سنگھ پریوار کی سازشیں

عالم نقوی

اکھل بھارتیہ ہندو پرچار سنگھ، وارانسی کی جس خفیہ دستاویز کے بارے میں ہم نے پچھلے کالم میں اپنے قارئین کو باخبر کیا تھا  اس  کے سر ورق پر درج ہے :’ہندو دھرم سنسد دُوَارَا، اَنُومُودِت دستاویز ‘۔اس کے صفحات   دو، تین، چار پانچ اور آٹھ، نو بھی ’’ دی ڈیلی گراف ڈاٹ کو ڈاٹ اِن ‘‘پر دستیاب ہیں ۔سر ورق اور آخری صھے دونوں پر لکھا ہے کہ اس کی صرف دس ہزار کاپیاں ہی چھاپی گئی ہیں ۔ سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ملک کے قریب پانچ کروڑ لوگ اس کے مستقل رُکن ہیں ۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ سمجھا  جا سکتا ہے کہ  یہ خفیہ دستاویز  اُن میں سے بھی بہت زیادہ قابل اعتبار  دس ہزار  لوگوں کے لیے ہے !

1925 میں کیشو بلی رام ہیڈ گوار نے  ہندو مہا سبھا کی کوکھ سے آر ایس ایس کو جنم دیا تھا۔ اس تنظیم نے بھی ہندو مہا سبھا کی طرح  ملک کے دیگر محب وطن ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک کی جدو جہد آزادی کی کسی تحریک میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ اس کے برخلاف یہ دونوں انتہا پسند اور نسل پرست ہندو (مشرک ) تنظیمیں ہمیشہ انگریز سامراج کی وفاداری کا دم بھرتی اور محب وطن ہندستانیوں کی مخبری کرتی رہیں ۔ فی ا لواقع صہیونی برٹش سامراج نے ان تنظیموں کو پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ انہوں نے 1857 میں دیکھ لیا تھا کہ اگر انہوں نے ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں قائم محبت اخوت اور بھائی چارے کو ختم نہیں کیا تو وہ کبھی اس ملک پر اطمینان سے حکومت نہیں کر سکیں گے۔ اس مختصر تمہید کے بعد آئیے مذکورہ ’’خفیہ دستاویز ‘‘ کے ان مندرجات کو دیکھتے ہیں جو خوش قسمتی سے مہیا ہیں ۔

 ’جے شری رام‘ سے صفحہ دو کی اِبتدا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ؛’’ہندتو کی پوتر نگری پریاگ میں ہم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور اکھل بھارتیہ براہمن مہا سبھا ایک اجتماعی  دھرم  سنسد کی شکل میں متحد ہو کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مستقبل میں ہماری واحد منظم کوشش اور نصب ا لعین ریزرویشن کا خاتمہ، بھارتیہ سمودھان کو نَشٹ کرنا، بودھ دھرم، عیسائی دھرم اور مسلم دھرم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ختم کرنا اور دلت اندولن میں پھوٹ ڈال کر انہیں منقسم اور منتشر رکھنا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درج ذیل۔ ۔ حکمت عملی اپنائی جائے گی۔

1۔ اَدَھرمی رام ولاس پاسوان اور وی پی سنگھ نے پچھڑے طبقوں ، او بی سی کو ریزرویشن دلا کر ہمیں توڑنے کا اَدَھرم کیا ہے۔ ہمارا پہلا کام یہی ہونا چاہیے کہ ریزرویشن۔ ۔۔محض برائے نام  رہ جائے۔ نوکریوں پر پابندی لگا دی جائے (یعنی روزگار کے نئے مواقع کم سے کم کر دیے جائیں ) اور ریزرویشن مخالف تحریکیں اور مظاہرے   منظم کیے جائیں ۔ ریزرویشن کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ میں نت نئی دلیلوں کے ساتھ متعدد عرضداشتیں فائل کی جائیں تاکہ ہمارے حامی ہندو جج اُن پر ہمارے حق میں فیصلے دے سکیں ۔

2۔ ناگپور میں موجود بودھ دھرم قبول کرانے کے واحد مرکز کو کمزور اور غیر مؤثر بنانے کے لیے آر ایس ایس کے صدر دفتر کو اور زیادہ وسعت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ نئے ممبر بنائے جائیں اور ہر ۱۵ اگست اور ۲۶ جنوری کو وہاں بھگوا جھنڈا پھیرایا جائے۔

