مذہبی قوتوں کے مثبت و منفی پہلو

اللہ بخش فریدی

جہاں مذہبی قوتوں، جماعتوں اور گروہوں کے بے شمار مثبت، خوش آئین اور لائق تحسین پہلو ہیں وہاں کئی منفی پہلو بھی ہیں۔ منفی پہلو سے مراد معاشرہ کے منفی پہلوں کی طرف ان کی نظر نہ جاناہے، معاشرہ کے منفی اطوار کے خلاف جاندار آواز نہ اٹھاناہے۔ آج آپ معاشرہ کی مجموعی صورت حال پر نظر دوڑائیں تو غلط اور باطل روایات غالب نظر آتی ہیں اور روز بروز معاشرہ میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ حق ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے اور باطل فروغ پا رہا ہے۔ مجموعی طور پر معاشرہ اغیار کی تقلید کی طرف بڑھ رہا ہے، اغیار کی روایات، اغیار کا کلچر اپنا رہا ہے اور اپنے دینی کلچر کو خیر باد کرتا چلا جا رہا ہے۔ اغیار کا قانون، اغیار کا نظام، اغیار کا سا طرز معاشرت، اغیار کا سا رہن سہن، اغیار کا لباس، اغیار کا واضح قطع، اغیار کا رنگ و روپ ہمارے اجتماعی معاشرہ پر چڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ان کی روک تھام کیلئے ہماری مذہبی جماعتوں کا کیا کردار نظر آتا ہے؟ ان کے پاس اس یلغار پر قابو پانے کیلئے کیا حکمت عملی ہے؟ کیا تدبیریں ہیں ؟ کونسا لائحہ عمل تیار کیا ہے کہ اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی برقرار رہے اور اس پر غیر کا رنگ نہ چڑھے؟ اسلامی کلچر و روایات کا کس طرح مل کر دفاع کرناہے؟ ایسا کوئی کردار، ایسی کوئی حکمت عملی، ایسا کوئی لائحہ عمل ہماری مجموعی مذہبی جماعتوں کے دامن میں نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی یہ مجموعی معاشرہ پر اثر انداز ثابت ہو رہی ہیں ؟ ان کے پاس ان حالات سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی ہے جو انتہائی مؤثر بھی ثابت ہو؟ ہاں آپس کی محاذ آرائی اور جنگی حکمت عملی سے خوب شناسا ہیں۔ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک دوسرے پر کیچڑ کس طرح اچھالنا ہے؟ ایک دوسرے کی ٹانگیں کس طرح کھینچنی ہیں ؟ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے کس طرح لگانے ہیں ؟ ایک دوسرے کے خلاف عداوت کس طرح ڈالنی ہے؟ نفرت کس طرح پھیلانی ہے؟ اس طرح کی تدابیر و حکمت عملی میں دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑا منفی پہلو جو ان جماعتوں میں نظر پڑتا ہے وہ ملت کے باہمی تعاون و اتحاد سے ہٹ دھرمی ہے۔ اخوت، بھائی چارہ، رواداری، برداشت، مفاہمت و یکجہتی نام کی کوئی چیز ان کے دامن میں نظر نہیں پڑتی ہے۔

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کونسی ایسی جماعت یا تنظیم ہے جو مذہبی منافرت، مسلکی گروہ بندی سے بالاتر صرف اور صرف امت واحدہ کی بیداری و اصلاح، عزت و وقار، عظمت و سربلندی کیلئے کام کر رہی ہے؟ جو اپنے مسلک سے بالاتر ملت اسلامیہ کے باہمی اتحاد کیلئے کوشاں ہے۔ یقیناًکوئی ایسی جماعت، کوئی ایسی جامع قوت ہمارے درمیان موجود نہیں جس پر سب اعتبار بھی کر سکیں۔ ہمارے حکمر ان ہیں تو وہ بے غیرتی و بے حسی کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حممیت اور غیرت دینی دم توڑ چکی ہے، انہیں دین و ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔ دشمن کو میر صادق اور میر جعفر بہت سستے داموں مل رہے ہیں، جہاں بد د یانت حکومتیں ہوں، کرپٹ انتظامیہ، بے ضمیر رہنما، جھگڑالو علماء، فسادی ملاں، بے اثر پیر و مشائخ ہوں تووہاں امت کی بیداری و اصلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ چمن کے مالی خود ہی چمن کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور اس کے تنوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

