انگریزی شعر و ادب پر یہودی اثرات (دوسری قسط)

منیر احمد خلیلی

 عیسائی صیہونیت 

گیارھویں سے دسویں صدی قبل مسیح تک طالوت، حضرت داودؑ اور حضرت سلیمان ؑکے عہد میں یہودیوں کوجوسربلندی اور طاقت نصیب ہوئی تھی وہ برقرار نہ رہ سکی تھی۔ ہر عروجے را زوال کے کُلیّے کی تہ میں جھانکا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ زوال کا گَرہن پہلے قوموں کے معتقدات و اخلاقیات کو لپیٹ میں لیتا ہے اور پھر اثر و اقتدار اور شوکت و عظمت کے سورج کی ضیا پاشیوں کو ظلمتیں گھیر لیتی ہیں ۔معلوم تاریخ ِ انبیاء میں حضرت یوسف علیہ السّلام کو ہم مصر کے اقتدار تک پہنچا ہوا دیکھتے ہیں۔انہی کے اقتدار کے عرصے میں آلِ یعقوب کنعان سے اٹھ کر مصر میں جا آباد ہوئے تھے۔آنجناب کے کچھ عرصہ بعدبنی اسرائیل کو مصر کے فرعونوں نے اپنا محکوم بنا لیا اور ان پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔

غلامی محکوم قوموں کی فطرت مسخ کر دیتی ہے۔ فطرت کی اسی کجی کے ساتھ بنی اسرائیل نے کئی صدیاں گزاریں ، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عہدآ پہنچا۔جناب موسیٰ ؑ اللہ کی ہدایت اور نصرت سے معجزانہ طور پر جب اس قوم کو لے کر فلسطین کے لیے نکلے اس وقت ان لوگوں میں مصریوں جیسی ساری خصلتیں پیدا ہو چکی تھیں ۔طویل غلامی نے اجتماعی مزاج میں جو بہت بڑا ٹیڑھ پیدا کر دیا تھا، حضرت موسیٰ ؑ کو مصر سے یروشلم کی طرف سفر میں قدم قدم پر اس کا سامنا رہا۔اسی ٹیڑھ کی وجہ سے یہ لوگ چالیس سال تک صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیے گئے تھے اور کہیں ان کی اگلی نسل کو فلسطین کی سرزمین میں بسنا نصیب ہواتھا۔حضرت موسی ؑ کے بعد ان کی ہدایت کے لیے پے در پے پیغمبر آتے رہے لیکن اپنے اندر داخل ہو جانے والے اعتقادی اور اخلاقی فساد کی وجہ سے راہِ راست پر آنے کے بجائے یہ لوگ پیغمبروں کو جھٹلاتے بھی رہے اور ان کو قتل کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہ کیا۔ ان پر مختلف قومیں چڑھایاں کرکے انہیں ذلت و رسوائی سے دوچاراوران کے مذہبی تقدس کو پامال کرتی تھیں ۔ان کی معصیتوں کی وجہ سے ہدایت کا سلسلہ بھی ان کے لیے رک گیا تھا۔

 فلسطینی ان سے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کے عہد کے تبرّکات بھی چھین کر لے گئے تھے جو ان کے لیے وجۂ ِ تسکین ِ قلب تھے۔خجالت و خواری اورسوائی کا خوب مزا چکھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے شمویل نبی کے عہد میں طالوت کو ان پر بادشاہ بنایا تا کہ دشمن سے لڑ کر تابوتِ سکینہ بھی واپس لائیں اور کھویا ہوا اثر و اقتدار بھی لوٹائیں ۔اسی لشکر میں حضرت داودؑ شامل تھے جنہوں نے فلسطینی پہلوان جالوت کو قتل کیا۔ اس فتح مندی کے بعد حضرت داود ؑ ان کے بادشاہ بھی بنے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبری بھی عطا کی۔ یہ دونوں منصب ان کے بیٹے حضرت سلیمان ؑ کو بھی نصیب ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام کی ذرّیت میں شاہانہ شان و شکوہ رکھنے والے انہی دو نبیوں کی  تاریخ ملتی ہے جن کے عہد میں بنی اسرائیل دنیوی عروج و کمال اور قوت و اقتدار کی بلندیوں تک پہنچے تھے۔ان دونوں کے اٹھ جانے کے بعدبنی اسرائیل نے پھر معصیت و بغاو ت کا راستہ اختیار کر لیا۔ انبیاء کی تعلیمات سے انحراف کر کے اعتقادی بگاڑ اور اخلاقی بے راہروی کو اپنی پہچان بنا لیا۔ انبیاء کے ٹوکنے روکنے پر ان کے ساتھ ایسی دشمنی کرنے لگے تھے کہ ان کی جان لینے سے بھی انہیں دریغ نہ ہوتا تھا۔ انجام کار ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی۔ صدیوں پر محیط اللہ کا غضب اور ذلّت و مسکنت ان کا مقدر بنی۔

 ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ  اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآئُ وْ بَغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ لا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بَغَیْرِ حَقٍّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ

’یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذِلت کی مار پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔یہ اللہ کے غضب میں گھِر چکے ہیں ، اِن پر محتاجی و مغلوبی مسلّط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔(اٰل عمران:112 )

 وہ بد اعمالیاں ، سرکشیاں اور شر انگیزیاں جن کی وجہ سے بنی اسرائیل اس انجامِ بد سے دوچار ہوئے تھے جس کا ذکر اوپرقرآن مجید کی آیت میں آیا ہے ان کی پوری تصویر ہمیں بائیبل کے عہدنامہ قدیم کی کتب زبور، یسعیاء اور یرمیاہ اور حزقی ایل میں ان کے نبیوں کے خطبوں اور تنبیہوں میں نظر آتی ہے۔ فلسطین کے شمال اور جنوب میں اسرائیل اور یہوداہ کے نام سے ان کی دو حکومتیں قائم تھیں لیکن ہم عقیدہ ہونے کے باوجود ان میں باہم سخت رقابت تھی۔دنیوی امور ہی میں نہیں بد اعمالیوں اور بد اعتقادیوں میں بھی گویا آپس میں ان کا مقابلہ جاری رہتا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے اشوری خدا کے عذاب کو کوڑا بن کر ان پرسال ہا سال تک برستے رہے۔انہوں نے پے در پے حملے کر کے ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور ان کی بد عہدیوں اور فتنہ خیزیوں کی ہولناک سزائیں دیں ۔پھرکلدانیوں نے ان کی شمالی اور جنوبی دونوں ریاستوں پر چڑھائیاں کیں ۔

شمالی ریاست اسرائیل تو پہلے ہی اپنے داخلی فساد کی سزا پا کر تہس نہس کر دی گئی تھی لیکن سامریہ جس کاپایۂ ِ تخت یروشلم تھا نئی بابلی سلطنت کے بادشاہ بخت نصر کی باج گزار بن گئی تھی۔ بخت نصر نے بیس سال کے ایک یہودی نوجوان صدقیاہ کو ان پر بادشاہ مقرر کیا تھا۔یروشلم کی آبادی کو ابھی تھوڑا سا قرار نصیب ہوا تھا کہ یہودیوں کی فطرت میں دبا ہوا غدر اور فساد اجاگر ہوا اور انہوں نے بخت نصر کے خلاف مصریوں سے ساز باز کر کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس پر بخت نصر کا غیض و غضب بھڑکا اور 598قبل مسیح میں اس نے یلغار کر کے یہودیوں کی شمالی ریاست کی طرح جنوب کی یہودیہ کو بھی ختم کر دیا۔یروشلم میں ہیکل سلیمانی سمیت ان کے مذہبی تقدّس اور سیاسی عظمت کی ساری علامتیں بھی مسمار و پامال کر دی گئیں ۔ان کا پایۂ ِ تخت یروشلم اجاڑ دیا گیا۔چار سے ساڑھے چار ہزار افراد قتل ہوئے۔

