مدارس کا تعلیمی بحران: موروثی نظام اورہماری ذمہ داریاں

 عادل فراز

میں قطعی اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ مدارس کی بنیاد گزاری فقط دینی تعلیم کے لئے کی گئی تھی۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ نعرہ کیوں دیا جاتاہے کہ کوئی بھی علم فقط دنیاوی نہیں ہوتا۔ ہر عالم یہ تسلیم کرتاہے کہ کوئی بھی علم فقط دین یا صرف دنیا کے لئے نہیں ہوتا۔علم حاصل کرنے والے کا ہدف فقط دین یا فقط دنیا ہوسکتی ہے۔علم دین بھی درحقیقت علم دنیا ہی ہے اور علم دنیا اپنی حقیقت میں علم دین ہی ہے۔ مگر یہ دعویٰ اس لئے ہوائی ثابت ہوتاہے کیونکہ آج تک مدارس میں اس دعویٰ کو عملی جامہ نہیں پنہایا گیا۔ آج بھی دین و دنیا کے علم کی تقسیم بندی جاری ہے اور جاری رہے گی کیونکہ ہم اپنے بنے ہوئے جال سے باہر نہیں نکلنا چاہتے ہیں۔ ذمہ داران مدارصرف عوام کو ہی د ھوکہ میں نہیں رکھے ہوئے ہیں بلکہ خودفریبی کا بھی شکار ہیں۔

مدارس کےاکثر طلباء کا کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرف رخ کرنا اور مذہبی تعلیم سے عاری ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ صورتحال کیاہے۔ مدارس میں تعلیم کا معیار روبہ زوال ہے۔ ذمہ داران مدارس کی عدم توجہی اور مدرسوں پر موروثی نظام کے مسلط عذاب نے معیار کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیاہے۔ قوم کو تقویٰ، اخلاص اور اخلاق کی تعلیم دینے والے حضرات ہی مدرسوں پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھے ہیں اور قومی وراثت کو اپنے آباء و اجداد کی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ اگر مدارس کا پورا نظام اور ہر کام ملت کے تعاون سے جاری ہے تو پھر قومی میراث شخصی میراث کیسے ہوگئی ؟اگر نام نہاد وارثان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مدرسہ انکی میراث ہے تو انکے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی ہے کہ وہ مدرسہ کے اخراجات کو پورا کرسکیں ؟۔ہر حال میں مدرسہ قومی میراث ہے اور کوئی بھی شخص مالکانہ تصرف کا حق نہیں رکھتا۔ اس لئے اگر ذمہ داران تقویٰ، اخلاص اور اخلاق کا درس قوم کو دیتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ پہلے اس فلسفہ کو خود اپنائیں تا کہ اثر پیدا ہو۔اکثر حضرات عصری تقاضوں کو نہیں سمجھتے اور جو سمجھتے ہیں ان کے پاس یا تو وسائل نہیں ہیں یا پھر وہ بے حسی کا شکار ہوتے ہیں۔ مدارس پر مسلط موروثی نظام نے قوم کو بہت نقصان پہونچایا ہے۔ آج اکثر مدارس میں وارثوں کا ایسا ٹولا پائوں جمائے ہوئے ہے جنکی علمی صلاحیت انکے طلباء کے باالمقابل صفر ہے۔ جنھیں خود اصلاح اور تربیت کی ضرورت ہے وہ طلباء کی تربیت کیسے کریں گے۔

مدارس کو جدید نظام تعلیم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بیحد ضروری ہے۔ جدید نظام تعلیم سے مراد مدارس میں انگریزی اور ماڈرن ہسٹری کی تعلیم مراد نہیں ہے بلکہ وہ طریقۂ تدریس مراد ہے جو آج دنیا بھر میں رائج ہے۔ کیا ہمارے مدارس میں ٹرینڈ ٹیچرز ہوتے ہیں۔ ڈنڈے کا خوف دلاکر طلباء کو اپنی جہالت کا قائل کرنا الگ ہے مگر انہیں اپنے علم و تجربہ کی بنیاد مطمئن کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر طلباء دوران تعلیم ہی احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے تو پھر قوم ان سے کیا توقعات وابستہ رکھے گی۔

