مدارس اور تربیت (دوم)

اگرہم موجودہ ضروریات کے لحاظ سے اس نصاب پر نظر ڈالیں  تو کئی خامیاں  محسوس ہوں  گی۔مغرب اور امریکہ کے ایجنڈوں  کو چھوڑیے۔ خود سوچیے کہ کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں  ہے کہ اس دینا کو سمجھیں  ؟ اگر امام غزالی کی یہ مجبوری تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں  تو آج ہماری مجبوری یہ کیوں  نہیں  ہے کہ ہم پہلے مغرب کا فلسفہ پڑھیں  اور پھر اس کی تردید کریں ؟ آپ اگر مغرب کا فلسفہ سمجھتے ہی نہیں  تو اس کا رد کیسے کریں  گے؟ اس لیے ان علوم کو جاننا جو اس وقت دنیا میں  رائج ہیں۔ خود ہماری ضرورت ہے۔ جس طرح قدیم زمانہ میں  یونانی فکر گمراہیوں  کا سر چشمہ تھی آج اسی طرح مغربی فکر گمراہیوں  کا منبع ہے۔ آپ کیسے کہتے ہیں  کہ انگریزی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ؟ جب تک آپ انگریزی نہیں  پرھتے ، آپ کو پتہ کیسے چلے گا کہ آپ کے دشمن کی سوچ کیا ہے اور اس کا رد کیسے کرنا ہے؟

 اسی طرح قرآن مجید کو ہمارے نصاب میں  ایک مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے یانہیں۔ کیا قرآن حدیث سے کم اہم ہے؟ پھر قرآن و حدیث کو ہم فقہی تناظر میں  اور فقہی زاویہ نگاہ سے پڑھاتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے پیغام، فلسفہ  اور ان کی حکمت کے بہت کم پہلو زیر غور آتے ہیں۔ فقہی مباحث میں  بھی غلط ترجیحات قائم کرلی گئی ہیں۔ بخاری کی ایک حدیث رفع یدین پر آگئی تو حنفی نقطہ نظر کی وضاحت میں استاد چھ دن یہ ثابت کرنے پر صرف کرے گا کہ رفع یدین نہیں  کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں  جب معاملات سے متعلق کوئی حدیث آئے گی تو ترجمہ پرھ کر فارغ ہوجائیں  گے آخر کیا قصور ہے اس حدیث کا؟ عربی زبان جیسا کہ آپ بھی تسلیم کریں  گے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو نہ لکھنی آتی ہے اور نہ بولنی، تو ان سب حوالوں  سے نصاب اور منہج تعلیم پرغور کرنے کی ضرورت۔

مسلکی اختلاف

 تیسری چیز یہ ہے کہ ہے کہ ہم نے مسالک کو دین بنالیا ہے۔ معاف کیجیے گا، میں  یہ نہیں  کہہ رہا کہ اپنا مسلک چھوڑ دیجیے۔ مسلک ہونا چاہیے، ہر آدمی کا ایک مسلک ہوتا ہے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں  ہے، لیکن وہ مسلک دین نہیں  ہوتا وہ اجتہادی مسلک ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک رائے کی ہوتی ہے۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے میں  مسلکی تقسیم ضرورت سے زیادہ شدید ہے اور وہ بعض حلقوں  میں  خونی تقسیم بن گئی ہے۔ سینکڑوں  آدمی قتل ہوچکے ہیں۔ اگر چہ اس کے اسباب زیادہ تر دوسرے ہیں ، اصلاً مسلکی اور فقہی اختلافات بنیاد نہیں ، لیکن نور بشر کے جھگڑوں  میں  مسجدیں  دھلتی  دیکھی ہیں۔ حالانکہ اگر غور کریں  تو ہمارے ملک میں مسلکی اختلافات کی کوئی بڑی بنیاد نہیں ، اس لیے کہ غالب اکثریت حنفی ہے۔ بریلوی بھی حنفی ہیں  اور دیوبندی بھی، دیگر مسالک کے ماننے والے ان کے مقابلہ میں  تعداد کے اعتبار کم ہیں  پھر جھگڑے کیوں ؟ اس وقت شیعہ کو چھوڑ کر باقی چاروں  وفاقوں  مثلاًبرملا دیوبندی بریلوی جماعت اسلامی اوت اہل حدیث کے نصاب میں  کوئی خاص فرق نہیں۔ چھوٹی موٹی کتابوں  کا فرق ہے۔ حتی کہ اہل حدیث بھی فقہ میں  ہدایہ ہی پڑھاتے ہیں۔ اس کے باوجود نصاب کیوں  ایک نہیں  بنتا؟ میں  عرض کروں  گا کہ یہ وفاقوں  کی تقسیم بھی اسٹیبلشمنت کی قائم کردہ ہے۔ وہ علما میں  تفریق ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔ ان کے اندر اتحاد نہیں  دیکھنا چاہتی۔ آج ہمارے مدارس میں  خود ساختہ مسالک کی طرف تو توجہ خوب دی جاتی ہے مگر امت کا بڑا طبقہ مغربی افکار و نظریات سے متاثر ہوچکا ہے ہم ان کی تردید کے لیے ہر سال کتنے علماء فضلاء تیار کرتے ہیں  مسلم معاشرے میں  انتشار بپا کرنے کے لیے مسلکی اختلاف سے خوب آشنا کراتے ہیں  جو مغربی ایجنڈے کا بنیادی مقصد ہے کہ امت مسلمہ کبھی بھی اتحاد و اتفاق کی سمت نہ بڑھیں۔ علاوہ ازیں  ہم قرآن و حدیث کے حکم کی نافرمائی کررہے جس کا جواب کل قیامت میں  ہمیں  دینا ہوگا اس لے ہم مسلک و فرقہ کی تبلیغ نہ کرتے ہوے اسلام کی دعوت پہنچائیں  جو امت کی کامیابی کا ضامن ہے۔