ہماری کونسی ایسی جماعت ہے جو معاشرتی برائیوں اور تباہ کاریوں کے خلاف جہاد کر رہی ہو؟کونسی ایسی تنظیم ہے جو میدان عمل میں ہو اور معاشرتی برائیوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہو؟ دعوتیں دینے، تبلیغیں کرنے والے تو بے شمار ہیں۔ اور پھر ان کی دعوتوں میں کتنا اثر ہے؟ ان کی تبلیغیں کتنی مؤثر ہیں، یہ معاشرہ پر اثر انداز کیوں نہیں ہو رہیں ؟ بے حیائی ہے تو روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے، فحاشی و عریانی ہے تو روز بروز پھل پھول رہی ہے، خدا سے سرکشی و غافل کرنے کے آلات موسیقی، ڈرامہ و فلم سازی روز بروز زیادہ پھیلتی اور مؤثر ہوتی چلی جارہی ہے، فحش بینی، فحش گوئی، بد گفتاری، بے حیائی و بے پردگی پھیلتی چلی جا رہی ہے، ظلم ہے کہ پانپتا چلا رہا ہے، جبر ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اسلامی اخلاق وکردار ناپید ہوتے چلے جا رہے ہیں، کسی میں اتنی قوت نہیں کہ روک سکیں، اس کے سامنے بند باندھ سکیں یا ان کے خلاف کوئی جاندار آواز ہی اٹھا سکیں۔ میدان عمل خالی ہو اور سٹیجوں پر جتنی بھی گرج دار بڑھکیں ہوں وہ کچھ کام نہیں آئیں گی۔ حدیث مبارکہ ہے۔

مَنْ رَأي مِنْکُمْ مُنْکُرًا فَلْیُغِّیْرَہُ بِیَدِہ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہ وَ ذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانَo

ایک اور حدیث شریف میں اس طرح کے الفاظ ہیں۔

فَاِنَ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہ وَلَیْسَ وَرَاءَ ذَلِکَ حَبْۃَ خَرْدَلْ مِنْ الْاِیْمَانِo

’’اگر تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے قوت بازو سے مٹا دے، اور اگر یہ اس کے لیے ممکن نہ ہو یا وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ سے اس کا ردّ کرے، اس کے خلاف آواز بلند کرے اور اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے، اور اگر یہ بھی اس کے لئے ممکن نہ ہو، اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکے تو دل میں اس کے خلاف نفرت ضرور پیدا کرے، اسے دل سے ضرور برا جانے اور یہ ایمان کاسب سے کمزور ترین درجہ ہے اس کے بعد ایمان کا اور کوئی درجہ نہیں ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم شریف)

ایمان کا اولین درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص(انفرادی طور پر، یا جماعتیں اور تنظیمیں اجتماعی طور پر، یہ حدیث انفرادی و اجتماعی دونوں پہلوؤں سے افراد معاشرہ کو مخاطب کرتی ہے) کہ تم میں کوئی جہاں کسی برائی کو دیکھے اگر اس میں ہمت ہے تو اپنے زور بازو سے روکے، اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے، اس کے خلاف ایک مضبوط بند باندھے کہ وہ بدی مزید آگے نہ پھیلنے پائے۔ اس درجہ میں حکمران، اداروں کے سربراہ، والدین، اساتذہ اور با اثر لوگ آتے ہیں کیونکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں، اگر وہ نہیں کرتے تو اس کے دور میں، اس کے زیر سایہ جتنی سیاہ کاریاں ہوں گی، جتنی بد اعمالیاں ہوں گی، جتنے غلط طور طریقے اپنائے جائیں گے اس گناہ میں وہ بھی برابر کے حصہ دار ہوں گے اور خدا کی عدالت میں ان سے سخت باز پرس ہو گی کہ تم نے قدرت رکھنے کے باوجود ان برائیوں پر قابو کیوں نہ پایا؟