 کچھ دوراندیش ذمہ دار حضرات کاکہنا ہے کہ’’ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل پانچ فیصد آبادی مدارس کا رخ کرتی ہے اس لئے پانچ فیصد کی فکر کرنے کے بجائے ۹۵ فیصد آبادی کی فکر کیجیے ‘‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ اورناعاقبت اندیشی پر مبنی فرمان ہے۔ اگر اس حقیقت کوتسلیم کرلیاجائے کہ مسلمانوں کی آبادی کا کل پانچ فیصد  حصہ مدارس کا رخ کرتا ہے تب بھی ہم اس پانچ فیصد کو اس قدر غیر اہم اور ہلکا کیوں تصور کررہے ہیں۔ آج یہ پانچ فیصد ۹۵ فیصد آبادی پر حاوی ہے اور عوام کے درمیان انہی ۵ فیصد کو دیگر شعبہ جات کے تعلیم یافتہ حضرات پر فوقیت دی جاتی ہے۔ آج بھی ہماری قوم خواہ سنی ہو یا شیعہ یا کسی دوسرے مسلک کی پیروی کرنے والے افراد ہوں ‘ ڈاکٹر یا پروفیسر صاحب کی جوتیاں نہیں اٹھاتے، کسی انجینیر کے ہاتھ نہیں چومتے،صدقات، زکات اور خمس کی رقومات کسی یونیورسٹی یا کالج کو نہیں دی جاتی بلکہ ہم اپنے ہر قومی معاملہ میں اسی ۵ فیصد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یعنی یہ ۵ فیصد ملت کے ۹۵ فیصد پر حاوی ہے۔ اگر ہم اس ۵فیصد پر توجہ کریں اور اسکی صحیح تربیت کرلے جائیں تویقیناملت کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں گے۔

 دوسرے یہ کہ مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ اس لئے کیا جاتاہے کیونکہ قوم کی نگاہیں علماء کرام پر ٹکی ہوتی ہیں ناکہ کسی اسکول اور اسکول سے پرھ کر نکلنے والی نسل پر۔ آج بھی قوم کے مستقبل کے اچھے اور برے سبھی فیصلے علماء کرام کرتے ہیں۔ اگر یہ علماء عصری تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے اور عصری تعلیم اور اسکی ضروریات سے ناواقف ہونگے تو بے بصیرتی اور ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر فیصلوں میں مستقبل شناسی نہیں ہوگی۔ اب تک یہی مشاہدہ کیا گیاہے کہ مدارس سے جو نسل پڑھ کر نکل رہی ہے اور قوم کے سروں پر مسلط ہے اسکی ناعاقبت اندیشی اور غیر سیاسی حرکتوں نے قوم کو فائدہ کے بجائے نقصان پہونچایا ہے۔ مگر نقصانات جھیلنے کے بعد بھی قوم کی نگاہیں علماء کرام پر مرکوز رہتی ہیں کیونکہ ہم نا تو پوری طرح سیکولر ہیں اور نہ لبرل۔ہماری قوم آج بھی ہر نفع و نقصان کے احتساب سے پہلے مذہبی نقطۂ نگاہ سے واقفیت حاصل کرتی ہے تاکہ آخرت کے خسارہ سے محفوظ رہا جائے۔

 تیسرے یہ کہ اگر مدارس سے پڑھ کر نکلنےوالی نسل مکمل تعلیم یافتہ ہوگی یعنی عصری تقاضوں سےہم آہنگ ذہن رکھتی ہوگی تو وہ مسلم آبادی کے باقی ماندہ ۹۵ فیصد کے لئے بھی فکر مند ہوگی۔ اگر یہ نسل دردمند ہے اور مفاد پرستی سے عاری ہے تو ۹۵ فیصد آبادی کے لئے مخلصانہ کام کرے گی۔ ساتھ ہی اپنے  غیر عاقلانہ اور سیاست سے عاری افکار کی بنیاد پر نوے فیصد آبادی کو گمراہی سے بھی محفوظ رکھے گی۔ کیونکہ جس طرح نوے فیصد آبادی کو پانچ فیصد آبادی مسلکی اختلافات اور نظریاتی تنازعات کو بہانہ بناکر مشتعل کرتی ہے اور کفر کے فتوی دیے جاتے ہیں یہ سلسلہ بند ہوگا اور ایک خوشگوار ماحول وجود میں آئے گا۔

