مدارس: امید کی آخری کرن!

محمد خان مصباح الدین

اسلامی مدارس اور دینی درس گاہوں کا اصل موضوع کتاب الٰہی وسنت رسول ہے۔ انھیں کی تعلیم و تدریس، افہام وتفہیم، تعمیل واتباع اور تبلیغ واشاعت مدارس عربیہ دینیہ کا مقصود اصلی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ تعلیمی وتربیتی ادارے علوم شریعت کے نقیب،اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض نبوت تلاوت قرآن، تعلیم کتاب اور تفہیم حکمت وسنت کے وارث وامین ہیں۔

ہمارے ان تعلیمی مراکز نے اس عظیم امانت کی حفاظت اور اس لائقِ صد فخر وراثت کو اگلی نسلوں تک پہنچانے میں جو قابلِ ستائش کارنامہ انجام دیا ہے، وہ ہماری علمی وثقافتی تاریخ کا ایک زریں باب ہے، یہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہے جس کا اعتراف کئے بغیر کوئی منصف مزاج نہیں رہ سکتا۔

 آج کے انتشار پذیر اور مادیت کے فروغ کے دور میں بھی یہ اسلامی درس گاہیں اپنے وسائل وذرائع کی حد تک مصروف عمل ہیں اور ملت اسلامیہ کی اولین واہم ترین ضرورت کی متکفل ہیں، بھلا اس سچائی کا کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ لادینیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور مذہب بیزاری کے موجودہ ماحول میں اسلامی تہذیب ومعاشرت اور دینی عبادات و رسوم کے جو روشن آثار نظر آرہے ہیں وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ انہیں علمی تربیت گاہوں کے جہدوعمل کا مظاہر وثمرات ہیں۔

  دینی مدارس کا یہی وہ کردار ہے جو اسلام کے حریفوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان مدرسوں کی آزادانہ کارکردگی کا یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا اسلام اورمسلمانوں کی دینی ومذہبی شناخت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال دینے کا ان کا دیرینہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

قارئین کرام!

پوری دنیا اور اس میں بسنے والے تمام مذاہب اس حقیقت سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی مذہب برحق ہے تو وہ اسلام ہے گرچہ اسکا اظہار وہ زبانی طور پر نہ کرتے ہوں مگر دلی طور پر وہ اسلام کی حقانیت اور اسکی تعلیمات کے معترف ہیں لیکن پھر بھی وہ اسکی مخالفت کرتے ہیں صرف اس لیے تاکہ اسلام کی حقانیت کو دنیا میں پھیلنے سے روک سکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اسلام اسی طرح پھیلتا رہا تو انہیں اس کے زیر سایہ ہونا پڑیگا اسلئے وہ چاہتے ہیں کہ اسلام بالکل محدود دائرے میں سمٹ کر رہ جائے بالکل ابوجہل کیطرح جو اسبات کو اچھی طرح سمجھتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں مگر اس نے صرف اس وجہ سے انکار کردیا کہ مجھے محمد کے زیر سایہ ہونا پڑیگا جبکہ نبوت ملنے سے پہلے دونوں کا مرتبہ ہر اعتبار یکساں تھا مگر نبوت ملنے کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ بہت اعلی ہو گیا اور یہ بات ابوجہل کو گراں گزر رہی تھی اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کر دیا کیونکہ اسکا گمان تھا کہ:

 بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا​

آج جبکہ پورے عالم میں اسلام اور اسکی بے مثال تعلیمات کے چرچے ہیں اور لوگ کثرت سے اسکی تعلیمات کے معترف ہو رہے ہیں تو یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ مدارس اسلامیہ جنھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کی آزادی اور اسلام کے وقار و عزت کی بحالی کے لیے خود بھی قربانیاں دیں اور دوسروں کے اندر بھی جاں بازی و سرفروشی کا حوصلہ پیدا کیا، وہ مدارس اسلامیہ جنھوں نے وقت کی استبدادی قوت سے پنجہ آزمائی اور باطل استعمار سے اسلام اور مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک اور قوم کے ہر فرد بشر کو نجات دلانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سپاہی اور ہزاروں کی تعداد میں قائد و سپہ سالار مہیاکیے۔ وہ اسلامی تعلیم گاہیں جنھوں نے اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے علم وفن کے مینار تعمیر کیے جن سے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن ہوا، وہ دینی مدارس جو اپنی تاریخ کی روشنی میں ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم کو سب سے بہتر شہری اورامن و امان کے داعی اورمحافظ دیتے رہے ہیں، دین ومذہب، علم وہنر اور امن وآشتی کے ان معماروں کو آج اپنی مذموم ذہنیت اور پست اغراض کے تحت دہشت گردوں کی پناہ گاہ بتایا جارہا ہے اور ان پر بے جا قدغن لگانے اورانھیں ان کے اصل منہاج ومقاصد سے منحرف کردینے کے لیے انصاف و قانون ہی نہیں بلکہ ملک کے آئین اور اس کی قدیم روایات کو پامال کیا جارہاہے۔

ہم ملک کے ایک شہری ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ اپنے دین ومذہب کی بنیاد پر اپنی جنم بھومی اور وطن عزیز سے تاریخ کے ہر موڑ پر مکمل وفادار رہے ہیں، ملک کی عزت و وقار اور استحکام و ترقی کے لیے ہم نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، گلستانِ وطن کی اپنے خون جگر سے آبیاری کرکے اسے لالہ زار بنایا ہے، اپنے علم وفن اور تہذیب وتمدن کے چراغوں سے ارض وطن کو روشن اور تابناک کیا ہے۔ اس لیے فطری طور پر ہندوستان کے چپہ چپہ سے ہمیں پیار ہے اور بے لوث پیارہے۔

پھر بھی ہمیں دہشت گرد بتاکر اورہمارے مذہبی تعلیمی اداروں پر دہشت نوازی کا الزام عائد کرکے قومی مجرموں کے کٹگھرے میں کھڑا کردینے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ اور یہ سب ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حاشیہ برداروں کی خوشنودی میں کیا جارہا ہے۔کیونکہ امریکہ کو اور اس جیسے تمام باطل کے کے پجاریوں کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا کے کسی حصےمیں اگر مسلمانوں پے کہیں بھی  ذرا بھی آنچ آتی ہےتو انکے درد کا احساس سب سے پہلے مدارس اور اس سے جڑے لوگوں کو ہوتا ہے اور پورے عالم میں کسی ایک مسلمان کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے  تو اللہ کے بعد اگر کسی سے اسے امید دکھائی دیتی ہے تو وہ مدارس اور اسکے طلبہ ہیں , اقوام عالم کی تاریخ اسبات کی گواہ ہے کہ جب جب باطل نے سر اٹھایا ہے تو  انکی دہشت کا خاتمہ مدارس سے ہی شروع ہوا اورقوم وسماج میں باطل کے خلاف ابھرنے کا جذبہ مدارس ہی نے دیا,گویا پوری دنیا کے مسلمانوں کو امید کی آخری کرن انہیں مدارس سے نظر آئی مگر اسکے باوجود آج غیر تو غیر مدارس و مکاتب اپنوں کی نگاہ میں بھی چبتھا ہوا نظر آ رہا ہے خود نام نہاد مسلمان مدارس کے طلبہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ,لیکن ہمیں یاد ہونا چاہیئے کہ طلبئہ علوم قوم وملت کی گرانقدر امانت ہیں جن کی تعلیم و تربیت اور ساخت و پرداخت کی عظیم ذمہ داری ہمارے سروں پر ہے،اگر خدانخواستہ ہم غفلت و بے توجہی یا حکومت وقت کے بچھائے دام ہم رنگ زمیں میں پھنس کر اپنے اسلاف اور بزرگوں کے قائم کردہ منہج مستقیم سے ہٹ گئے تو یوم آخرت میں ہمیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس لیے ہماری شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم طلبہٴ عزیز کی تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، دیگر غیرضروری مشاغل سے انھیں بچائیں ورنہ وہی انجام پھر سے ہوگا جو اندلس میں ہوا اندلس کے قرطبہ کی علمی رفعت کو کون بھلا سکتا ہے۔ یورپ کو جب اپنی کم مائیگی اور بے وقعتی کا احساس ہو اتو اس نے للچائی ہوئی نظر اس پر ڈالی اور یہاں سے علم کے موتی بٹورنے کی جو جدوجہد کی، جس میں وہ کامیاب ہوا اور پھر اس کی وجہ سے اس نے جو ترقی کے منازل طے کیے ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔

اندلس کی طاقت ور حکومتوں نے جہاں بے شمار جنگیں فرانس سے لڑیں اور اندرونی بغاوتیں فرو کیں وہیں ملک میں امن وامان،عدلیہ کو آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔ قانون کی ایسی حکم رانی تھی کہ اجنبی تجار سونا اچھالتے ہوے ناقابل گزاشت راستوں سے بے خوف نکل جاتے اور کوئی پوچھتا نہ تھا۔تجارت،سائنس وحرفت وحکمت کو ایسی بلندیاں حاصل ہوئیں جو چشم فلک نے پھر نہ دیکھیں۔ بحری اور بری فوج کی قوت کی دنیا میں کوئی نظیر نہ تھی۔ شاہان اندلس جہاں بہادر اور ہوش مند سپاہی تھے جن کی ہیبت پورے یورپ پر طاری تھی وہیں علم وفن کے شیدائی بھی تھے۔ ابن خلدون کے مطابق ”حکم نے ہسپانیہ کو ایک علمی منڈی بنادیا تھا،تصنیفات پر گراں قدر انعام سے نوازتا۔ “ حکم رانوں میں یک جہتی اور یگانگت کی روح پھونکی اور ہر مذہب وملت کے عالموں اور دانش وروں کو درباروں میں عزت حاصل تھی_

مگر ترقی کے تمام اونچے مقام کو سب سے پہلےحاصل کرنے والا یہ مسلم ملک جب اپنی روشن تاریخ سے منہ موڑ کر دنیا کی محبت میں لوٹ پوٹ ہوا تو اللہ نے ان پر ظالموں کو مسلط کر دیا اور انہیں قصئہ پارینہ بنا کر انکا نام ونشان مٹا دیا اور انکی شان وشوکت کو بکھیر کر رکھ دیا اور دنیا کے لیے نمونئہ عبرت بنا دیا_

 صبح مغرور کو وہ شام بھی کر دیتا ہے 

   شہرتیں چھین کے گمنام بھی کر دیتا ہے

وقت سے آنکھ ملانے کی حماقت نہ کرنا

 وقت انسان کو نیلام بھی کر دیتا ہے

اس لیے مدارس ومکاتب اور طالبان علوم نبوت جو مسلمانوں کے لیے امید کی آخری کرن ہیں اللہ کے واسطے انہیں ذلیل اور حقیر نہ سمجھیں بلکہ انکی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں موقعہ دیں کہ وہ اسلام,مسلمان اورقوم وملک کے لیے کچھ کر سکیں ,انہیں لعن وطعن کر کے احساس کمتری کا شکار نہ بنائیں ورنہ دنیا اور آخرت دونوں میں اسکا انجام بہت بھیانک اور شدید ہوگا اور دنیا ہمیں عبرت کیلیے یاد کیا کرےگی_

 کبھی یاجوج لکھتا ہے کبھی ماجوج لکھتا ہے

  وہ اپنے آپ کو اس شہر کا معبود لکھتا ہے

  اس سےکہہ دو یہ ذرے امن کی تبلیغ کرتے ہیں

   جو پاگل مدرسوں کی ریت کو بارود لکھتا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