ) کے چست درست ہو نے کے باوجود اس کی زبان اور اسلوب بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہو تے ہیں جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہیں مذکورہ خوبیوں کے ساتھ ہی افسانہ نگار کا نظریہ اور اسکی فکر بھی قاری کو متاثر کر تی ہے اور اسکی ذہنی  تعمیر میں اہم رول ادا کر تی ہے  افسانہ نگار کا مقصد حیات اور زاویہ نظر لا شعوری طور پر اسکی تحریروں میں نظر آتا ہے جو اسکی ادبی مقصدیت اور نظر یہٰ ٰ حیات کو واضح کر تا ہے اس لحاظ سے بھی ہم انور اعظمی کو ایک کامیاب افسانہ نگا ر کہہ  سکتے ہیں ان کے  افسانوں میں مذکورہ تمام خوبیاں مو جو د ہوتی ہیں جو قاری کو  ذ ہنی  آسودگی کے ساتھ فکری بالیدگی بھی عطا کر تی ہیں ان کے افسانے بیک وقت نشتر اور مرہم دونوں کا کام کر تے ہیں وہ کسی سماجی برائی پر قلم اٹھا تے ہیں تو ساتھ ہی اسکا حل بھی اشاروں کنایوں میں تو کبھی بر ملا پیش کر تے ہیں جو قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کر تے ہیں۔

انور اعظمی کے افسانوں میں منشی پریم چند کا عکس نمایاں ہے منشی پریم چند کی طرح ہی انور اعظمی کے افسانوں کے  پلاٹ اور کردار دیہات کی زندگی، کھیت کھلیان، مفلسی وفاقہ کشی کسان اور کسان کی مجبوریاں، سود ی نظام، زمینداروں اور جاگیر داروں کا ظلم، کاشتکاروں کے مسائل، سسکتی ہو ئی تہذیب  بلکتی ہوئی انسانیت، زخم خوردہ سماج، ٹوٹتے بکھرتے رشتے، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر مبنی ہے۔

انور اعظمی کے یہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے گھریلو تنازعات ہوں یا سیاسی مسائل رشتوں کی کشمکش ہو یا مادیت پرستی کا رجحان خا نہ جنگی ہو یا گاوں کی گھٹیا سیاست حتی کہ ملک کی آزادی اور آزادی کے بعد پیدا ہونے والی ذہنی  غلامی سب نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ بڑی ہنر مندی سے انہیں افسانوں کا موضوع بنایا۔

انور اعظمی کے افسانوں کو پڑھتے ہو ئے ایسا لگتا ہے کہ انکا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں انتہائی وسیع ہیں انہوں نے پڑھا زیادہ ہے لکھا کم ہے ایسا قلم کار جب قلم اٹھا تا ہے تو اسکے  فن پاروں میں اختصار کے باوجود انتہائی جامعیت اور انفرادیت ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ انور کے افسانوں میں منشی پریم چند کے علاوہ کہیں کہیں منٹو کا عکس بھی جھلکتا ہے  جو لاشعوری طور پر انکے مطالعہ ومشاہدہ کی وجہ سے انکے افسانو ں   میں در آیاہے چناچہ انور کا افسانہ  ؛  راول، پڑھتے ہوئے بے ساختہ منٹو کے ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ، راول اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کردار میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے ہا ں !  اتنا ضرور ہے کہ منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا کینوس ذرا وسیع ہے  اور اسکا کردار ایک عالمی کردار بن گیا ہے جو عالمی سطح پر نسل انسانی کی تقسیم کے خلاف صدائے احتجاج کی ایک علامت بن گیاہے جبکہ انور کا  راول ایک ہندوستانی کردارہے جو جنگ آزادی اور آزادی کے بعد زمینداری کے اختتام کا نتیجہ ہے  راول  کا پلاٹ چھوٹا ہے کردار مختصر ہے لیکن اسکے مکالمے اور منظر نگاری کی وجہ سے اس عہد کی پوری تاریخ آنکھوں کے سامنے  آ جاتی ہے کہ آزادی ملنے کے بعد بھی زمینداری کے خاتمہ سے زمینداروں پر کیا گزری  اسکو بڑی خوبصورتی سے انور نے  راول میں بیان کیا ہے اسکے انجام کو پڑھتے ہو بے ساختہ جان نثار اختر کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ

سستے داموں  لے  تو آتا لیکن دل تھا بھر ٓایا

جانے کس کا نام کھدا  تھا پیتل کے گلدانوں پر

انور نے  ملک  کی آزادی کے بعد بھی ذہنی غلامی، سرمایہ داری سودی نظام اور مہاجنوں کے ذریعہ  غریبوں کا استحصال کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے اور’’آزادی کے بعد‘‘’’چراغ کیوں جلے ‘‘اور ’’  بقدر وسعت ‘‘  جیسے افسانے  لکھ کر عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی اسی طرح ان کے افسانے ’  ’ہیرو ‘‘اور ’’مزدور‘‘بھی اپنے موضوع کے لحاظ سے کافی اہم ہیں۔

اشتراکیت یا کمیونزم کے خلاف بھی انور نے بڑی خوبصورتی سے اظہار خیال کیا ہے اور اس موضوع پر ان کا افسانہ ’’ اپنی دنیا‘‘کمیونزم کے نظریہ  مساوات پر کاری ضرب ہے۔