 چوتھاور اہم فائدہ یہ ہے کہ اگر مدارس کا نصاب عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے تو مدارس میں تعلیم کا تناسب اسکولوں اور کالجوں کے باالمقابل زیادہ ہوگا۔آج مسلمانوں کی بڑی آبادی اقتصادی مشکلات کی بنیاد پر تعلیم سے عاری رہ جاتی ہے مگر مدارس میں قوم کے تعاون سے ملنے والی فری آف کوسٹ تعلیم کم از کم انہیں جاہل رہنے نہیں دے گی۔ اس طرح سماجی شرمندگی اور غیر برابری کے احساس سے بھی نجات ملے گی۔ اس لئےضروری ہے کہ آبادی کا وہ حصہ جو اسکولوں اور کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا مگر علم سے شغف رکھتاہے تعلیم حاصل کرسکے اور سماج کی بہتر تعمیر میں معاون ثابت ہو۔ ابتدا میں یہ ممکن نہیں ہوگاکہ قوم کی ۹۵ فیصد آبادی کو مدارس میں تعلیم دی جائے مگر اس حقیقت کو بھی ماننا ہوگاکہ کبھی بھی قوم کی سو فیصد آبادی مدارس کا رخ نہیں کرے گی۔ اس لئے مدارس کی توجہ غرباء اور مساکین پر زیادہ ہوگی۔ قوم کا مخیر طبقہ جو ہمیشہ تعاون کرتارہاہے وہ اپنے مزید تعاون سے تعلیمی مسائل اور دیگر مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔آج بھی قوم ہر ممکن تعاون کے لئے آمادہ ہے مگر اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔

ایک اہم مسئلہ طلباء کی اردو تعلیم کا بھی ہے۔ مدرسوں میں اردو کی مستقل تعلیم دی جائے تاکہ وہ عربی اور فارسی زدہ زبان کا استعمال کم کریں۔ کیونکہ مدارس میں تعلیم کا میڈیم اردو زبان ہی ہوتی ہے خواہ نصاب کی کتابیں کسی بھی زبان میں ہوں اس لئے انکی زبان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے علماء اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے کہ انہیں اردو نہیں آتی ہے بلکہ وہ اپنی زبان کو دوسروں کے لئے بھی حجت سمجھتے ہیں۔ اس احساس برتری کے عذاب سے چھٹکارہ پانا ہوگا تاکہ متوازن سماج کی تشکیل ہو۔

 مدارس کی تنزلی اور تباہی کے پیچھے سرکار سے اشتراک بھی ہے۔ مدرسوں کےسرکاری مدرسین اور ذمہ داران مدرسہ میں صرف تنخواہ کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان میں خلوص، محنت  اور ایثار کا جذبہ معدوم ہوچکاہے۔ نہ کسی کا خوف ہوتاہے اور نہ طلباء کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ سرکار سے تو ہمیں یوں بھی امید نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ اگر سرکار ہماری تعلیمی و اقتصادی پسماندگی پر فکر مند ہوتی تو مدارس سے دور ۹۵فیصد آبادی کےحالات سچر کمیٹی کی رپورٹ میں حوصلہ افزا ہوتے اورآج ہم بھی دوسروں کے شانہ بہ شانہ ہوتے مگر ہر سرکار مسلمانوں کو مزید پسماندہ بنانے کے ایجنڈہ کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے اس لئے اپنی تنزلی کے اسباب اور ترقی کے منصوبوں پر خود غورکرنا ہوگا۔

