مذکرات کار کی تقرری:  مخلصانہ پہل یا ایک بار وقت گذاری؟

الطاف حسین جنجوعہ

گر چہ حکومتِ ہند نے جموں وکشمیر مسئلہ کا کوئی قابل عمل راہ تلاش کرنے کے لئے گذشتہ روز ایک اہم پیش رفت کے طور پر آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو مذاکرات مقرر کیا ہے لیکن اس پہل سے سیاسی وعوامی حلقوں میں کوئی زیادہ جوش دکھائی نہیں دے رہا یں ہے۔جہاں مخلوط حکومت ، بالخصوص پی ڈی پی اس فیصلہ کو فی الوقت ’حیات بخش دوا‘کے طور پر دیکھ رہی ہے، وہیں حزب اختلاف جماعتیں نیشنل کانفرنس، کانگریس ،جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی ، کشمیر کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دانشور،محققین، نقاد، مورخین اورسیاسی مبصرین ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو بھی وقت گذاری کی فضول مشق سے تعبیر کر تے ہیں کیونکہ آج تک مرکز نے کشمیر کے حوالہ سے جوبھی مذاکراتکار یا گروپ تشکیل دیئے ان کی طرف سے پیش کردہ رپورٹوں اورسفارشات پر غور کرنا تو دور کی بات، انہیں کسی بھی طرح در خور اعتنا ہی نہ سمجھاگیا۔

راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر میں تمام فریقوں سے بات چیت کی حکومت کی تازہ پہل کو مشکوک قراردیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کی نیت پر شبہ ہورہا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس کا مقصد محض تشہیرکرنا ہے۔ آزاد کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے ساڑھے تین سال بیکار کر دیئے اور اب مدت کے اختتام پر بات چیت کی پہل کی ہے۔ اس کے علاوہ، مذاکرات کا کوئی وقت نہیں مقرر کیا گیا ہے جس سے اس کی نیت پر شبہ ہورہا ہے۔کشمیر مسئلے کو سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہوئے آزاد نے کہا کہ اس کا حل بھی سیاسی طریقے سے ہی نکلے گا لیکن حکومت کو یہ بات دیر سے سمجھ میں آئی۔ قابل ذکر ہے کہ1990 کو کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہونے کے بعد مارچ 1990کواس وقت راجیو گاندھی کی قیادت میں کل جماعتی وفد نے کشمیر کا دورہ کیاتھا۔ اس دورہ کے بعد نئی دہلی نے جنگجوؤں اور اعلیحدگی پسندوں سے بات چیت کی دوکوششیں کیں۔ پہلی مرتبہ اعلیحدگی پسندوں سمیت سبھی حلقوں سے بات چیت کے لئے سال 2001اپریل میں اس وقت سابقہ مرکزی وزیردفاع کے سی پنت کو سرکاری مذاکرات کار مقرر کیا گیا تھا۔