 گاؤں کی گھٹیا سیاست روزاول سے قومی انتشار ، ملی و مسلکی اختلافات، نسلی تعصبات اور اور خانہ جنگی کا سبب رہی ہے اور بہت ساری دشمنیاں اور تنازعات اس کی پیداوار ہیں، انور نے اس موضوع  پر بھی ؛ سر پنچ ، اور ’’فیصلہ کن‘‘جیسے شاندار افسانے لکھے ہیں اسی  طرح جنسیات کے موضع پر ان کا افسانہ ’’ڈوپٹے کا پھندہ۔ ‘‘ کافی اہم ہے اس افسانہ میں انور نے ایک ماہر نباض کی طرح  ہمارے گھر اور سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور گھر کی چہار دیواری کے اندر برائی کس طرح جنم لیتی ہے کن کن دروازوں سے وہ داخل ہوتی ہے اور کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان تمام عومل کا تجزیہ انور نے افسانہ کے اختتام پر یوں کیا ہے ملاحظہ ہو:

’’رشیدہ  تو  جیسے  ببول کی  لکڑی  تھی جسے سلطان کی باتوں نے جڑسے الگ  کردیا تھا اور سکھانے کا فرض  پچھلے سال سے آنے والے رسالوں نے پورا کردیا تھا وہ اس  قسم کے بے شما رواقعات کو پڑھ کر لطف لے چکی تھی اور اگر عملی طور پر نہیں تو تصوراتی طور پر اس نے باقاعدہ مشق بھی بہم پہنچائی تھی اس طرح دل میں جوکچھ کدورت تھی  اسے ، مدیران محترم ، کی کامیاب کوششوں نے کھرچ کر پھینک دیا تھا۔ پھر بھی پہلی بار جب سلطان نے اس کا ہاتھ  دبایا  تو وہ  بڑی الجھن  میں پڑگئی اور چلتے پھرتے ایک پریشان کن خیال اس کے ذہن پر مسلط رہا لیکن واقعہ یہ تھا کہ اس الجھن اور پریشانی میں بھی اسے ایک عجیب سی لذت محسوس ہو رہی تھی اور وہ ناموس ، عزت ، غیرت، وغیرہ وغیرہ کے جھمیلوں سے بہت جلد گزر گئی۔‘‘

غربت اور افلاس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی انسانی  جھنجھلاہٹ  سے پیدا ہونے والے گھریلو تنازعات ہر سماج، ہر معاشرے کا حصہ کل بھی تھے آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے مزید برآن شیطان ہر پل انسان کوور غلاتا ہے اور اپنے ہی بھائی کے خلاف جنگ پر آمادہ کر تا ہے اسے نقصان پہونچانے پر اکساتاہے بسا اوقات اس جنگ وجدال کا سبب غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہیں دوسری طرف انسان کا نفس لوامہ  بھی ہوتا ہے جو ہرقدم انسان کو غلط کام کرنے سے روکتا ہے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑتاہے ان دو متضاد کیفیات کو  انور نے بڑی خوبصورتی سے اپنے افسانہ ’’کالاہاتھ‘‘میں  پیش  کیا ہے۔

انور اعظمی کے افسانوں کے مجموعہ ’’افسانے‘‘ میں دو انشائیے’’مرشد‘‘اور ’’جوتا ‘‘بھی شامل ہیں جس کی اس مجموعہ میں چنداں ضرورت نہ تھی اس لئے کہ وہ افسانے ہرگز  نہیں ہیں ہاں ان کااندازبیان افسانوی ضرور ہے لیکن ان کے ورثہ نے ایک طویل مدت کے بعدبھولا ہوا قرض اتارا ہے تو  شاید  ’’قرض مع سود‘‘کی واپسی کے مصداق ان انشائیوں کو بھی  سود کے طور پر شامل کردیاہے۔ اس کے جوازوعدم جواز سے قطع  نظر ’’بھاگتے بھوت کی لنگوٹ‘‘ کے مثل جو بھی ہو  جائے  غنیمت ہے۔

 بحیثیت مجموعی انور اعظمی کی تخلیقات اور افسانوں کا مقصد وحید سماجی و معاشرتی اصلاح، نسل انسانی کی فلاح وبہبود اور ان کے درخشاں مستقبل کی آرزو ہے، انور کے افسانوں کے کردار اپنے تمام تر سماجی و سیاسی اثرات، داخلی کیفیات و خارجی امکانات کے ساتھ قاری کو جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں ان کے مکا لمے قاری کے دل ودماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور اسے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں دراصل یہی  ہر  اچھی تخلیق، تحریر  اور  تقریر  کی علامت ہے کہ’’ازدل  خیزد بر دل ریزد۔

3 تبصرے
  1. ڈاکٹر وسیم فراہی کہتے ہیں

    بہت خوب

    1. شمیم ارشاد کہتے ہیں

      افسانہ کا اچھا تعارف کرایا گیا ہے.

      1. عزیز اعظمی کہتے ہیں

        بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب آپنے ایسی نایاب علمی شخصیت سے متعارف کرایا جس کے بارے ہمیں کوئی علم نہیں تھا ، انکے افسانے اگر کہیں سے دستیاب ہو سکیں تو ضرور بتائیے گا ۔۔
        بہت شکریہ ۔

تبصرے بند ہیں۔