مذہب زرتشتیت: ایک تعارف (قسط 1)

ندرت کار

مجوسییت(زرتشت) مذہب کو ہر حال میں کھنگوڑنا ہوگا۔ مجبوری یہ ہے کہ جب تک ہم تاریخ کے پس منظر سے پردہ نہین اٹھائیں گے، ہم اصل حقیقت کی تہہ تک کبھی بھی نہ پہنچ پائیں گے۔

ایران اور عراق کی فتح کے وقت، اس علاقہ میں،نو افلاطونی افکار کے ساتھ ساتھ، یہودیت اور نصرانیت کے علاوہ تین ایرانی الاصل مذاہب بھی رائج تھے۔ ایران کا شاہی مذہب مجوسییت یا زرتشتیت ہی تھا، لیکن ان علاقوں میں "مانویت” اور منردکیت کے ماننے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔

جنابِ زرتشت سے پہلے ایرانی مظاہرِ فطرت، مثلاً آسمان، روشنی، آگ ،ہوا، بارش ۤوغیرہ کی پرستش کرتے تھے، اور سورج کو خدا کی آنکھ اور روشنی کو خدا کا بیٹا کہتے تھے،اور اسے خیر کا مظہر گردانتے تھے،جب کہ ان کے نزدیک، ظلمت، شر کا پہلو لیئے ہوئے تھی۔

اس کے علاوہ وہ،ہندوستان قدیم کے ہندوؤں کی طرح بہت سے دیوتاؤں کی بھی پرستش کرتے تھے، وہ یہ بھی مانتے تھے کہ ان میں کچھ دیوتا خیر کے نمائندہ ہیں اور کچھ شر کے۔۔ اور دونوں میں ہر وقت، نزاع، رہتی ہے۔

جنابِ زرتشت نے تمام دیوتاؤں کو اکٹھا کرکے، صرف دو خداؤں کا تصور دیا۔۔۔ ایک خیر کا خدا، جس کا نام، اہور منردا تھا، اور دوسرا اہرمن، جو شر کا خدا تھا، ان کے عقائد کے مطابق، دونوں قوتیں ہر وقت برسرِ پیکار رہتی ہیِں۔

جب شہنشاہ پستاسپ نے جناب، زرتشت صاحب کا مذہب قبول کرلیا تو وہ شاہی مذہب ہونے کی وجہ سے پورے ایران کا مذہب بن گیا۔ اس مذہب کے مطابق، خیر اور شر کے دونوں خدا، تخلیق پر قادر ہیں، خیر کا نشان نور ہے اور شر کا ظلمت۔

خیر کے خدا نےروشنی، پیدا کی،پہرے دینے والے کتے پیدا کیئے، مویشی اور مرغ پیدا کیئے۔۔۔۔ جب کہ شر کے خدا نے درندے، سانپ اور اژ دھے پیدا کیئے، لہٰذا مؤمنیں کا فریضہ یہ ہے کہ جہاں ایسی موذی اشیاء دیکھے، انہیں ہلاک کردے، اسی ظلمت کو ختم کرنے کیلیئے، ان کی عبادت گاہوں میں، ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔

اس مذہب کے مطابق، دونوں خدا، خود نہیں لڑتے بلکہ اپنی مخلوقات کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں. جنابِ زر تشت کی تعلیمات کے مطابق، انسان کی دو زندگیاں ہیں، ایک اس دنیا کی اور دوسری مرنے کے بعد کی۔ آخرت کی زندگی کی خوش گواری یا نا خوشگواری کا انحصار، ان اعمال پر ہوگا، جو انسان اپنی دنیاوی زندگی میں کرتا ہے۔