اس کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر وہ ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو زبان سے اس کے خلاف سراپا احتجاج ہو، اس کے خلاف آواز اٹھائے، اور لوگوں کو بھی اس کا شعور دے کہ یہ برائی ہے، یہ بدی ہے اگر اس کا قلع قمع نہ کیا گیا تو یہ مرض سرکش عفریت کی طرح معاشرہ میں پھیلتا چلا جائے گا۔ اس درجہ میں عموماً مصلحین، علماء، پیر و مشائخ اور بزرگ آتے ہیں کہ وہ حکمت عملی کے ساتھ لوگوں کی فہمائش کریں اور سمجھائیں اور زبان کے ذریعے ان کو ٹوکیں ورنہ یہ بھی گنہگار ہوں گے۔
اس کے ایمان کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ اگر زبان سے آواز نہیں اٹھا سکتے وہ کمزور ہیں یا ناتواں ہیں یا ان کو نقصان یا اذیت کا اندیشہ ہے تو یہ کمزوری انہیں اس وقت ہضم ہو سکے گی جب کم از کم اسے دل میں برا جانے، اس کے دل میں اس بدی سے اور اس کا ارتکاب کرنے والے لوگوں سے نفرت و بیزاری ضرور پیدا ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اتنا بھی نہیں کر سکتا تو وہ اہل ایمان سے خارج ہے۔ حدیث کے مطابق اس کے بعد ایمان کا اور کوئی درجہ نہیں ہے۔

ایمان کے کمزور ترین درجہ سے مرادگناہ، بدی، معصیت، ظلم و زیادتی سے نفس میں طبیعی طور پر انقباض پیدا ہو، اور دل میں بھی نفرت ابھرے۔ جس شخص میں یہ صفت موجود ہوگی، وہ نہ صرف قبائح سے اجتناب کرے گا بلکہ دوسروں میں بھی اس کو برداشت نہ کرسکے گا۔ وہ برائیوں کو دیکھنے کا روادار نہ ہوگا۔ ظلم و زیادتی، جفاکی اور معصیت سے مصالحت کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ جب اس کے سامنے قبائح کا ارتکاب کیا جائے گا تو اس کی غیرت ایمانی جوش میں آجائے گی اور وہ اس کو ہاتھ سے یا زبان سے مٹانے کی کوشش کرے گا یا کم از کم اس کا دل اس خواہش سے بے چین ہو جائے گا کہ اس برائی کو مٹا دے۔

رسول اللہ ﷺ نے ایمان کے یہ تین درجے مقرر فرما کر دراصل ہر بہانے باز کا راستہ بند کر دیا ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے جوکم از کم تیسرے درجے کی بھی ہمت نہ رکھتا ہو۔ اگر مسلم ان اصولوں پر کار بند ہو جائیں تو یقین کیجیے! برائی کو سر چھپانے کے لئے جگہ نہ ملے اور جو برائی باز ہیں وہ سر اٹھا کر نہ چل سکیں۔ اسلام میں مغرب کے اس رویے کی کو ئی گنجائش نہیں ہے کہ افراد کی برائیوں پر اس وقت تک تنکیر کرنا صحیح نہیں جب تک وہ اس کے ذاتی معاملے کی حد سے آگے بڑھ کر دوسروں پر اثر اندا ز نہ ہو۔ مغرب میں انفرادی آزادی کے اس رجحان نے وہاں کے معاشرے سے بہت سی اہم اخلاقی و روحانی اقدار کو نیست ونابو د کردیا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کوافراد کی اصلاح اور ان کو خیرکی تلقین کے ساتھ برائیوں سے روکنے کا حکم دیتا ہے۔

اب ہر شخص تو اپنے ہاتھ سے، اپنے قوت بازو سے بدی کو نہیں روک سکتا۔ اگر ہر ہر شخص انفرادی طور پر برائیاں ختم کرنے کیلئے ہاتھ اٹھانے لگ جائے تو معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوگا، خون ریزی ہو گی، فساد برپا ہو گا، کشیدگی اور تشدد بڑھے گا۔ کچھ خاص قوتیں ہیں، کچھ خاص ہاتھ ہیں جن کے اٹھنے سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا، کوئی فساد نہیں پھیلتا بلکہ اصلاح ہوتی، معاشرہ سدھر جاتا ہے، وہ ہاتھ، وہ قوتیں اس حدیث مبارکہ کا خاص طور پر مخاطب ہیں۔ حکومت ایک طاقت ہے، ادارے اور محکمے ایک طاقت ہیں، جماعتیں اور تنظیمیں ایک طاقت ہیں، ان جماعتوں اور تنظیموں کے سربراہ اپنے اراکین کیلئے ایک طاقت ہیں، استاد اپنے شاگردوں کیلئے ایک طاقت ہیں، والدین اپنی اولاد کیلئے ایک طاقت ہیں، خاوند اپنی بیگمات کیلئے ایک طاقت ہیں، پیر اپنے مریدین کیلئے ایک طاقت ہیں، علماء و مشائخ خود سے وابستہ لوگوں کیلئے ایک طاقت ہیں، امیراور بااثر طبقہ اپنی رعایا، زیر اثر، زیر سایہ کیلئے ایک طاقت ہیں۔ یہ وہ طاقتیں ہیں، یہ وہ ہاتھ ہیں جن کے اٹھنے سے معاشرہ میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہوتا، کوئی فساد نہیں پڑتا بلکہ معاشرہ اصلاح کی طرف جاتا ہے۔ جب یہ قوتیں حرکت میں آ جائیں تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ اس کا سامنا کرے یا اس کا راستہ روکے۔

