مذہب زرتشتیت: ایک تعارف (قسط 2)

ندرت کار

ایران کا تیسرا بڑا مذہب، منروکیت تھا، منروک نے بھی ایرانیوں کو ثنویت کی طرف دعوت دی، یعنی وہ بھی خیر و شر اور نور و ظلمت کی دو متضاد قوتوں کا قائل تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، اس نے اشتراکی تعلیمات کی بھی تبلیغ کی۔وہ کہتا تھا کہ تمام انسان، مساوی اور یکساں پیدا ہوئےہیں،لہٰذا ان کی زندگی میں بھی مساوات ہونی چاہیئے، اور مال و متاع اور عورتیں، ان میں یکساں تقسیم ہونی چاہیئیں، اگر ایسا ہوجائے تو دنیا میں انسانوں کے درمیاں کوئی نزاع نہ رہے گا،،کیونکہ زن، زر زمین، ہی اس نزاع کا باعث ہوتے ہیں۔

منروک سے پہلے افلاطون نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا، منروک کی تعلیمات کی وجہ سے پورے ایرانی معاشرے میں ابتری پھیل گئی، ہزاروں لوگوں نے اس کے دین میں شامل ہوکر امراء کے گھروں کو،لوٹنا شروع کردیا، چنانچہ شہنشاہ قباد نے منروک کو قتل کروا دیا۔

حضرت عمرِ فاروق کے فتح ایران کے بعد بہت عرصہ بعد تک بھی ایران میں منروکیت کے پیروکار موجود رہے۔ اصطخری اور ابنِ حوقل کا بیان ہے کہ،کرمان کے بعض دیہات کے باشندے اموی دورِ حکومت کے آخری زمانہ تک منروکیت کے پیروکار رہے۔

طبری کا بیان ہے کہ،ابن السوودا عبداللہ بن ابی نے حضرت اپوذر غفاری (رض) کو منروکیت کی طرف راغب کیا،،لیکن مال کی حد تک تو وہ اس سے متفق تھے، لیکن عورتوں کے معاملہ میں، انہیں ابن السودا سے اختلاف رہا۔ طبری نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ، ابن السودا حضرت ابودردا (رض) اور حضرت عبادہ ابنِ الصامت(رض) کے پاس بھی گیا، لیکن انہوں نےابن السودا کی بات نہیں مانی۔بلکہ عبادہ(رض) انھیں پکڑ کر حضرت امیر معاویہ کے پاس لے گئے، اور کہا، یہی وہ شخص ہے،جس نے ابوذر (رض) کو تمہارے خلاف بھڑکایا ہے۔حضرت ابو زر غفاری نہایت پرہیزگار شخص تھے، ترکِ دنیا سے متعلق صوفیاء پر ان کے خیالات کا اثر نمایاں ہے۔

ان مذہبی اثرات کے علاوہ مسلمانوں نے ایرانیوں سے دوسرے اثرات بھی قبول کئے، ایرانی عوام میں، اپنے شہنشاہوں کے متعلق، ان کے الوہیاتی مظہر ہونے کا عقیدہ متداول تھا۔

ان کا خیال تھا کہ خدا نے خود ان شہنشاہوں کو انسان پر خکومت کرنے کےلیئے تعینات کیا ہے، اور خدا اپنی خاص قدرت سے ہر وقت ان کی مدد کرتا رہتا ہے،وہ زمین پر خدا کا سایہ ہوتے ہیں، وہ،ظلِّ الٰہی ہیں، اور خدا نے اپنی خاص مصلحت کے ماتحت انہیں پیدا کرکے دنیا میں بھیجا ہے تاکہ وہ انسانوں پر حکومت کریں، اسی لئے بندوں کا فرض ہے کہ اپنے شہنشاہوں کی پوری پوری اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے ان کے جملہ حقوق ادا کریں، جہاں تک شہنشاہوں کا تعلق ہے، تو عوام کا ان پر کوئی حق نہیںِ اس عقیدہ سے متآثر ہوکر”السلطان ظل علی الارض”کا نعرہ، ہر محراب و منبر سے لگایا گیا،

پروفیسر براؤن نے لکھا ہے کہ:

٫٫ ساسانی حکمرانوں نے کے عہد میں ایرانیوں کے اس عقیدہ نے بڑی شدت اختیار کرلی تھی۔،،

مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ایران کے وقت اکاسرہء ایران یہ سمجھتے تھے کہ، سر پر تاج رکھنا انہی کا حق ہے، کیونکہ ان کی رگوں میں خدا تعالیٰ کا خون گردش کررہا ہے۔ جس طرح ہندو عورتیں عزت و احترام کی وجہ سے اپنے خاوند کا نام زبان پر نہیں لاتیں، اسی طرح ایرانی عوام بھی اپنے بادشاہوں کا نام لینا،کمالِ بے ادبی سمجھتے تھے۔