زرتشت مذہب کے مطابق، مرنے کے بعد انسان کی روح، تین دن تک اسکے جسم پر منڈلاتی رھتی ھے، اسلیئے اس کے وارثوں کو چاہیئے کہ،تین دن تک خصوصیت کے ساتھ، دینی احکام و رسوم ادا کریں، تاکہ مرنے والے کی روح، اگلی دنیا سے مانوس ہوجاۓ۔ مرنے والے کے لیئے تین دن تک قران خوانی کرنا ،قبروں پر پھول چڑھانا، اور رات کو دیئے جلانا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں میں،،،، مجوسیت کی باقیات، میں سے ہے۔

جنابِ زرتشت کی تعلیمات میں یہ بھی تھا کہ روزِ حساب، انسان کی روح ایک ایسے راستے پر سے گذرے گی، جو جہنم کے اوپر ہوگا، اور بال سے بھی باریک ہوگا،۔۔۔۔۔ لیکن مؤمنین کے لیئے یہ، کشادہ ہوجاۓ گا، اور مؤمن اس پر سے آسانی کے ساتھ گذر جائیں گے، لیکن گنہگار اور کافر، جہنم میں گر جائیں گے، اسی خیال سے مسلمانوں میں "پُل صراط” کا تصور ،عام ہوا۔

بچپن میں جب ابھی میرا شعور پختہ نھیں ہوا تھا، تو ہمیں گھر میں یھی بتایا جاتا تھاکہ قربانی کا بکرا، پُل صراط سے گزرنے کےلیئے سواری کا، کام دے گا، ہمیں اس پر سے بخوبی گزار دیگا، میری سمجھ میں یہ بات نھیں آتی تھی اور نہ اب آتی ھے کہ، چار پیروں والا بکرا، بال سے باریک تر راستے پر اپنا توازن، کیوں کر برقرار،یا قائم، رکھ سکے گا۔

جنابِ زرتشت نے یہ بھی بتایا تھا کہ جن لوگوں کی نیکیاں، اور بدیاں، برابر ہونگی، انہیں ایسی جگہ رکھا جاۓ گا، جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگی، جہاں نہ جنت کی خوش گواریاں ہوں گی اور نہ دوزخ کی اذیت۔ اسی خیال سے مسلمانوں میں "اعراف” کا تصور پیدا ہوا۔ اسی طرح آگ کے تقدس اور اس کی پرستش کے جذبہ سے ۔۔۔ مسلمانوں میں، شبِ برآت کا تہوار منانے کا رواج ہوا جس میں آج تک، آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اسی طرح زرتشتی مذہب میں ماوراۓ طبیعات کی بحثیں بھی موجود ہیں، جن کا عربوں میں فتح ایران سے پہلے ،تصور تک نہ تھا،نیز معتزلہ کے بعض خیالات ، صوفیاء کی روح اور نفس کی بحثیں، لاہوت اور ناسوت کے قصے، تمام کے تمام مجوسیت سے ماخوذ ھیں۔ جن کا سلام کی سادگی سے کوئی واسطہ نھیں۔ ایران کا دوسرا اہم مذھب،” مانویت تھا،جو زر تشتیت اور نصرانیت کا ملغوبہ تھا، یہ مذہب بھی خیرو شر کی دو علیحدہ علیحدہ قوتوں، یعنی نور و ظلمت پر یقین رکھتا تھا۔

اگر انسان سے کوئی اچھا کام صادر ہوتا،تو وہ خداۓ خیر کی طرف منسوب ہوتا تھا، اور برا کام خداۓ شر کی طرف۔ مانویت کی زیادہ تر تعلیمات، جنابِ زرتشت کی تعلیمات سے ملتی جلتی تھیں، لیکن ان دونوں تعلیمات میں ایک بنیادی فرق تھا، ۔ جنابِ زرتشت کے نزدیک، یہ دنیا، ایک خیر ہے، اور خیر کو آخر کار شر پر فتح حاصل ہونا یقینی ہے، لیکن مانویت کے نزدیک یہ دنیا شر ہے، کیونکہ خیر اور شر کا امتزاج ، بذاتِ خود، ایک شر ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ،زندگی کے ہر شعبے میں خیر کے ساتھ ،،،شر ملا ہوا ہے۔