کیا حکومت اگر برے اطوار روکنا چاہے تو نہیں روک سکتی؟ کیا اگر والدین اپنی اولاد کو سختی سے بدی سے دور رکھنا چاہیں تو نہیں رکھ سکتے؟ کیااستاد اپنے شاگردوں کو، ایک پیر اگر خود سے وابستہ لوگوں کو سختی سے ہر برے طریق سے باز رکھنا چاہے تو کیا نہیں رکھ سکتا؟کیا طاقتور ادارے افواج، پولیس، عدلیہ وغیرہ اگر معاشرہ سے برائیوں کا خاتمہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے؟ سب کچھ کر سکتے ہیں مگر کمزوری ایمان کی ہے، بے ضمیری، بے حسی اور بے غیرتی ہے۔ اگر یہ لوگ، یہ ادارے اپنی اپنی طاقت کا استعمال کریں تو نہ بگاڑ کا خوف، نہ معاشرہ میں فساد کا ڈر۔ ان ہاتھوں کی رسائی معاشرہ کے ہر ہر فرد تک ہے، ہر ہر گھر میں ایسے ہاتھ موجود ہیں جن کا حق کیلئے اٹھنامعاشرہ کو اصلاح کی طرف لے جاتا ہے۔ اور ایک نہیں ہر شخص پر ایسے کئی ہاتھ ہیں، والدین کا ہاتھ، استاد کا ہاتھ، علماء کا ہاتھ، قانون کا ہاتھ، حکومت اور اداروں کا ہاتھ۔ ایک ایک شخص پر اتنے ہاتھ ہونے کے باوجود پھر بھی اگر معاشرہ نہ سدھرے تو سوچنا چاہیے کہ خامی کہاں پر ہے؟کہیں ان ہاتھوں پر تو الو نہیں بیٹھا ہوا؟ہم ایمان کے ضعف ترین درجہ پر بھی پورا نہیں اتر رہے کہیں ہمارے درمیان سے ایمان تو نہیں اٹھا لیا گیا؟

اک شاخ پہ الو بیٹھا ہو برباد نشیمن ہوتا ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا؟

یہ سب طاقتور ہاتھ اگر معاشرہ کی بیداری و اصلاح کی ٹھان لیں تو ان کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ کیا اگر یہ سب حضرات معاشرہ سے برائیوں کے خاتمہ کیلئے اپنی اپنی طاقت کا استعمال کریں تو کیونکر ممکن نہیں ہو سکتا؟ مگر مرض یہ ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دل بدی شناس نہیں، ہماری نظر میں بدی سے نفرت نہیں، ہم اچھائی اور برائی، حق اور باطل میں تمیز کرنا نہیں جانتے، اگر کوئی جانتا ہے تو روکنے کا جذبہ نہیں، ایمان کی وہ قوت نہیں جو بدی کے خلاف ہاتھ اٹھانے پر مجبور کر دے، وہ دینی غیرت نہیں جو ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دے اور وہ برائیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے، ہماری روحیں مر چکیں۔ جیسے اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھانا! کہ آج ماؤں کے بطنوں سے مردہ روحیں جنم لے رہی ہیں۔

