مدارس اسلامیہ: گہوارۂ امن و محبت

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

مادر وطن ہندوستان کے حالات روز افزوں بگڑتے جارہے ہیں ،جمہوری اقدار و روایات مائل بہ تنزل نظر آرہے ہیں ، ہر صبح طلوع ہونے والا سورج کسی نئی آزمائش اور ہر شام ڈوبتا آفتاب،کسی تازہ مصیبت کی پیشین گوئی کررہا ہے۔ اسلامیان ہند کے ملی تشخص کو مسخ کرنے، دین و شریعت میں کھلم کھلا مداخلت کرنے اور ہر میدان میں اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے بعد اب ان کا ہدف مدارس اسلامیہ ہے۔

چناں چہ حکومت کے پروردہ،فسطائیت کے ترجمان،ننگ دین و ملت اترپردیش شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے خاطر وزیراعظم نریندر مودی کو 11 صفحات پر مشتمل مکتوب روانہ کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ دینی مدارس کے موجودہ نظام کو ختم کرکے ان کا ریاستی ایجوکیشن بورڈ اور آئی سی ایس سی بورڈ سے الحاق کردیں ۔رضوی صاحب نے یہ بھی لکھا کہ ملک بھر میں جگہ جگہ موجود دینی مدارس طالب علموں کو دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں ؛اس لیے مدرسہ بورڈ کو بھی فوری اثر کیساتھ تحلیل کردینے کی ضرورت ہے۔

 وسیم رضوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے دینی مدارس کی اکثریت غیرمسلمہ ہیں جو اپنے یہاں طلباء کو ایسی تعلیم فراہم کرتے ہیں ؛ جس سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیز ملک کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں دینی مدرسے خودرو پودوں کی طرح بڑھتے جارہے ہیں جہاں غلط طریقے سے مذہبی تعلیم دی جارہی ہے۔ اور اِن مدرسوں کی فنڈنگ پاکستان، بنگلہ دیش اور چند دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے کی جارہی ہے۔

غور کیاجائے تو رضوی صاحب کا یہ بیان محض نفرت و تعصب کو ہوا دینے اور امن و آشتی کی فضا کو مکدر کرنے کی ناکام کوشش ہے، دینی مدارس کے خلاف مختلف زمانوں میں ایسی زہرناک سازشیں ہوتی رہیں ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی؛لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کی تمام تدبیریں انہی پر الٹ دیں اور انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اسلام امن و سلامتی کا گہوارہ ہے اور مدارس کے طلباء کو دنیا میں امن کا پرچار کرنے کا درس دیا جاتا ہے اسلام دشمن قوتیں دین اسلام کو بدنام کرنے کے درپے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام کی امیج کو توڑ پھوڑ کر پیش کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اپناتی رہتی ہیں ۔اور اب تو یہ بات عالم آشکارا ہوچکی ہے کہ دینی مدارس جہاں حفاظت اسلام کے مضبوط قلعے ہیں وہیں امن و شانتی اور محبت و ہمدردی کے علمبردار بھی ہیں ۔دشمنانِ اسلام بھی اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں ، اسی لئے وہ ان مدارس کو ختم کرنے، بند کرانے یا کم از کم بدنام کرنے کی تگ و دو میں پوری طرح مصروف نظر آتے ہیں ۔

 اس پر فتن اور پر آشوب دور میں دینی مدارس اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتِ عظمیٰ ہیں جس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی، اسلامی تعلیمات اور خالص دینی افکار و نظریات کی بقاء اور ترویج و اشاعت میں دینی مدارس کا کردار بلا شک و شبہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ کفر و نفاق، الحاد و زندقہ، بدعات و خرافات اور دین کے نام پر دین کو ذبح کرنے کی کو سازشوں کے سامنے اگر کسی نے بند باندھا تو وہ یہی مدارس اور ان مدارس کے تربیت یافتہ ابناء تھے۔ امت کو بلند کردار، صالح اور بے باک قیادت فراہم کرنے کا سہرا بھی مدارس دینیہ کے سر سجتا ہے۔ الغرض خلق کی خدمت،قانون کی رعایت اور ملک کی محبت میں دینی مدارس کا کردار مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔

ہم صرف معاشرتی برائیوں پر ایک نظر ڈالیں ہمیں اندازہ ہوگا کہ علماء مدارس نے اس کے سلسلہ میں کیا کارنامے انجام دیے! مہنگائی، بدعنوانی، توانائی کی قلت، قرضوں کا ناقابل تحمل بوجھ، دلوں کی ویرانی، محبتوں اور خلوص کی کمی، خود غرضی، ہوس و حرص کی گرم بازاری، اولاد کی نافرمانی، شادی شدہ مردوں کی بے راہ روی، بیویوں کی آزادمنشی، اخلاقی اقدار کی پامالی، جائیداد اور وراثت پر بھائیوں کے جھگڑے، چور بازاری، بلیک میلنگ،وغیرہ… غرض معاشرے کی وہ تمام برائیاں جن سے شریف لوگ پناہ مانگتے ہیں ، ان میں سے کسی کی جڑیں آپ کو دینی مدارس سے ملتی دکھائی نہیں دیں گی، بلکہ اگر ان برائیوں میں کچھ کمی ہے تو وہ مدارس میں گونجنے والی قال اللہ اور قال الرسول کی روح پرور صدا ؤں کی برکت ہے۔ سوچیے ! اگر یہ دینی مدارس نہ ہوتے، اگرمدارس میں اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کی حفاظت اور ان کی تشریح، منبر و محراب میں ان کی تلقین اور تعلیم نہ ہوتی تو پھر معاشرے کا کیا حال ہوتا؟

 اگربالفرض دہشت گردی میں ملوث بعض لوگ مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے تھے توا ن سے کہیں زیادہ لوگ ان میں ایسے ملیں گے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی پیداوار ہیں ۔ مدارسِ دینیہ کسی بھی معاشرے میں روحانی ایمانی اور اخلاقی بیماریوں کے لیے ہسپتال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر کسی معاشرے میں بیماریاں بڑھ جائیں ، کوئی وبا پھیل جائے تو کوئی احمق بھی ہسپتالوں کو الزام نہیں دے سکتا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ وبائی حالات میں ہسپتال کم پڑجائیں ۔ ضرورت کے بقدر معالجین میسر نہ آئیں ، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی، آلات کی نایابی اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے کچھ مریض مرجائیں ، کچھ کو واپس کردیا جائے، مگر پھر بھی کوئی ڈاکٹروں پر الزام عائد نہیں کرتا،بلکہ پوری قوم معا لجین کی مشکور ہوتی ہے کہ وہ کٹھن حالات میں بھی دن رات ایک کرکے اپنی سی پوری کوشش کرکے لوگوں کو موت کے منہ سے نکال رہے ہیں ۔

مدارس کیا ہے ؟

 مدارس کی اسی عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں :میں مدرسہ کو نائبین رسول وخلافت ِ الہی کافرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ و بقا کا راستہ دکھانے والے افراد تیار کرنے والوں کا ایک مرکز سمجھتا ہوں ، میں مدرسہ کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتا ہوں ۔۔ ۔ جب دنیا میں ہر حقیقت کا انکا رکیا جارہا ہو اور یہ کہا جارہا ہوکہ سوائے طاقت کے کوئی حقیقت ہے ہی نہیں ، جب دنیا میں ڈنکے کی چوٹ پر کہا جارہا ہو کہ دنیا میں صر ف ایک حقیقت زندہ ہے اور سب حقیقتیں مرچکیں ، اخلاقیات مرچکے، صداقت مرچکی، عزت مرچکی، غیرت مرچکی، شرافت مرچکی، خودداری مرچکی، انسانیت مرچکی، صرف ایک حقیقت باقی ہے اور وہ نفع اٹھاناہے اور اپنا کام نکالنا ہے۔ وہ ہر قیمت پر عزت بیچ کر، شرافت بیچ کر، ضمیر بیچ کر، اصول بیچ کر، خودداری بیچ کر صرف چڑھتے سورج کا پجاری بننا ہے، اس وقت مدرسہ اٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے انسانیت مری نہیں ہے، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ نقصان میں نفع ہے، ہارجانے میں جیت ہے، بھوک میں وہ لذت ہے جو کھانے میں نہیں ، اس وقت مدرسہ یہ اعلان کرتا ہے کہ ذلت بعض مرتبہ وہ عزت ہے جو بڑی سے بڑی عزت میں نہیں ، اس وقت مدرسہ اعلان کرتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت خدا کی طاقت ہے، سب سے بڑی صداقت حق کی صداقت ہے۔ ( مدرسہ کیا ہے 18)