 کچھ یہودی ادھر اُدھر بکھر گئے لیکن بابل والے ہلِ حرفہ اور دیگر اہم پیشوں کے لوگوں ، مذہبی پیشوائوں اور دولت مند طبقے کوہانک کر بابل لے گئے اور وہاں اسیر ی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ آخر 539ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس ثانی(سیروس، خورس، خسرو) نے بابل کو فتح کر لیا۔اس نے یروشلم واپس جانے کے خواہش مند یہودیوں کے ایک بڑے گروہ کو واپس جانے اور ہیکلِ سلیمانی کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ آسمانی کتابوں کا یہ اندازِ بیان ہے کہ مستقبل میں وقوع ہونے والی بات ماضی کے صیغے میں بیان کی جاتی ہے۔ عہدنامۂ ِ قدیم کی کتاب ’یسعیاہ‘  کے چالیسویں باب کی پہلی اور دوسری آیت میں پیغمبر کی زبان سے ان کو کافی عرصہ پہلے جو خُوشخبری دی گئی تھی وہ اسی نجات کی تھی :

’ تسلّی دو تم میرے لوگوں کوتسلّی دو۔ تمہارا خداوند فرماتا ہے یروشلم کو دلاسا دواوراسے پکار کر کہو کہ اس کی مصیبت کے دن جو جنگ و جدل کے تھے گزر گئے۔‘

غیر متعصب عیسائی اور خود یہودی اہلِ علم اور مورخین مانتے ہیں کہ پیغمبر کی زبان سے ملنے والی اس خوشخبری میں جس جنگ و جدل کے گزر جانے کی طرف اشارہ ہے وہ یہی کبھی آشوریوں کے غلبے اور کبھی بابلیوں کی چڑھائی والی جنگیں تھیں جن کے نتیجے میں یہودیوں پر پے در پے مصیبتیں آئیں اور انہیں بار بار گھر وں سے بے گھر ہونا پڑاتھا۔ ’مصیبت اور جنگ و جدل کے دن گزر گئے‘ کے الفاظ میں یہودیوں کی بابل سے رہائی اور شاہِ ایران خسرو کی طرف سے ان کے پہلے گروہ کو 538ق م میں یروشلم واپس جاکر آباد ہونے اور ہیکل سلیمانی کی از سرِ نو تعمیر کی اجازت ہی کی بات ہے۔لیکن سترھویں اور

اٹھارھویں صدی عیسوی میں اٹھنے والی اصلاحی اور تطہیری تحریکوں کے اثر سے عیسائیت میں اس صیہونیت کا رنگ غالب آگیا تھاجس کی طرف میں نے اس سے قبل ’لبرلزم کے خواب‘ اور’کلاسیکی انگریزی شعر و

 ادب پریہودی اثر‘میں واضح اشارے کیے ہیں ۔دنیا بھر کے یہودی ابھی تک اس نبی کی بعثت کا انتظار کر رہے ہیں جس کی دھمکیاں یثرب کے یہودی اوس اور خزرج کو دیا کرتے تھے۔ان کا عقیدہ ہے کہ جب وہ نبی آ جائے گاتو ان کی نیل سے فرات تک وسیع صیہونی سلطنت قائم ہو گی جس کا دارالحکومت یروشلم ہو گا۔گنبدِ صخرہ (Dome of Rock) کو مسمار کر کے وہ وہاں ایک بار پھر ہیکلِ سلیمانی تعمیر کریں گے۔اس سلطنت کے قیام کے بعد ان کو حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السّلام کے دور کی شان و شوکت حاصل ہو جائے گی اور ساری دنیا پر ان کا تسلّط قائم ہوجائے گا۔عیسائی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے ظہورِ ثانی کے منتظر ہیں ۔یہودیوں نے عیسائیوں کے مسیح ؑ ِ موعود کو اپنے پیغمبرِ منتظَر سے جوڑ کر انہیں اس بات کا قائل کر لیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نسلی اعتبار سے یہودی تھے۔ان کے ظہور ثانی کی ساری نویدوں کا دارومدار یہودیوں کی اسرائیلی ریاست کے قیام اور اس کی قوت و شوکت پرہے۔سولھویں ، سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں عیسائیت میں اصلاح اور تطہیر کی جو تحریکیں اٹھیں ان کی پشت پر شاطر یہودی ذہن کارفرما تھا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو مصلوب کرنے میں یہودیوں کے کردار کی وجہ سے عیسائیوں کے دلوں میں جو نفرت بیٹھی ہوئی تھی، انہوں نے بڑی مہارت سے اسے ہمدردی میں بدل دیا اور اس رائے کو عیسائی ذہنوں میں راسخ کیا کہ یہودی آج بھی خُدا کے چہیتے، چیدہ و چنیدہ، شعب اللہ المختار یا Chosen Peopleہیں ۔جب خدا ان سے نفرت نہیں کرتا تو ہمیں بھی ان سے نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت عیسیٰؑ کی مصلوبیت پر یہودیوں کو اس لیے بھی مُتہَم نہیں کرنا چاہیے کہ آں جناب کا صلیب پر کھینچاجانا حقیقت میں خدا کے اس عظیم منصوبے کا حصہ تھاجس کے تحت ان کو صلیب پر چڑھا کر ساری انسانیت کے گناہوں کا دائمی کفارہ کا سامان کرنا تھا۔