اگر ہمارے مدارس اسی طرح سرکاری تعاون پر تکیہ کئے رہے تو انہیں اسی طرح آمرانہ فرمان ملتے رہیں گے۔ کبھی سردار پٹیل کی جینتی منانے کا حکم آئے گا تو کبھی مدارس کی ویڈیوگرافی کے لئے کہا جائے گا۔ وہ دن دور نہیں جب مدارس میں قرآن اور تفسیر کے ساتھ اپنشدوں اور پرانوں کی تعلیم کا حکم بھی دیدیا جائے۔ اس لئے ذمہ داران مدارس کو بیدار ہونا ہوگا اور قومی مفاد میں کوششیں کرنا ہونگی۔ فقط اپنے اہل و عیال کی اقتصادیات کو بہتر بنانے پر ہی سارا زور صرف نہ کیا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    پس چہ باید کرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے اہل مدارس!
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یونانی فکر و فلسفہ نے جب عقلی بنیادوں پر اسلام کے اعتقادی ڈھانچے کو چیلنج کرنا شروع کیا اور عالم اسلام کے ذھین عناصر کے قلوب میں شک و ارتیاب کے کانٹے بوئے جانے لگے تو ھمارے اسلاف نے نہ صرف یہ کہ یونانی منطق و فلسفہ میں کمال بہم پہنچایا بلکہ اس کے قلب و جگر پر ایسے حملے کئے کہ فلاسفہ کے لئے اس کا جواب دینا مشکل ہوگیا۔غالبا شبلیؒ نے لکھا ہے کہ امام غزالی کے "تھافۃ الفلاسفہ‘‘ کا اہل فلسفہ کی طرف سے سو سال تک کوئی جواب نہیں دیا جاسکا۔
    ہمارے اسلاف نے یونانی فلسفہ کے متوازی ایک نیا علم ایجاد کیا جس کو ’’علم الکلام‘‘کہا جاتا ہے۔
    ضرورت محسوس کرتے ہوئے نصاب درس میں یونانی منطق و فلسفہ کو داخل کیا گیا یہاں تک کہ ہندوستانی مدارس کے دور آخر کے نصاب کا بڑا حصہ منطق اور فلسفہ کی کتابوں پر مشتمل تھا بلکہ خیبرپختونخوا کے کچھ اور افغانستان کے تمام مدارس میں ابھی تک وہ نصاب داخل چلا آرہا ہے۔
    ہمارے برصغیر ممیں فرنگیوں کی آمد کے بعد جب نئی نئی ضرورتیں سامنے آئیں تو نصاب درس کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
    اس سلسلے میں ندوہ نے آگے بڑھ کے منطق و فلسفہ کے بھاری بھرکم نصاب سے جان چھڑادی لیکن دیوبند ایک عرصے تک اس نصاب پر اصرار کرتا رہا گو کہ دیوبندی اکابر میں سے حضرت گنگوھی جیسے بزرگ اس کے سخت خلاف تھے اور وہ ان معقولی کتابوں کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔
    لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیوبندی مدارس میں بھی نصابی اصلاحات عمل میں آتی رہیں حتی کہ پاکستان میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ فلسفہ کی تو تمام کتابیں نصاب سے نکال دی گئیں لیکن منطق میں ابھی تک قطبی تک کا نصاب برقرار ہے۔
    جو کتابیں نصاب سے نکالی گئیں ان میں کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں:
    سلم العلوم،ملاحسن،ملا جلال،میر زاہد رسالہ،میر قطبی،قاضی مبارک،حمداللہ،صدرا،شمس بازغہ،تصریح،چغمینی،میبذی،ہدایت الحکمت،شرح مواقف،خیالی وغیرہ۔
    یہ کتابیں جو سالھا سال تک نصاب کا حصہ تھیں اس بنیاد پر نکالی گئیں کہ ان علوم کی عصرحاضر میں اب ضرورت نہیں رہی ہے۔
    لیکن یہاں جو چیز سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان کتابوں کے اخراج سے جو گنجائش پیدا ہوئی اس میں عصر جدید کے ان مفید اور ضروری علوم کو داخل کرنے میں کیا رکاوٹ تھی۔
    کیا آج جدید مغربی فلسفہ،مختلف نظام ہائے فکر،جدید عمرانی اور اجتماعی علوم اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام فکر کے لئے جیلنج بنے ہوئے نہیں ہیں؟کیا آج ایک ’’شرح العقائد‘‘یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ ایک فاضل کو جدید فکری رجحانات کے مقابلے کے لئے تیار کرسکے؟کیا تاریخ اسلام پر کوئ معیاری کتاب ہمارے نصاب میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟کیا اپنی قومی زبان اردو،دینی زبان عربی اور بین الاقوامی زبان انگریزی میں اظہار خیال کی صلاحیت ہماری ضرورت نہیں ہے؟اگر ہے اور یقینا ہے تو ہمیں چاہئے کہ قدیم نصابی کتابوں کے اخراج سے جو گنجائش پیدا ہوئی ہو اس کو جدید علوم کی کتابوں سے پر کیا جاسکے۔
    ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ زمانے کے قاہر تقاضے کسی کی رعایت نہیں کرتے جو تعلیمی نظام اپنے آپ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بناتا وہ اپنی افادیت کھودیتا ہے۔
    جو تبدیلی ہم نے دس سال کے بعد کرنی ہے کیا بہتر نہیں ہوگا کہ ابھی مل بیٹھ کر باہمی اتفاق رائے اور وسیع تر مشاورت سے اس کو عمل میں لے آئے تاکہ آنے والا مورخ کل ہمیں کوتاہ اندیشی کا کوئی طعنہ نہ دے پائے۔

تبصرے بند ہیں۔