تحقیقی ذوق

 مدارس کے طلباء میں  تحقیقی ذوق پیدا کرنا بہت ضروری ہے ہمارے یہاں  سنی سنائی بات پر زیادہ اکتفا کرتے ہیں۔ جبکہ تخلیقی صلاحیت اس کی شخصیت کو نکھارتی ہے اس کے وجود کو اہم بناتی ہے نیزایساشخص ملک و ملت کی رہنمائی اپنے قلم کے ذریعہ سے بخوبی کرسکتا ہے۔مدارس کے طلباء میں  تحقیقی شعور کا پروان چڑھنا از حد ضروری ہے جب تک اس کے اندر تحقیقی ملکہ پیدا نہیں  ہوگا وہ اپنی بات مثبت انداز میں  پیش کرنے سے قاصر رہے گا اور صلاحیتاً بھی زیادہ معتبر نہیں  مانا جائیگا۔ جس کے لیے سب سے پہلے۔،

 لائبریری بھی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں  مدارس میں  لائبریریاں  نہیں  ہیں۔ اگر ہیں  تو طلبہ کو ان میں  جاتے اور استفادہ کرتے ہوئے نہیں  دیکھا گیا۔مدارس میں  کوئی عموماًعلمی رسائل نہیں آتے۔ میں  سمجھتا ہوں  کہ ایک لازمی لائبریری پیریڈ ہونا چاہیے کہ طلبہ کتب خانے میں  وقت گزار یں۔ ان کو یہ تربیت دی جائے کہ کیٹلاگ کیسے استعمال کرنی ہے، کتاب کیسے ڈھونڈنیہے۔ اسی طریقے سے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں  معلومات حاصل کرنے کے لیے انہیں  مطالعاتی دورے کروانے چاہییں۔ اپنے مدرسے کے ماحول سے باہر نکل کر دنیا اوراس کے ہنگاموں  کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے طلبہ کی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہنی افق کو وسیع کرنا چاہتے ہیں  تو ایسا کرنا ہوگا۔مجتہد اور مفتی کی شرائط میں  سے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات کو جانتا ہو وہ مسائل کا استنباط کیسے کرسکتا ہے۔ کیونکہ اسے شریعت کا حکم دریافت کرنا ہے۔ جو آدمی اس ماحول کو ہی نہ سمجھتا ہو۔ اسی طرح علمی و تحقیق کی تربیت کے ساتھ ساتھ دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے تحریر اور تقریر کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔ دینی مدارس میں  تحریر کی صلاحیت کو نشو نما دینے کے لیے اکثر مدارس میں  کچھ نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں  کالجوں  اور یونیورسٹیوں  میں  دیکھیے۔یونیورسٹی کا ایک شعبہ اپنا ایک میگزین شائع کرتا ہے۔ طلبہ کو ان میں  لکھنے کے لیے مقابلے کرنے پڑتے ہیں کیونکہ دین بیزار لوگ روز بے ہودہ مضامین کے انبار لگائے جارہے ہیں  اور ان کی تحریریں  بکثرت ہمارے اخبارات میں  شائع ہوتی ہیں  ان کا جواب دینے کے لیے علماء آگئے آئیں۔