وائے قومے کشتہء تدبیر غیر
کار او تخریب خود تعمیر غیر
از حیاء بیگانہ پیران کہن
نوجوانان چوں زنان مشغول تن
در دل شان آرزوھا بی ثبات
مردہ زایند از بطون امہات
دختران او بزلف خود اسیر
شوخ چشم و خود نما و خردہ گیر
ساختہ پرداختہ دل باختہ
ابروان مثل دو تیغ باختہ
آہ قومی دل ز حق پرداختہ
مرد و مرگ خویش را نشناختہ

حکیم الامت حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے یہاں بہت حکمت بھری باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ آج ہماری قوم غیروں کی تدابیر اور اشاروں پہ چل رہی ہے، اس قوم کا کام فقط یہ رہ گیا ہے کہ وہ خود اپنی قوم کی تخریب کاری کر کے غیروں کی تعمیر کر تاہے۔ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ پیران کہن قوم کے بزرگوں کی آنکھوں میں بھی حیا ء باقی نہیں رہا۔ اور قوم کے نوجوان عورتوں کی طرح اپنے تن کو سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے دلوں میں آرزوئیں کچھ اور ہی ہیں۔ آج ماؤں کے بطن سے مردہ روحیں جنم لے رہی ہیں۔ قوم کی بیٹیاں اپنی زلف کی خود اسیر ہو چکی ہیں، ہر وقت اپنے آپ کو ہی آئینے میں دیکھتی رہتی ہیں اور اپنے آپ کو ہی سنوارنے میں لگی رہتی ہیں۔ جو گھر کی رونق تھیں، جو شرم و حیاء اور پاکیزگی کی علامت تھیں آج ان کا وجود شیطان کی دو دھاری تلوار جیسا ہے جس کی نظر پڑتی ہے اسے زیر کر دیتی ہے۔ آہ ! ہائے قوم! تو تو مر چکی ہے۔ تو بالکل مردہ حالت میں ہے۔ افسوس کہ ابھی تجھے اپنی مرگ کا پتہ ہی نہیں چلا۔

اب تو ہماری یہ حالت ہو چکی ہے کہ لوگ برائیوں پر برائیاں دیکھ کر ہضم کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو برائیوں کے اڈے بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے چل رہے ہیں۔ ہر گلی، محلہ، بازار میں دیکھیں ویڈیو سنٹر، موبائل سنٹر، موبائل فون کمپنیز، سینما گھر کس قدر آزادی سے فحاشی و عریانی پھیلا رہی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر دن رات کیا ہو رہاہے؟ شادی بیاہ، میلوں، عرسوں، خانقاہوں پر کیا کچھ غلط نہیں ہو رہا؟ ویڈیو سنٹر، موبائل سنٹر والے کس قدر آزادی، عزت و ٹھاٹھ سے بیٹھ کر معاشرہ میں برائیاں پھیلا رہے ہیں، فحش موویز، فحش ناچ راگ، فلمیں، ڈرامے، مجرے، یہ کیا کیا بدی نہیں پھیلا رہے معاشرہ میں ؟ ہر آنکھ ہے کہ اندھی ہے کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔ ہر زبان ہے کہ گونگی ہے اس پرکچھ بولنا ہی نہیں آتا۔ ہر ہاتھ ہیں کہ بندھے ہیں ان میں کچھ جنبش ہی نہیں۔

کیا معاشرہ میں بے حیائی پھیلانا، فحاشی و عریانی کو فروغ دینا، فلمیں، ڈرامے، مجرے، ناچ گانوں کی سیل لگانابرائی نہیں ہے؟ کیا یہ معاشرہ میں برائی پھیلانے کے اڈے نہیں ہیں ؟کیا یہ فحش بینی و فحش گوئی کو فروخت کرنے کے مرکز نہیں ہیں جہاں سے شیطان کا فیض جاری ہوتا ہے؟ اگر یہ برائی کے پھیلانے کے مرکز ہیں تو دیکھیں کس قدر آزادی اور ٹھاٹھ باٹھ سے بیٹھے اپنے دھندے میں مصروف ہیں، انہیں کوئی روک ٹوک کرنے والا ہی نہیں، انہیں کوئی ان کی چوکھٹ پہ جاکر اتنا کہنے والا بھی نہیں کہ یہ برا کام ہے، اس سے معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، بند کرو یہ شیطان کے اڈے اور کوئی جائز روزگار تلاش کرو۔ علماء و مشائخ، پیر و مفتی، رہبر طریقت، رہبر شریعت، دین بڑے کے ٹھیکیدار کہاں ہیں ؟مذہبی و دعوتی جماعتیں اور تنظیمیں کہاں ہیں، تبلیغی کہاں ہیں ؟یہ انہیں تبلیغ کیلئے شیطان کے اڈے نظر نہیں آتے؟انہیں تبلیغ کیلئے صرف ایک دوسرے مسالک کی مسجد ہی نظر آتی ہے؟ میں نے تو آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھا کہ کسی دعوتی اور تبلیغی نے کسی سینما گھر، کسی ویڈیو سنٹر، موبائل سنٹر پہ جا کر پڑاؤ ڈالا ہو، انہیں تبلیغ کی ہو، خدا کا خوف دلایا ہو، اور وہاں سے شیطان کا فیض لینے آنے والوں کوروکاہو، ہدایت دی ہو۔

