مذہب زرتشتیت: ایک تعارف (قسط 3)

ندرت کار

یہ ایک امر واقعہ ہے ،جس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ ساتویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے اپنے گردو نواح کے ممالک کو فتح کیا، تو وحی کی تعلیم اور رفعتِ کردار کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور متاع نہ تھی، ان کے پاس علومِ طبعی تھے نہ علومِ عمرانی۔،وہ اپنے ملک میں نہ کوئی سیاسی ادارے رکھتے تھے اور نہ ہی ان میں اجتماعی تنظیم کا کوئی خاطر خواہ بندوبست تھا،  سادہ قبائلی زندگی میں انہیں کبھی ایسی چیزوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوئی،وہ صحراۓ عرب کے ریگزاروں میں بسےپشت ہا پشت سے نہایت سادہ زندگی گزار رہے تھے، ان کے پاس نہ تہذیب تھی نہ تمدن،نہ علوم و فنون پر دسترس حاصل تھی، اور نہ ہی انہیں فلسفہ اور حکمت میں کچھ درک حاصل تھا۔

اس لحاظ سے وہ اپنی مفتوحہ اقوام سے بہت پسماندہ تھے، عربوں کی حاکمانہ حیثیت کی وجہ سے، عربی زبان اور دینِ اسلام، کوتو مفتوحہ علاقوں میں فروغ ہوا،لیکن باقی ہر میدان میں اسے مفتوحہ اقوام کے سامنے نیچا دیکھنا پڑا۔

اس لیئے مفتوحہ اقوام ،عربوں کی زبان اور ان کے دین یعنی اسلام، پر بُری طرح اثر انداز ہوئیں، جنگوں میں جو لوگ ان کے ہاتھوں گرفتار ہوکر غلام اور لونڈیاں بن کر آئے، وہ ان عربوں سے زیادہ متمدن، مہذب اور علوم و فنون کے ماہر تھے۔

چونکہ اسلام نے غلاموں سے حسنِ سلوک کی تعلیم دی ہے، اس لیئے غیر عرب غلاموں اور عربوں کو ایک دوسرے میں مدغم ہونے میں، کوئی دقت محسوس نہ ہوئی، اور عربوں اور غیر عربوں کا اختلاط و امتزاج، نہایت شدید طریقہ پر ہوا، اور گرفتار شدہ لونڈیاں اور غلام، بہت جلد اسلامی معاشرے کا حصہ بن گئے۔

اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ، تابعین اور تبع تابعین، میں جن لوگوں نے اسلامی تہذیب کو فروغ دیا، اور مختلف علوم و فنون کی ترویج کے علاوہ تفسیر او حدیث کے ذریعہ، مشعلِ ہدایت کے نور کو دور دور تک پھیلانے کی کوشش کی۔ وہ انہی غلاموں اور لونڈیوں کی اولاد تھے۔

مفتوحہ اقوام کے غیر عرب لوگوں کی بہت بڑی تعداد اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر بڑی نیک نیتی سے، اس لیئے مسلمان ہوئی کہ انہیں اسلام کی سادگی بہت پسند آئی،بہت سے ایسے بھی تھے جو صرف جزیہ سے بچنے کےلیئے مسلمان ہوئے،ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو اس ذلت سے بچنے کےلیئے مسلمان ہوئے جو ایک ذمی حاکم، کے مقابلہ میں محسوس کرتا تھا، ان کے ساتھ، ساتھ، انہی لوگوں میں ان کے علاوہ،ایسے افراد بھی شامل تھے جو منافقانہ طور پر مسلمان ہوئے. چونکہ مسلمان بلا تفریقِ رنگ ونسل، بلا امتیاز، نسب و خون اور زبان، ہر ایک مسلمان کو بھائی سمجھتے تھے۔ اس لیئے ان کے برادرانہ سلوک کی وجہ سے بھی عربوں اور غیر عربوں میں اختلاط بڑھا،،جس کی وجہ سے مکہ اور مدینہ،بین الاقوامی شہر بن گئے۔جہاں عراقی، ایرانی، رومی، شامی، اور مصری،سبھی قسم کے لوگ ،آ آ کر آباد ہوۓ۔

بہت سے عرب مفتوحہ علاقوں میں جاکر بھی آباد ہوئے، کوفہ کی نصف آبادی سے زیادہ، آزاد کردہ غلاموں کی تھی، جن میں بیشتر ایرانیوں کے علاوہ، نصرانی یہودی اور سریانی لوگ تھے، بصرہ اور شام کا بھی یہی حال تھا، جہاں عرب اور غیر عرب، آپس میں غلط ملط ہوگئے، ان لوگوں نے کسبِ معاش کیلیے مختلف پیشے اختیار کر رکھے تھے،اور اس طرح،تجارتی لین دین کی وجہ سے بھی ان کا میل جول بڑھا، غرضیکہ، عراق، شام ،مصر ایران اور پورے جزیرہ نمائے عرب کا یہ حال ہوگیا۔
حجاج اور زائرین کا مکہ اور مدینہ میں ہر وقت تانتا بندھا رہتا،۔۔۔۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ، عرب، عرب نہ رہے۔

اس قسم کے شدید اختلاط کی وجہ سے،منافقین کو اسلام کے خلاف سازشیں کرنے اور نقب لگانے کا موقع مل گیا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت، اسی قسم کی، ایک سازش کے نتیجہ میں عمل میں آئی،جنہیں ایک ایرانی غلام،،ابو لولو، نے شہید کردیا۔