انتظامی و جسمانی تربیت

اسی طریقے سے انتظامی تربیت بھی ہونی ہے تاکہ طلبہ میں  لیڈر شپ کی کوالٹی پیدا ہو۔ اس مقصد کے لیے طلبہ کو مختلف انتظامی کاموں  میں  شریک کیا جاسکتا ہے۔ مثلا تقریبات کا انتظام ان کے سپرد کیاجاسکتا ہے اور مختلف ذمہ داریاں  ان کے مابین تقسیم کی جاسکتی ہیں۔ تقریب کا انتظام کیسے کرنا ہے اس کی ضروریات کیا ہیں ، اس طریقے سے انہیں  تربیت دیں۔ اس میں  وقت کی پابندی کا بھی اہتمام انہیں  سکھائیں  گے۔

انتظامی تربیت سے خود اعتمادی آتی ہے، سلیقہ اور قرینہ آتا ہے۔ نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔مدارس میں  انتطامی کام کافی ہوتے ہیں۔ طعام و قیام کے امور ہوتے ہیں ، اس کے لیے طلبہ کی ڈیوٹیاں  لگائی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح:

 جسمانی ورزش اور کھیلوں  کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ مدارس میں  اس پر توجہ نہیں  دی جاتی جبکہ  اسکولوں  اور کالجوں  میں  ایک ادارے کی ٹیم دوسرے ادارے میں  جاتی ہے اور وہاں  کی ٹیم کے ساتھ کھیلتی ہے۔ انعامات دیے جاتے ہیں۔ یہ غیر اسلامی نظام نہیں۔ کھیل اور ورزش کی حوصلہ افزانی ہونی چاہیے اور اس میں  مسابقت کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے والیوں  کو لکھا تھا کہ تیر اندازی کا انتظام کرو، یہ تربیت کے مختلف پہلو ہیں  جو شخصیت کو سنوارنے میں  چارچاند لگاتے ہیں  پھر وہ ایک متوازن شخصیت ابھر کر سامنے آئیگی اس کی صلاحیتوں کے ذریع سے معاشرہ میں  امن وامان اور علمی فضاء پیدا ہوگی۔

 یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہماریہاں  تربیت کے لیے وقت مخصوص نہیں  کیاجاتا۔ مجھ سے اگر پوچھیں  تو میں  کہوں  گا کہ چونکہ غایت ہی تربیت ہی اصل شئی جو ہمارے مدارس اور عصری جامعات کا بنیادی مقصدہے اس لیے کم از کم پچاس فی صد وقت تربیت کے لیے دینا چاہیے۔ جس کا ہمارے ہاں  کوئی تصور نہیں۔ تربیت کے لیے الگ پیریڈ مخصوص کرنے چاہییں۔ اس کو باقاعدہ لازمی پرچہ قرار دیں ، یعنی جو تربیت کے پرچے میں  فیل ہو، اس کو سارے امتحان میں  فیل تصور کیا جائے۔ تربیت میں  دیکھا جائے کہ کون طالب علم لڑائی جھگڑا کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، چوری کرتا ہے، وقت پر کلاس میں  حاضر نہیں  ہوتا وغیرہ وغیرہ۔