اگر ہم لوگ، ہمارا مجموعی معاشرہ ایمان کے ضعف ترین درجہ پر پورا اتر رہا ہوتا، برائی کو دل سے برائی سمجھتا، اس کا ضمیر اسے اس پر ملامت کرتا ہوتا، برے اور غلط لوگوں سے نفرت آمیز رویہ رکھتا ہوتاتوآج معاشرہ کی یہ حالت نہ ہوتی، کبھی تو ان کی زبان بھی کھلتی؟ کبھی تو ان کے ہاتھ بھی اٹھتے؟یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص برائی کو دل سے برائی سمجھتا ہواور پھر اس کے خلاف اس کی زبان نہ کھلے، اس کے ہاتھ نہ اٹھیں۔ ہمارے مجموعی معاشرہ میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ ہمارے ہاں تو برے کو برا نہیں، صادق اور امین کہنے والے لوگ موجود ہیں۔ یقین نہ آئے تو شریف لٹیروں ہی کی کہانی دیکھ لیں۔ اتنے ثبوتوں، اتنی شہادتیں اور عدالتی فیصلہ کے باوجود ہم میں کتنے ایسے لوگ موجود ہیں جو آج بھی ان کو صادق اور امین کہتے ہیں۔ اسی طرح زرخواریوں کی کہانی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ہمارے ہاں وڈیرے اور بااثر لوگ خواہ جتنے برے ہوں، جتنی غلط کاریوں میں ملوث ہوں ہمارا مجموعی معاشرہ انہیں برا نہیں کہتا بلکہ ان کے حق پر ہونے کی شہادتیں پیش کر تا ہے۔

بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید

کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا

( یعنی اگر سیاسی پیر کہیں کہ بے دریغ مسجد و مصلیٰ شراب سے رنگیں کر دو توپٹواری و متوالے کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ طریقت کی راہ بتانے والا منزل تک پہنچانے کی رسم و راہ سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ )

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہماری کونسی افرادی قوت، کونسی تنظیم، کونسی جماعت ایمان کے اس اولین درجہ پر کام کر رہی ہے؟ آج کونسی ایسی جماعت ہے جو برے کا منہ پکڑ کراسے حق کی موڑ رہی ہے؟ معاشرہ سے برائیاں اپنے زور قوت سے مٹا رہی ہے؟ غلط اطوار اپنی قوت و طاقت سے روک رہی ہے؟ کونسی ایسی جماعت ہے جس کی نظر معاشرہ پر ہے ؟ کونسا ایسا گروہ یا تنظیم ہے جو معاشرہ میں کسی برائی کو دیکھتے ہی اس قلع قمع کر دیتی ہے؟ جس کا افراد معاشرہ پر خوف طاری ہے کہ اگر ہمارا کوئی غلط اقدام ان کی نظر میں آ گیا تو ہم ان کے غیظ و غضب سے بچ نہیں پائیں گے اور یہ ہمیں کسی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے؟

آج معاشرہ میں ہو ہی سب کچھ غلط رہا ہے۔ ہر طرف باطل اطوار ہی نظر پڑتے ہیں اور بڑی آزادی اور رُعب سے فروغ پا رہے ہیں کوئی قوت اس کے مدمقابل نہیں۔ حق روز بروز ناپید ہو تا چلا جا رہا ہے۔ باطل کا منہ پکڑ کر اپنے زور قوت سے حق کی طرف موڑنا تو بہت بعید رہا، یہاں تو باطل معاشرتی اطوار، باطل رواج و رسومات کے خلاف کوئی جاندار اور منظم آواز ہی اٹھتی سنائی نہیں دیتی ہے جو باطل کے ایوانوں تک پہنچے اور لزرہ طاری کر دے۔