 یہ وہ تصور ہے جس پر صیہونی عیسائیت کی فکری تعمیر و تشکیل ہوئی اور یہ فکری طور پر یہودیت سے ہم آہنگ ہو گئی۔ اگرچہ عیسائیت میں صیہونیت کے نقب لگانے کا عمل اصل میں برطانیہ سے شروع ہوا تھا لیکن تطہیری گروہ جب امریکہ میں جا کر آباد ہوئے تو ریاست ہائے امریکہ کی اعتقادی بنیادیں اسی پر رکھی گئیں ۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں جب یروشلم سمیت اردن، شام اور مصر کے انتہائی اہم مقامات اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے تو عیسائی صیہونیت میں بے پناہ  توانائی آ گئی۔ اسے ایک جارح اور غاصب ملک کے اپنے پڑوسی ملکوں کی زمین پر قبضے کے بجائے صیہونیت کے حق میں آسمانی فیصلے سے تعبیر کیا گیا۔اس تعبیر کو یہودیوں نے تو پھیلانا ہی تھا لیکن صیہونی عیسائیت بھی اس کے پرچار میں لگ گئی۔صرف امریکہ اورکینیڈا میں اس تعبیر کے پرچار کے لیے دو سو سے زیادہ صیہونی عیسائی تنظیمیں  سرگرم ہیں ۔ International Chrischian Embassy-Jersalem(انٹر نیشنل کرسچین امبیسی –یروشلم ) عسکری مزاج کی سب سے طاقتور اور بااثر تنظیم ہے جو 1980 میں وجود میں آئی۔ اس نے یہودیوں سے ملتا جلتااپنا منشور عہد نامہ قدیم کی کتاب ’یسعیاہ ‘(Isaiah)کے 40ویں باب کی پہلی اور دوسری آیت سے اخذ کیا ہے جس کا ترجمہ پیچھے درج ہے۔ مغربی اور مشرقی یورپ اور روس میں بھی ایسی درجنوں عیسائی تنظیمیں ہیں جو صیہونیت کے فروغ و تقویت کے منصوبے پر عمل کر رہی ہیں ۔اسرائیل میں غیر قانونی یہودی بستیاں آباد کرنے کے لیے یہی تنظیمیں بھاری فنڈ مہیا کر رہی ہیں ۔یوں تو امریکہ میں خالص یہودی لابیوں اور صیہونی عیسائی تنظیموں کا اتنا اثر و رسوخ اور دبائو ہے کہ وہ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے فیصلوں کو اسرائیل کے حق میں موڑنے کی طاقت رکھتی ہیں ۔