اس تربیت کا باقاعدہ نصاب بھی ہونا چاہیے تاہم اگر مدارس کی انتظامیہ توجہ نہ دے تو میں سمجھتا ہو کہ اساتذہ اپنے طور پر تزکیہ اور تربیت کا نصاب بناسکتے ہی۔ ہمارے ہاں  تصوف کی بعض کتابیں  شامل نصاب رہی ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے اس کا اہتمام کیا تھا لیکن بعد میں  جب دیوبند کے تعلیمی نظام کی صورت میں اس میں  ارتقا ہوا تو بعض تاریخی عوامل کی وجہ سے تصوف کی کتابیں  نصاب میں  شامل نہ رہ سکیں  میرے خیال میں  یہ نصاب میں  ایک خامی ہے، اور تربیت اور تزکیے کا مواد نصاب میں  لازماً شامل ہونا چاہے۔ شاہ ولی اللہ، امام غزالی اور دیگر اکابر تصوف کی چیزوں  سے انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ روایتی تصوف کے لٹریچرمیں  کچھ کمزوریاں  بھی موجود ہیں۔ ایسا مواد چھانٹ کر نکالا جاسکتا ہے جو تصوف کی روایتی کمزوریوں  اور بعض غیر اسلامی عناصر سے پاک ہو۔ نصاب کی خامی کو تو ایک اچھا استادپورا کرسکتا ہے لیکن اچھے استاد کی خامی نہ نصاب پوری کرسکتا ہے اور تعلیم گاہوں  میں  حسب ذیل امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہر مدرسے میں  ایک تربیت کمیٹی بننی چاہیے جس کے سربراہ مہتمم صاحب ہوں  یا کسی سینئر استاد کو ناظم بنادیا جائے اور کچھ صالح طلبہ کو اس کا رکن بنالیا جائے۔ہر کلاس کا انچارج استاد تربیتی کمیٹی کارکن ہو وہ باقاعدہ بیٹھ کر میٹنگیں  کریں۔ کچھ پرابلم کیسیز ہوتے ہیں  بعض طلباء بگڑے ہوئے ہوتے ہیں  ان کی اصلاح کے لیے ان کے والدین کوبلانے کے لے ایک کمیٹی بنالیں  اور والدین سے رابطہ رکھیں۔ پھر تربیت کمیٹی اپنے طور پر پورے سال کا ایک پروگرام بنا سکتی ہے مثلاً آپ ہر ہفتے مختلف اخلاقی خوبیاں  پیدا کرنے اور برائیوں  سے بچنے کے لیے کسی ایک چیز کو موضوع بناسکتے ہیں ، مثلاً اس ہفتے ہمارے پیش نظر غیبت کی مذمت ہے طلبہ کو بتایا جائے کہ غیبت کیا ہے، شریعت نے اس کی کیسے مذمت کی ہے۔ معاشرے میں  اس سے کیا فساد پیدا ہوتا ہے۔ ان باتوں  کو ہر کلاس میں تختہ سیاہ پر لکھ دیا جائے طعام گاہ میں  لکھ دیا جائے۔ اس طرح مختلف پہلوؤں  سے اس چیز کو اجاگر کرکے اس کی قباحت کا احساس زندہ کیا جائے۔ اسی طرح ہر ہفتے کی نئی چیز پر توجہ مرکوز کی جائے۔

 حوصلہ افزائی کے لیے انعام بھی رکھا جاسکتا ہے مثلا پچھلے ایک ماہ میں  جن طلبہ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں  ہوئی، ان کوکوئی انعام دے دیا جائے۔اگر کسی نے گالی دی تو اس طرح دو نمبر کم ہوگئے۔ کسی نے جھگڑا کیا تو اس کے چار نمبر کم ہوگئے۔ والدین نے کوئی شکایت کی تو وہ نمبر اور کم ہوجاتے۔ اس طرح گراف کے ذریعے سے ہر طالب علم کے اخلاق و کردار کا پتہ چلتا رہتا اور طلبہ میں  اچھے نمبروں  کے لیے مسابقت پیدا ہوجاتی ہے۔

 آخر میں ، میں  یہ بھی عرض کردوں  کہ میری یہ معروضات محض اخلاص اور درد مندی پر مبنی ہیں۔ میری باتوں  سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ موضوعات بہرحال اس قابل ضرور ہیں۔ ان کے بارے میں  سوچیں۔ دین محض کتابوں  میں  نہیں  لکھا ہوتا۔یہ معاشرے کی صورت میں  ایک زندہ حقیقت ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے نبی کی امت کو یہ توفیق بخشی کہ اسلامی معاشرہ پچھلی چودہ صدیوں  سے بلا انقطاع قائم ہے۔ اس تسلسل کو بقا اور استحکام بخشنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ معاشرے دین سے جڑا رہے یہ کام علماء کا ہے لہٰذا ان کے اور معاشرے کے مابین ہم آہنگی ناگزیر ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ علما اس معاشرے کی ذہنی، فکری جسمانی اور مادی ضرورتوں  کو سمجھیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