ہمارے معاشرے میں کونسی ایسی افرادی قوت، جماعت یاتنظیم ہے جو معاشرہ پر نظر رکھے ہوئے ہے، انہیں جہاں کہیں کوئی برائی نظر پڑے اس کا منہ پکڑ کر حق کی طرف موڑ دیتی ہیں ؟ ہمارے معاشرہ میں کتنی ایسی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں جو ایمان کے اولین درجہ یا دوئم یا سوئم پر پوری اتر رہی ہیں ؟ کیا کسی کو معاشرتی برائیوں کے خلاف ان جماعتوں، ان تنظیموں کی طرف سے کوئی جاندار آواز ہی گرجتی اور جوش مارتی سنائی دیتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ایک اسلامی معاشرہ میں ؟ کیا برائیوں بلکہ تباہ کاریوں کی جڑ موسیقی ڈرامہ و فلم سازی کے خلاف کوئی جاندار آواز کسی طبقہ کی طرف سے؟ کیا غیر اخلاقی اور سکس مواد سے بھرے انٹر نیٹ کے خلاف کوئی آواز؟ کیا کسی جماعت، تنظیم یا گروہ نے پیمرا کے دروازوں کو پیٹا کہ ایسے گھٹیا مواد پوری طرح بلاک کرو۔ یہ معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی کو چبا رہا ہے۔ گلی گلی، محلہ محلہ فحش فروشی کے اڈے، ویڈیو سنٹر، موبائل سنٹر جہاں فحش و گھٹیا مواد لوگوں کو بھر بھر دیا جاتا ہے کہ خدا سے غافل و بے نیاز ہو کر موج مستی کرو۔ ان فحش فروشی کے اڈوں کے خلاف کوئی جاندار گرجتی آواز کسی جماعت کی طرف سے ؟کسی تنظیم کی طرف سے؟ علماء و پیر و مشائخ کی طرف سے؟ کیا ان فحش فروشی کے اڈوں پر کسی جماعت، کسی تنظیم، کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کا خوف اور ڈر سوار ہے؟

کوئی جماعت، کوئی تنظیم، کوئی گدی، کوئی آستانہ، کوئی خانقاہ کوئی ایک ایسا غلط اقدام بتا سکتی ہیں جس کا ان کے دم سے معاشرہ میں وجود ختم ہو گیاہو؟ جس کے سامنے انہوں نے کوئی بند باندھا ہو اور اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی و پاکدامنی برقرار رکھنے کیلئے ہمہ وقت میدان عمل ہو اور معاشرتی براہیوں کے خلاف جنگ کی سی حالت میں ہو؟ کوئی نہیں اور یقیناًکوئی نہیں۔ شریعت و طریقت کے رہبروں، گدی مکینوں اور خانقاہوں کی تو بات ہی چھوڑیں یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے ہرباطل، ہر شیطان سیرت، ہر کمینہ صفت کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے کہ ہمارے میلوں، ہمارے عرسوں پر آؤ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں، یہاں تمہیں ہر طرح سے چرنے اور چرانے کی اجازت ہے۔ مجھے بتائیں ایک پیر، ایک صاحب طریقت، رہبر شریعت کے میلہ و عرس پر سرکس کا کیا کام ہے؟ریچھ کتے کی لڑائی کا کیا کام ہے؟ مجرے، ڈانس، دھمال، ٹھیٹھر، اکھاڑے، سائیکل گراؤنڈ، ناچ راج، بھنگڑے اور خواجہ سراؤں کا کیا کام ہے؟یہاں تو یہ حال ہے کہ جب تک پیر صاحب کے آستانے پر خسرے( خواجہ سرا) ڈانس نہ کریں اور ان کے ساتھ بد فعلی نہ ہو پیر کا میلہ و دربار نہیں سجتا۔ جب تک دھمال، بھنگڑے، مجرے اور ڈرامے نہ لگیں پیر صاحب کے دربار کی رونق نہیں بنتی۔ جوا، شراب، بھنگن، چرس، حرام کاری کونسی ایسی غلط کاری ہے جو ان میلوں اور خانقاہوں پہ نہیں ہوتی ہے؟