3۔ پورے دیش میں ادھرمی امبیدکر کے سَموِدَھان (دستور)ہی کی وجہ سے دَلِت طاقتور ہو رہے ہیں لہٰذا  بی جے پی حکومت قائم ہوتے ہی دستور پر نظر ثانی کی آڑ میں امبیدکر کے بنائے ہوئے آئن کو  ہمیں  پوری طرح بدلنا ہوگا۔ دستور پر نظر ثانی کے لیے قائم کیے جانے والے ’آیوگ ‘(کمیشن ) میں کٹَّر دلت مخالف افسروں اور لیڈروں کو شامل کیا جائے۔ اگرچہ یہ’ دستور نظر ثانی کمیشن‘ غیر آئینی ہوگا لیکن  سپریم کورٹ کے ہمارے ہم خیال ججوں نے اُس کی حمایت کرنے کا ہمیں  یقین دلایا ہے۔

4۔ بھارت میں رام راج کی اِستھاپنا کے لیے رام مندر صرف ایودھیا ہی میں بنایا جائے اور اس کے لیے ہر طرح کے ہتھ کنڈے اپنائے جائیں ایک بار شلانیاس ہوجانے کے بعد آگے کی ذمہ داری یوپی سرکار اور دھرم سنسد کی ہوگی۔ پھر اس کے بعد ہر صوبے میں ایودھیا کے رام مندر جیسا ہی ایک مندر بنایا جائے۔ ایودھیا میں رام مندر کا شلانیاس ہی بھارت میں رام راجیہ کے قیام   کی بنیاد ہوگا۔

5۔ ہندتوا کی تعلیم پر زور دینے کے لیے دیش میں رائج آئن کے مطابق جو تعلیمی نظام قائم ہے اُسے پوری طرح ختم کر کے ڈگری اور ڈپلوما کورسوں میں جیوتش شاستر، ویدک شاستر  پڑھائے جائیں اور’ ’آچاریائی طریق تعلیم ‘اپنا کر سبھی اسکولوں اور کالجوں میں ’گایتری منتر اور سرسوتی وندنا‘ کو لازمی قرار دے دیا جائے اور سنسکرت کو راج بھاشا بنا دیا جائے۔ اس سلسلے میں ایچ آر ڈی وزارت (فروغ برائے افرادی وسائل )اور یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن )نے اپنی منظوری دے دی ہے۔

6۔ یہ عالمگیریت(گلوبلائزیشن ) اور میڈیا(ذرائع ابلاغ )  کا زمانہ ہے۔ ہمیں بھی اِس کا بھر پور فائدہ  اٹھانا چاہیے لہٰذا سبھی ہندو دھرم بندھوؤں سے درخواست ہے کہ اَندھ وشواس ( دھارمک آستھا ؤں ) کو نئی دِشا، دے کر اُن کا خوب پروپیگنڈا کیا جائے۔ فلم بنانے والوں، ہدایت کاروں اور قلم کاروں سے گزارش ہے وہ ہندو دھرم گرنتھوں پر آدھارت  (مبنی ) زیادہ سے زیادہ ٹی وی سیریل اور فلمیں بنائیں جن میں۔ ۔برہمنوں کو  پرماتما کا نمائندہ دکھایا جائے کہ برہمن کے ذریعے ہی ایشور تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ۔سبھی چینلوں پر صبح صبح  ہندو مت کے کٹر لیڈروں اور سادھو سنتوں کے پروچن  نشر کیے جائیں ۔ راماین، مہابھارت  جیسے وشال سیریلوں کو نئے ڈھنگ سے دوبارہ دکھایا جانا چاہیے۔ دیوی دیوتاؤں کی من گھڑت کہانیوں پر  ٹی وی سیریل بنائے جائیں اور اُس میں ’اَوتار وَاد‘ کی حکمت عملی اور نارَد مُنِی کا کردار ضرور رکھا جائے اور عہدِ حاضر  کو ’ ست یُگ ‘ درشایا جائے (کل یُگ نہیں ۔ )