فتح ایران کے بعد ایرانیوں نے اسلام تو قبول کرلیا، لیکن وہ، ان خیالات و عقائد کو نہ بھلا سکے،جو صدیوں سے ان کے ہاں رائج تھے، اگرچہ ان کے ہاں، کوئی شہنشاہ نہیں رہاتھا، لیکن اب بادشاہوں کے مظہرِ خدا ہونے کے عقیدے نے، ایک دوسری شکل اختیار کرلی۔ اور اس خلاء کو اس طرح پُر کیا گیا کہ حضرت علی (رض) اور ان کی اولاد کو وہی مقام دیا گیا، جو ان کے ہاں، شہنشاہوں کو دیا جاتا تھا، چنانچہ ایران میں ایک ایسا بھی فرقہ پیدا ہوا، جو حضرت علی (رض) کو خدا مناتا تھا۔

اس قسم کے عقائد کے ابطال کےلیئے ،معتزلہ، اور اخوان الصفا کا گروہ پیدا ہوا، جنھوں نے اسلام میں، "علمِ کلام” کی بنیاد رکھی،لیکن اس قسم کے مباحث کا نقصان یہ ہوا کہ امتِ مسلمہ فرقوں میں بٹ گئی، اس طرح امت میں یک نگہی نہ رہی، اور پوری امت تباہی کے غار کی طرف چل پڑی۔

رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم، نے مدینہ میں ایک ایسی فلاحی مملکت قائم کی تھی، جس کی مثال، دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھی ،نہ بعد میں،اس مملکت کا دستور قران تھا اور قرانی احکام پر عمل در آمد، امت کے "اولی الالباب” کے مشورے (امرھم شوریٰ بینھم)(اسلامی جمھوریت)کے مشورے سے کیا جاتا تھا۔

حضور ﷺ، کی حیاتؐ طیبہ ہی میں پورا جزیرہ نمائے عرب،حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا، آپ ﷺ کی وفات کے بعد، فتوحات کا سلسلہ شرو ع ہوکر حضرتِ عثمان کے دورِ خلافت تک قائم رہا،اور عراق، ایران، شام اور مصر ،مسلمانوں کے قبضہ میں آگیئے۔ جہاں عربوں کا اختلاط، رومیوں، شامیوں، عراقیوں، ایرانیوں اور مصریوں سے ہوا۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس وقت نو افلاطونیت کے علاوہ ،یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ ساتھ ،مجوسیت، مانویت، اور منروکیت کے ماننے والے بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔

تاریخ کے بیان کے مطابق، خلافت کے معاملہ میں ،نظریاتی طور پر اختلاف تو حضور ﷺ کی وفات کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا، لیکن اس کی عملی شکل، شہادتِ عثمان(رض)، جنگِ جمل اور جنگِ صفین، کی صورت میں ظاہر ہوئی، اور آخر کار یہ اختلاف”واقعہءکربلا” پر متنج ہوا اور اس کے بعد، خلافت، ملوکیت میں، تبدیل ہوگئی، جسے فتوحات کے بڑھتے ہوئے سلسلے کی وجہ سے،کچھ عرصہ تک تو لوگوں نے برداشت کیا، لیکن اندر ہی اندر،عباسیوں، اہل بیت کے حامیوں،یہودیوں اور ایرانیوں کی خفیہ سازشوں نے ایک سو سال کے اندر اموی حکومت کا خاتمہ کردیا۔

اموی دورِ حکومت میں اہلِ بیت کے حامیوں پربڑا تشدد کیا گیا تھا، لیکن اموی حکومت کے خاتمے کے بعد، جب عنانِ اقتدار، بنو عباس کے پاس آئی تو وہ اہلِ بیت کے حامیوں کےلئے اور زیادہ ظالم ثابت ہوئے، کیونکہ اہلِ بیت کے حامی ،بنو امیہ کے خلاف ، بنو عباس کی سازشوں میں شریک تھے، اس لئے بنو عباس کو اہلِ بیت کے حامیوں کی چالوں اور ان کے خفیہ ٹھکانوں کا اچھی طرح علم تھا۔
عباسیوں کی حکومت،بنی امیہ کی نسبت زیادہ سخت گیر تھی، اس لئے بنو عباس کو اپنے دشمنوں، کے خلاف ایرانیوں کا سہارا لینا پڑا،،بالکل ویسے ہی جیسے ہندوستان میں افغان عناصر کے خوف سے اکبر اعظم کو راجپوتوں کا سہارا لینا پڑا تھا۔

چنانچہ ایرانیوں کو اقتدار میں شامل کرنا ضروری ہوگیا۔ جب ایرانی خلافتِ عباسیہ کے کرتا دھرتا بنے تو ایرانی تصورات بھی اسلام میں شامل ہونے لگے، جو عربوں کی سادہ صحرائی زندگی کے اسلوب پر ۔۔۔۔ تہذیب و تمدن کی قبا اوڑھ کر چھاگئے اور اس طرح صاف اور سادہ قرانی تعلیمات پر ایرانی اور دوسرے مروجہ افکار کا ملمع چڑھ گیا۔(جاری ھے)

تبصرے بند ہیں۔