مدارس کے نصاب و نظام میں ایک بڑی کمی؟

ڈاکٹر ابو معاذ ترابی

ہر مکتبہ فکر کے علما اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امت مسلمہ کا وجود نہ صرف دعوت الی اللہ کے لئے ہوا ہے، بلکہ دنیا و آخرت میں اس امت کی کامیابی و ناکامی اسی فریضہ کی ادائیگی پر منحصر ہے اور دعوت الی اللہ ہی اس امت کے لئے دنیا میں سربلندی​ کی ضامن بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو دعوت الی اللہ کی ذمّہ داری سے نواز کر اسے امتیاز بخشا ہے۔ اگر اس امت سے دعوت الی اللہ کی ذمّہ داری کو جدا کر دیا جائے تو اس کی حیثیت  ایک معمولی قوم کی ہو جاتی ہے۔

"بلغوا عني و لو آية” (میری طرف سے پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) اس حدیث پر عمل پیرا ہونا امت کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہندوستان میں پیدا کرکے اس فریضہ کی ادائیگی کا ایک سنہری موقع عنایت فرمایا۔ لیکن سنہری موقع کے ساتھ یہ ہمارے لئے امتحان بھی تھا۔ ہم نے اس موقع کو نہ اہمیت دی اور نہ ہی غنیمت سمجھاـ مدعو قوم کی بڑی تعداد کے درمیان لمبے عرصے تک پر سکون ماحول میں رہتے ہوۓ بھی ان سے دعوتی روابط نہ بنا سکے، یا پھر ہم نے ان کو دعوت کے پیغام کا مستحق نہ سمجھا، اور ان تک اللہ کے پیغام کو پہنچانے میں ہم سے نا قابل معافی کوتاہی سرزد ہوتی رہی، اور امتحان میں ہم بری طرح ناکام رہے۔ آج امت کی زبوں حالی و انحطاط کی ایک اہم وجہ اسی امتحان میں ہماری ناکامی ہے۔

دعوت الی اللہ کی اہمیت و ضرورت ذمہ داران مدارس سے بہتر کون جانتا ہے۔ ہندوستان میں مدارس کے قیام کا ایک اہم مقصد ایسے با صلاحیت افراد کی تیاری رہا ہے جو دعوت الی اللہ کے فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے پر قادر ہوں . مدارس سے ایسے افراد پیدا بھی ہوۓ جنہوں نے دعوت الی اللہ کے فریضہ کی ادائیگی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لیکن آج ہر سال مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا فارغ ہو رہے ہیں ، انمیں اچھے حفاظ ہوتے ہیں ، اچھے خطیب بھی ہوتے ہیں ، شاید کچھ اچھے فقیہ، محدث اور مفسر بھی مل جائیں ، لیکن ایسا شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مدرسہ کا ایک طالب علم دعوت الی اللہ کے لیے درکار  صلاحیتوں ​ سے لیس ہوکر مدرسہ سے فارغ ہوا ہو۔ عموماً مدارس سے فارغ طلبا  کا اسلوبِ حیات نہ دعوتی ہوتا اور نہ ہی انکی طرز فکر و عمل دعوتی ہوتی ہے۔

دعوت الی اللہ کے لیے بلند اخلاق و کردار کے ساتھ دو چیزوں کی اہمیت سے کسی کو انکار نھی ہو سکتا۔ ایک مدعو کی زبان پر دسترس.دوسری انکے مذاھب، عقائد و ثقافت سے اچھی واقفیت۔

شمالی ہندوستان میں مدارس کا جال پھیلاہوا ہے، ان مدارس سے فارغ طلبا کی اکثریت کا عالم یہ ہےکہ وہ شمالی ہند میں موجود مدعو قوم کی زبان (ہندی) میں اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی پر قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہندومت کے عقائد, عبادات اور ثقافت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔

دعوت الی اللہ کے مقصد کے تحت  بعض مدارس نے تقابلِ ادیان کو اپنے نصاب میں جگہ تو دی ہے، لیکن اسکی تعلیم و تدریس بھی فصیح اردو یا عربی میں ہوتی ہے۔

کچھ مدارس نے ہندی و انگریزی کو اپنے نصاب میں شامل تو کیا ہے،لیکن اس کو دعوت دین کے مضامین سے مربوط نھیں کیا ہے۔ ہندی و انگریزی کے معروف و مشہور ادباء کی تحریروں کو نصاب میں داخل تو کیا ہے، لیکن ادیان و عقائد کی تعلیم و تدریس کو اس سے پرے رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہورہا ہےکہ کچھ طلبا ہندی یا انگریزی تھوڑی بہت سیکھ بھی لیتے ہیں ،مگر ادیان و عقائد پر گفت و شنید کے لیے ضروری الفاظ و اصطلاحات سے نا آشنا ہوتے ہیں ۔ لہذا ان کے اندر اس موضوع پر خوش اسلوبی کے ساتھ گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو پاتی۔

دعوت الی اللہ کےلیے جس طرح کے اخلاق و کردار اور صلاحیت کی ضرورت ہے وہ صرف درجات میں کتابیں پڑھانے سے ہرگز نہیں آسکتے, اس کیلئے طلبا کی صحیح تربیت و تدریب( ٹریننگ) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں لازمی ہے اور اس کا فقدان تقریباً تمام مدارس میں پایا جاتا ہے۔

 مدارس نے دعوت الی  اللہ کو اپنے اہداف میں شامل کیا ہے،  علما​ کرام و ذمہ داران مدارس کی تحریروں و تقریروں سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ، لیکن مدارس سے فارغ طلبا کی صلاحیتوں کے مد نظر چند سوالات اٹھتے ہیں ۔

-کیا مدارس کے ذمہ داران اس مضمون کو اپنے نصاب و نظام سے مربوط کرنے میں ناکام رہے  ہیں ؟

 -کیامدارس کے نصاب و نظام دعوت الی اللہ کے لیے افراد سازی پر مرکوز ہی نہیں ہیں ؟

اگر یہ حقیقت ہے تو کیا اسے  مدارس کے نصاب ونظام میں ایک بڑی کمی تسلیم کیا جائے، اور حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ترجیحی بنیاد پر اس کی اصلاح کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔

ورنہ دنیا میں اسکا خمیازہ ہمیں تو بھگتنا ہی پڑے گا یا شاید بھگت رہے ہیں ، کیونکہ امت کو اس کے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں ملتی ہے اور آخرت میں بھی ہمارے لیے اس سلسلہ میں باز پرسی سے بچ نکلنا ممکن نہ ہوگا۔

یا پھر مدارس کے نصاب و نظام میں یہ کمی اتنی معمولی ہے جو توجہ کی مستحق نہیں ہے۔

ذمہ داران مدارس بہتر جانتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