 ویسے تو یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ امریکہ کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام سے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس کی رگوں میں یہودی خون داخل ہونا شروع ہو گیا تھا۔شمال کی ’نیو انگلینڈ‘ کے نام سے آباد ریاستوں کے باسی یہ تصورات لے کر یہاں پہنچے تھے۔کوئی امریکی صدر یہودی لابی کے اثر سے کبھی آزاد نہیں رہا ہے۔ اسرائیلی کے قیام میں جس طرح برطانیہ نے کلیدی کردار ادا کیا، اس کے قیام کے بعد اس کی ’پرورش و پرداخت ‘ اور حفاظت و استحکام کی ساری ذمہ داری امریکہ نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔ اسرائیل کی خوشنودی حاصل کیے بغیر کوئی امریکی صدر سکون کے ساتھ حکومت نہیں کر سکتا لیکن یہاں ری پبلکن پارٹی میں 1960 سے پروان چڑھنے اور گزشتہ صدی کی ساتویں آٹھویں دہائی میں ایک نظریاتی قوت بن جانے والے  Neo-Consکی طرف اشارہ کر دینا بھی بے محل نہیں ہو گا کہ صیہونیت کو سب سے بڑی تقویت وہی مہیا کر رہے ہیں ۔

ڈیماکریٹ علم، اخلاق، حق، سچائی، مساوات جیسی سماجی قدروں کو اساسی قدریں سمجھتے ہیں Neo-Cons کے ہاں وہ مطلق نہیں بلکہ بالکل اضافی چیزیں ہیں ۔ان کے نزدیک امریکی حکومت پر لازم ہے کہ اس ملک کی واحد سپر پاورکی حیثیت کو مستحکم کرے، عالمگیریت اور نیو ورلڈ آرڈر کے تصورات کو گہنانے نہ دے، طاقت کے لا محدود استعمال سے دریغ نہ کرے، معیشت میں بڑی بڑی امریکی کارپوریشنوں کی گرفت مضبوط کرے، جمہوریت کے تصور کو برآمد کرنے کے بہانے اپنے زیرِ اثر شخصی حکومتوں کے اعصاب پر دبائو ڈال کر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کراتی رہے۔بظاہر اس عنصر کی تخلیق امریکہ کی داخلی و خارجی حکومتی پالیسیوں کے عنوان سے ہوئی لیکن جمی کارٹر، ریگن، خاص طور پر جاج ڈبلیو بش کی حکومت میں یہ سوچ وہی عقیدہ بن کر کارفرما ہوئی جس کو  صیہونی عیسائیت کی علم بردار تنظیمیں پھیلا رہی ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے معتقدات میں خاص طور پر مسلمانوں کے بارے میں نفرت، تعصب، غضب اور انتقام کے منفی اور مہلک جذبات بھی شامل کر دیے ہیں ۔

 ٹرمپ برملا اسرئیل میں غیر قانونی یہودی بستیاں آباد کرنے کی کھلی حمایت کرتا رہا۔ Neo-Consمسلمانوں کو  Greater Israel کے راستے کا روڑا سمجھتے ہیں اس لیے ضروری خیال کرتے ہیں کہ یا تو اس ’روڑے‘ کو بالکل پیس کر رکھ دیں ، یا پھر یہ صیہونی عیسائیت انہیں جن مقاصد کے لیے موزوں سمجھے وہاں نصب کر دے۔ امریکہ کے اندر اور باقی ساری دنیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی نسل پرستانہ اور مسلمان کے بارے میں متعصبانہ رویوں اور اعلانات و اقدامات پرزبردست احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن خلیج کی دو بااثر حکومتیں ایسی ہیں جنہوں نے پرجوش انداز میں ٹرمپ کی پالیسی کی حمایت کی ہے۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو ’روڑے ‘ پسیں گے نہیں وہ کہاں استعمال ہوں گے۔ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے فلسفے نے پرویز مشرف کی رگوں میں بھی توانائی دوڑا دی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ممکن ہے ڈوبلڈ ٹرمپ بھی اس ’روڑے‘ کوکسی قابل سمجھ کر جارج ڈبلیو بش کی طرح کوئی خدمت سونپ دے۔

تبصرے بند ہیں۔