ہماری کونسی ایسی جماعت ہے جو معاشرتی برائیوں اور تباہ کاریوں کے خلاف جہاد کر رہی ہو؟کونسی ایسی تنظیم ہے جو میدان عمل میں ہو اور معاشرتی برائیوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہو؟ دعوتیں دینے، تبلیغیں کرنے والے تو بے شمار ہیں۔ صرف دعوتیں دینے اور تبلیغیں کرنے سے معاشرے سلجھا نہیں کرتے، معاشرہ میں سلجھاؤ لانے کیلئے کچھ عملی اقدام اٹھانا پڑتے ہیں۔ کچھ حکمت عملی، کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا پڑتا ہے، معاشرہ میں گشت کرنے پڑتے ہیں، لوگوں کے روزمرہ کے معمول پر نظر رکھنا پڑتی ہے، کہیں کمی کوتاہی نظر آئے تو بازو سے پکڑ کر حق کا راستہ دکھانا پڑتا ہے، صرف کھوکھلی تقریروں، دعوتوں اور تبلیغوں سے معاشرہ میں سدھار پیدا نہیں ہو گا۔ اور پھر ان کی تقریروں اور دعوتوں میں کتنا اثر ہے؟ ان کی تبلیغیں کتنی مؤثر ہیں یہ معاشرہ کی مجموعی صورت حال بتا رہی ہے۔ یہ جماعتیں، یہ تنظیمیں، یہ علماء و پیرو مشائخ معاشرہ پر اثر انداز کیوں نہیں ہو رہے؟ بے حیائی ہے تو روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے، فحاشی و عریانی ہے تو روز بروز پھل پھول رہی ہے، خدا سے سرکشی و غافل کرنے کے آلات موسیقی، ڈرامہ و فلم سازی روز بروزاور زیادہ پھیلتی اور مؤثر ہوتی چلی جارہی ہے، فحش بینی، فحش گوئی، بد گفتاری، بے حیائی و بے پردگی پھیلتی فروغ پا رہی ہے، ظلم ہے کہ پانپتا چلا رہا ہے، جبر ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اسلامی اخلاق وکردار ناپید ہوتے چلے جا رہے ہیں، کسی میں اتنی قوت نہیں کہ روک سکیں، اس کے سامنے بند باندھ سکیں یا ان کے خلاف کوئی جاندار آواز ہی اٹھا سکیں۔ میدان عمل خالی ہو اور سٹیجوں پر جتنی بھی گرج دار بڑھکیں ہوں وہ کچھ کام نہیں آئیں گی۔ ان کے پاس صرف باتیں ہیں وہ ہمت و جرات نہیں جو ہر باطل سے ٹکر لیں، ان کے پاس وہ ایمانی جذبہ نہیں جو ہر باطل کو پکڑ کر سیدھا کر دے۔

اگر کوئی شخص، حکومت یا ادارے، کوئی مجتمع افرادی قوت، جماعت یا تنظیم برائی کو روکنے کی قوت و طاقت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں، اس ذمہ داری کو ادا نہ کریں تو اس کی بابت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

’’ جس قوم میں برے اعمال ہو رہے ہوں، اور وہ قدرت کے باوجود انہیں نہ روکیں تو خدشہ ہے کہ اللہ کریم انہیں عذاب یا ذلت و رسوائی سے دوچار کر دے۔ ‘‘ ( سنن ابو داؤد شریف)

کیا آج ہم دنیا میں ہر سو ذلت و رسواء نہیں ہو رہے؟کیا آج چاروں اطراف سے ہم پر خواری و نادار مسلط نہیں کر دی گئی؟آج کس کے گھر لوٹے جا رہے ہیں ؟ کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں ؟ آج چار سو دنیا میں کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ کس قوم کی بیٹی کی عفت و صمت، عزت و آبرو محفوظ نہیں ؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھری لاشیں، کٹے اعضاء، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت سے وابستہ ہیں ؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا کبھی کسی کو ملت کا احساس ہوا؟ کسی کی غیرت جاگی؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون، کسی کا ضمیر کھولا؟ کب بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھولیں گی اس مردہ بے ضمیر امت کی آنکھیں ؟

تبصرے بند ہیں۔