7۔ ملک کی سبھی ’نیچی ذات والوں ‘کی بستیوں ، گاؤوں اور شہروں  میں یہ پروپیگنڈا کیا جائے کہ وہ ’کانوریوں ‘ کی طرح، پیدل، ہری دوار جا کر شیو مندر میں گنگا جل چڑھائیں گے  تو انہیں اپنے سبھی دکھوں سے مکتی مل جائے گی۔ جب ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں یہ’ کانوریے ‘سڑکوں پر گنگا جل لے کر پیدل چلتے  دکھائی دیں گے تو ہندو دھرم مضبوط ہوگا۔ سیواداروں کی تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ امرناتھ یاترا میں بھی ہر سال زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لے جائیں اس سے پاکستان پر ہماری دھاک بیٹھے گی۔

اس کتابچے کے صفحات آٹھ اور نو پر لکھا ہے کہ : 11۔ دیش میں ہماری ہندو راشٹر وادی بھاجپا سرکار بنتے ہی ہمارا پہلا حملہ بودھ دھرم پر ہوگا۔ ہمیں بودھ دھرم کے نام پر ہر سال  محض دکھاوے کے بودھ مہوتسو  کرنے ہوں گے تاکہ جاپان، چین، تھائی لینڈ، کوریا، اور شری لنکا جیسے بودھ ملکوں سے ہمیں بھارت کے بودھ دھروہروں کے تحفظ کے نام پر بھاری اِمداد مل سکے لیکن  ہم(بودھ ملکوں سے ملنے والی ) اِس رقم کو سومناتھ، ایودھیا، دوارکا، تروپتی، امرناتھ اور ویشنو دیوی مندروں کی دیکھ ریکھ پر خرچ کریں گے۔

مسلمانوں کو ملکی انتظام سے پوری طرح دور رکھا جائے اور کشمیر سَمَسّیا کو زندہ رکھا جائے تاکہ ہم دیش کو کھوکھلا کرنے اور ملک میں  دہشت گردی  پھیلانے  کی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر ڈال سکیں تاکہ انہیں اور کمزور کیا جا سکے۔

12۔سرکاری اداروں میں ریزرویشن کی بنیاد پر بہت سے دلت کام کر رہے ہیں اور بعض بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر بھی فائز ہیں لہٰذا نجی کرن کے نام پر یہ سرکاری کمپنیاں ، کمیشن کی بنیاد  پر نجی کمپنیوں کو فروخت کر دی جائیں تاکہ دلتوں کو ’وی آر ایس ‘(رضاکارانہ سبکدوشی اسکیم )کے تحت ہٹایا جا سکے اور اس طرح سرکاری کمپنیوں کو ملٹی نیشنل کمپنی بنا کر ریزرویشن کو پوری طرح ختم کیا جا سکے۔ نجی کرن کا اصل مقصد ملٹی نیشنل کمپنیوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹور کر اسے رام راج کے قیام کی مد میں خرچ کرنا ہے۔

13۔ ہندو دھرم کی طاقت کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے ہمیں آدی واسیوں اور دلتوں میں گنیش کے دودھ پینے، نئے نئے دیوی دیوتاؤں کو پیدا کرنے، اور دیگر توہمات کا پروپیگنڈا بھی ہمیں برابر کرتے رہنا چاہیے۔

14۔ ملک میں جتنے بھی مندر بنائے جائیں ان کے آگے ’پراچین ‘ ( قدیم) شبد ضرور لکھیں۔ جہاں کہیں بھی قیمتی زمینیں ہوں یا جہاں حکومت کی کوئی اہم اسکیم شروع ہونے والی ہو تو وہاں  زمینوں پر قبضہ کر کے زیادہ سے زیادہ ’پراچین مندر‘ بنائے جائیں تاکہ ہمارے معزز اور قابل احترام برہمنوں اور پنڈتوں کے رہن سہن کا معقول انتظام ہو سکے۔ دلتوں کی بستیوں اور بڑی بڑی مارکٹوں میں چھوٹے چھوٹے مندر کثرت سے بنائے جائیں خاص کر وہاں، جہاں  غیر ملکی امداد سے بودھ وہار یا مسجدیں ہوں تاکہ ان کے اثرات کم کرنے ہمارے پوجنیہ برہمن ان کے ٹرسٹوں میں شامل ہو کر انہیں کمزور  اور بے اثر بنانے میں کامیاب ہو سکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