جنابِ زرتشت کا خیال تھا کہ انسان کو اپنی زندگی ۔۔۔ فطرت کے قوانین کے مطابق بھرپور طریقہ سے گزارنی چاہیئے، کیونکہ ایسا کرنے ہی سے انسان خیر کی مدد کرسکتا ہے۔لیکن جنابِ مانی نے اس کے برعکس، ترکِ دنیا اور رہبانیت کی تعلیم دی، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ، مانویت ایران کا شاہی مذہب بن گئی، اور یہ مذہب ایران میں خوب پھیلا۔

لیکن بہرام اول نے مانی کو قتل کراکے اس کے متبعین کو منتشر کردیا، جو بعد میں سمر قند کی جانب بھاگ گئے، اور عربوں کے ہاتھوں فتح ایران کے بعد واپس آۓ، اور اسلامی حکومت میں ان میں سے بہت سے لوگ منا فقانہ طور پر مسلمان ہوگئے، یہاں تک کہ آخری اموی خلیفہ کا استاد، جعد بن درہم بھی اس مذہب سے تعلق رکھتا تھا، ابن الندیم نے لکھا ہے کہ برامکہ کا خاندان بھی مانویت کا پیروکار تھا،جو تین پشتوں تک، خلافتِ عباسیہ کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔

اس مذہب کے پیرو کاروں نے بہت سے مسائل پیدا کئے۔۔۔۔ مثلاً یہ کہ روزِ قیامت، انسان کا حساب ، اس کی روح سے ہوگا یا ،،،،،،،، اس کے جسم کو بھی اٹھایا جاۓ گا۔ انہی کی وجہ سے ۔۔۔ ترکِ دنیا، ترکِ علائق، اور تصوف کا تصور اسلام میں در آیا،اس قسم کی تعلیمات کو فروغ دینے کا مقصد یہ تھا کہ،کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو بھی عملی زندگی سے دور رکھا جائے اور انہیں نظریاتی مسائل میں الجھا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتیں، ان کی نظروں سے اوجھل کردی جائیں، آج بھی اسلامی الٰہیات میں بہت سے مسائل ایسے موجود ہیں، جن کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، جنابِ مانی نے شادی کو، حرام ٹھہرایا، تاکہ فنا کا مقام جلد حاصل ہوجائے،زہد و ترکِ دنیا کی تعلیم دی اور ہر ماہ میں سات روضے فرض قرار دئے،تاکہ انسان جلد از جلد،کمزور ہوکر دنیا سے رخصت ہوجائے.

مانویت میں بے شمار نمازیں فرض کی گئیں، ہر نماز میں 12 سجدے اور ہر سجدے میں مخصوص دعا پڑھنا لازم قرار دیا گیا، پانی سے وضو کرکے سورج کی طرف منھ کرنا اور اسی طرح قیام اور سجدے کرنا بھی فرض تھا، مانویت میں جانور ذبح کرنے کی بھی ممانعت تھی۔

مانی، جنابِ زرتشت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کرتا تھا، اور دعویٰ کرتا تھا کہ میں وہی ہوں، ، جس کی بشارت حضرت عیسی ؒ نے دی تھی، صوفیاء مٰیں ترکِ دنیا، ترکِ علائق اور فنا کی تعلیم بھی اسی مانویت کے ذریعہ، اسلام میں داخل ہوئی۔ اس کے پیرو کاروں کو،”زندیق” کہا جاتا تھا، بہرام اول نے اسے قتل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شخص،دنیا کو برباد کرنے کےلیے نکلا ہے۔ اس کے قتل کے بعد بھی۔ اس کے متبعین نے اس کی تعلیم کو جاری رکھا، جس نے اسلامی دنیا میں بڑے گُل کھلائے. (جاری ھے)

تبصرے بند ہیں۔