آزادیِ وطن میں علماء مدارس کا کردار:

    تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ملک کی آزادی کا بنیادی تصور مدارس نے پیش کیا، وہیں ا نگریزی تسلط کے خاتمہ کی قیادت علمائے کرام نے کی، کیونکہ اپنے ملک سے محبت نہ صرف ایمان کا جزء ہے، بلکہ مذہب اسلام نے وطن کی محبت کو سنت قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حب الوطنی کی مضبوط ڈور میں بندھ کر ہر راہ اور ہر زاویے مثلاً صحافت،شاعری، خطابت، مدرسے اور مسجدوں کے ذریعہ تحریک آزادی کو مضبوط،متحرک اور فعال بنایا،مدارس عربیہ کی کوکھ سے پیداہونے فرزندوں کے لہومیں نہ صرف وطن کی محبت تھی، بلکہ ا پنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے خون جگر سے اس گلشن کی آبیاری کا جذبہ بھی ان میں موجزن تھا۔

دینی مدارس کے جاں باز،سرفروش اور کفن بردوش علماء کرام ہی نے ملک میں آزادی کا بگل اس وقت بجایا جب عام طور پر دیگر لوگ خواب خرگوش میں مست، آزادی کی ضرورت سے نابلد اور غلامی کے احساس سے عاری تھے۔ اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے استاذ محترم حضرت مولانا شوکت علی قاسمی بستوی مدظلہ رقم فرماتے ہیں :

"ملک کا ایک طبقہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ دینی و اسلامی مدارس، قومی دھارے سے بالکل الگ تھلگ، ملکی و قومی مفادات سے بے پروا ہوکرصرف دینی تعلیم کی اشاعت میں لگے رہتے ہیں ، مدراس کے فضلا گرد و پیش کے حالات سے بے خبر اور ملکی و قومی خدمت کے شعور واحساس سے بھی عاری ہوتے ہیں ۔ لیکن مدارس اسلامیہ کا شاندار ماضی، اس مفروضہ کو قطعاً غلط اور بے بنیاد قرار دیتا ہے، اور تاریخ ہند کی پیشانی پر ثبت، مدارس اسلامیہ کی ملکی و قومی خدمات اور کارناموں کے نقوش پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے علماء کرام و فضلاء عظام نے ہمیشہ ملکی مفادات کی پاسبانی اور اپنے خون پسینہ سے چمنستان ہند کی آب یاری کی ہے اور ملک کی آزادی کی تاریخ ان قربانیوں سے لالہ زار ہے۔ "(ملخص از ماہ نامہ دارالعلوم)

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

 سب سے پہلے ھماری ہی گردن کٹی

 پھر بھی کہتے ھیں مجھ سے یہ اھل چمن

یہ چمن ھے ھمارا تمھارا نہیں

غرضیکہ ان مدارس نے برصغیر میں اسلامی علوم، اقدار، تہذیب اور معاشرت کو فرنگی حکمتِ عملی کا شکار ہونے سے بچا لیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرنگی حکمت عملی صدیوں کی جدوجہد کے بعد بھی برصغیر کی مسلم رائے عامہ کو قرآن و سنت کے عادلانہ نظام کے سوا کسی اور ازم اور نظام پر راضی نہیں کر سکی۔

دینی مدارس کی ان عظیم دینی و ملی خدمات کے پس منظر میں علماء کرام کے اخلاص و ایثار اور مشنری جذبہ کے ساتھ یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ یہ مدارس اپنی پالیسی، نظام او رطریق کار کے تعین میں ہمیشہ آزاد رہے ہیں اور کسی بھی دور میں حکمرانوں کے عمل و دخل کو ان مدارس نے قبول نہیں کیا۔ اسی آزادی کے باعث یہ مدارس فرنگی حکمت عملی کو واضح شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کے حکمرانوں نے اس آزادی کا استحصال کرنے اور دینی مدارس کی مؤثر کارکردگی کو عملاً سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس پس منظر میں دینی مدارس کو حکومتی تحویل میں لینے کی بات کرنیوالوں کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ مقاصد جو ان مدارس کے ذریعہ حاصل ہو رہے ہیں ختم ہو جائیں اور وہ مشن جو ان مدارس کے ذریعہ زندہ ہے موت کے گھاٹ اتر جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