 حریت کانفرنس نے پنت سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ پنت علیحدگی پسند لیڈر شبیر شاہ سے ملے تھے جواس وقت حریت کا حصہ نہیں تھے۔ یہ پہل سال 2002میں بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہوئی۔ اسی سال ہندوستان نے نامور وکیل رام جیٹھ میلانی کی قیادت میں آٹھ نفری کشمیر کمیٹی بنائی گئی جس نے اعلیحدگی پسندوں اور دیگر سے بات چیت کا آغاز کیا۔ اس کمیٹی میں عدالت عظمیٰ کے وکیل اشوک بہن، سابقہ وزیر قانون شانتی بھوشن، صحافی دلیپ پڈگاؤنکر، ایم جے اکبر اور سبکدوش آئی ایف ایس آفیسر وی کے گورور اور نامور جج فالی نریمان شامل تھے۔ اس پینل نے بھی کچھ خاص نہ کیا جس کے بعد فروری2003کو سابقہ داخلہ سیکریٹری این این ووہراہ جوکہ اس وقت جموں وکشمیر کے گورنر بھی ہیں ،کو بنایاگیا لیکن اعلیحدگی پسندوں نے ان سے بھی بات چیت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ وہ وزیر اعظم کے بغیر کسی سے بھی بات نہ کریں گے۔ اس کے بعد کشمیر بارے نئی دہلی نے سنیئر بھاجپا لیڈر ارون جیٹلی جوکہ اس وقت وزیر خزانہ ہیں ، کو اور RAWکے سابقہ چیف اے ایس دولت کو بھی استعمال کیا۔ 2002میں یوپی اے قیادت والی کانگریس مخلوط حکومت نے گول میز کانفرنس کا اعلان کیا جس سے بھی اعلیحدگی پسند نے دور ی ہی بنائے رکھی۔ان سبھی مذاکراتکاروں وگروپوں نے سماج کے دیگر حلقوں سے بات چیت کر کے اپنی رپورٹیں مرکز ی سرکار کو ضروری پیش کیں لیکن وہ سب ردی کی ٹوکری میں گئیں ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جب کبھی بھی کشمیر کے اندر حالات زیادہ ناساز ہوتے ہیں یاپھر یہاں قائم حکومت پر سے عوام کا بھروسہ اٹھنا شروع ہوجاتا ہے تو عین وقت پر مرکز بات چیت اور کشمیر حل کے نام پر کوئی نہ کوئی عمل شروع کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح آئی بی سربراہ کی تازہ تقرری بھی ہے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ چونکہ دنیشور شرما خفیہ ایجنسی آئی بی کے سربراہ رہے ہیں ، جس کے ہاتھ میں حکومت کو چلانے کا حقیقی کنٹرول ہوتاہے، اس لئے ان کا نظریہ مخصوص دائرہ تک ہی محدود ہوگا اور ان کی رپورٹ بھی اس دائرہ سے قطعی باہر ہوہی نہیں سکتی۔جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ اور عدالت عظمیٰ کے سنیئر وکیل پروفیسر بھیم سنگھ نے بھی اس کو وقت گذاری مشق قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی ایسی حالت ہے جیسے شدید درد میں مبتلا مریض کو دوا دیکر بہوش کر دیاگیا ہو۔ لہہ۔ سری نگر سے جموں تک یہی صورتحال ہے۔ نام نہاد مذاکرتکار کی تقرری انگریز حکمرانوں کا پرانا کھیل ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2001میں کے سی پنت، 2003میں این این و؇¢ہرا، 2010میں تین رکنی مذاکراتکاروں کی رپورٹوں کا کہا ہے۔ ان رپورٹوں سے کافی حد تک مدد مل سکتی تھی لیکن کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان رپوٹوں کا کیا ہوا۔ گذشتہ روز حکومت کی طرف سے آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما کی مذاکرات کے طور تقرری پچھلی دو دہائیوں کے دوران جموں وکشمیر پر مذاکرات کے لئے پانچویں کوشش ہے۔ سابقہ وزیر دفاع کے سی پنت اور این این ووہراہ پہلے مذاکرات تھے جنہوں نے سماج کے مختلف طبقہ جات سے مذاکرات کا عمل شروع کیاتھا۔ UPA-Iحکومت نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں اس وقت پانچ ورکنگ گروپ نامزد کئے جس میں سابقہ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصار ی کی قیادت میں والا گروپ بھی شامل تھا، اس نے بھی سفارشات پیش کیں ۔یو پی اے دوئم نے دلیپ پڈگاؤنکر؇cc کی قیادت میں مذاکراتکار کار نامزد کئے۔ گول میز کانفرنسیں بھی ہوئیں لیکن تمام رپورٹوں اور سفارشات پر کوئی عمل نہ ہوا۔

آخری مرتبہ سال 2010کو کشمیر میں ایجی ٹیشن جس دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 120شہری مارے گئے تھے ,کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے نپٹنے کے لئے حکومت ہند نے تین رکنی مذاکراتکاروں کی تقرری عمل میں لائی جن میں دلیپ پڈگاؤنکر، ایم ایم انصاری اور پروفیسر رادھا کمار شامل تھے جنہوں نے مختلف حلقوں سے بات کر کے ایک مفصل او ر جامع رپورٹ پیش کی مگر اس پر کوئی بھی عمل نہ ہوا۔ جموں وکشمیر فورم فار پیس اینڈٹیریٹوریل انٹی گریٹی آف سٹیٹ (KFPT J)کے صدر آئی ڈی کھجوریہ کے مطابق دیر سے ہی سہی مگر جموں وکشمیر مسئلہ کے دیرپا قیام امن کے لئے یہ ایک مثبت قدم ہے۔ ان کے مطابق عصرحاضر میں مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں ۔امن اور برداشت کی سیاست ہی سماج سے بندوق کلچر کو ختم کرسکتی ہے لیکن انہوں نے حدشہ یہ ہے کہ ایکبار پھر یہ عمل فضول مشق نہ ثابت ہو جس طرح، این این ووہرا، کے سی پنت، دلیپ پڈگاؤنکر کے علاوہ دیگر معاہدے، مذاکرات وغیر ہ ہوئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