جنگِ جلولا میں گرفتار ہونے والے، مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد جب مدینہ پہنچی تھی تو، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، دیکھ کر کہا تھا: خدایا،میں ان قیدی عورتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

آخر یہی عورتیں عربوں سے شادیاں کرکے مدینہ میں آباد ہوگئیں، اور اس طرح،مدینہ میں سازشوں کے وہ تانے بانے بنے گئے،جن کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا۔جنگِ جمل اور جنگِ صفین میں ایک دوسرے کے خلاف جو صف آرائی ہوئی، انہی ایرانی عورتوں کی اولاد تھی۔ اس قسم کے اختلاط کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ عربوں اور غیر عربوں، دونوں کی عادت و خصائل، ایک جیسے ہوگئے، اور ان کی زندگی کا رنگ ڈھنگ بھی یکساں ہوگیا۔

لیکن، ابتدا میں تو ہر ایک کا اپنا تمدن تھا، اپنی تہذیب تھی، ان کے اپنے اپنے علوم و فنون تھے اور ہر ایک کا اپنا انداِ فکر تھا،۔۔۔۔۔۔ جب فتوحات کے ہنگامے ختم ہونے کے بعدامن و سکون کا زمانہ آیا، تو غیر عربوں نے اپنے تمام تصوراتِ حیات، عقائد، اور مناہجِ زندگی کو اسلام پر منطبق کرنا شروع کردیا(جن کے تحت وہ وہ پشتہا پشت سے زندگی بسر کرتے چلے آۓ تھے)۔

اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآنی تعلیمات اور تصوراتِ حیات بھی ان سے بچ نہ سکے، ہندوستان میں جو لوگ ہندو سے مسلمان ہوئے،ان کا طرزِ زندگی دیکھ کر اکثر کہا جاتا تھا کہ۔ رام جاتے جاتے،جاتا ہے، اور رحیم، آتے آتے، آتا ہے۔

یھی کچھ ان عراقی، شامی، ایرانی رومی نصرانی اور یہودی لوگوں کے ساتھ بھی ہوا۔جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔

یہ سمجھ لینا کہ غیر عرب اقوام کے افراد نے مسلمان ہوتے ہی قرانی تعلیمات کو اسی طرح سمجھ لیا ہوگا، جس طرح صحابہء رسول، رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا تھا،اور وہ، ان کی تعلیمات کے مقصد اور مدعا تک پہنچ گئے ہونگے۔ خوش فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے، کیونکہ علم النفس، اس بات کی تردید کرتا ہے:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں

ایرانی ذہن میں آہور مزدا اور اہرمن کا جو تصور تھا، وہ یقیناً نصرانیوں کے ،اقنومِ ثلاثہِ ،سے مختلف تھا، رومی ، نصرانی اور مصری نصرانی کا اقنومِ ثلاثہ، کا تصور ایک دوسرے سے جدا تھا۔ غیر عرب، قوموں کے خدا تعالیٰ کے متعلق تصورات، اس تصورات سے قطعاً جُدا تھے، جو قران نے دیا تھا، وہاں تو یہ حال تھا کہ، لوگ معمولی سے معمولی احکام کو سمجھنے میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے۔

فتوح الشام میں مذکور ہے کہ ملک شام میں، ایک شخص نے دوسرے شخص سے معاہدہ کررکھا تھا کہ، وہ دن بھر اس کی بکریاں چرایا کرےگا، تو اس کے معاوضہ میں وہ اپنی بیوی کو رات بسر کرنے کےلئے اس کے پاس بھیج دیا کرے گا،جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو،ان دونوں کو بلا کر باز پُرس کی، اس کے جواب میں انہوں نے بیان کیا کہ ان کو تو اس بات کا علم ہی نہیں، ایسا کرنا، فعلِ حرام ہے۔

اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ،جب وہ اتنی سی موٹی سی بات بھی نہی سمجھ سکتے تھے تو، قرانِ کریم کے بسیط حقائق، مثلاً، جنت، دوزخ، آخرت، شیطان، ابلیس، ملائکہ۔ قیامت، اوزِ حشر اور آخرت کی زندگی کی کیفیات کو بھلا وہ کیا سمجھتے ہونگے۔

یہی وجہ تھی کہ،ان حقائق کے متعلق،مفتوحہ قوموں کے تصورات ایک دوسرے سے بالکل جدا تھے اور آج بھی ہیں،یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ غیر عرب لوگوں کا ایمان، ان لوگوں کے ایمان جیسا ھوگا،جنھوں نے "بدر” کا معرکہ سر کیا تھا،یا جنہوں نے ایران اور روما کی شہنشاہیت کے تختے اُلٹ دئے تھے۔

یہ فرض کرلینا کہ نو مسلم،غیر عربوں نے قرانی اصطلاحات کو اسی طرح سمجھا تھا، جس طرح صدرِ اول کے مسلمانوں نے سمجھا تھا۔۔۔۔ انسانی فطرت سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ خود قران اس بات کی شہادت دے رہا ہےکہ وہ ،اعراب، اور بدو جن کی مادری زبان عربی تھی، وہ بھی قرانی حکمت و موعظت کی کنہ کو سمجھ نہیں پاۓ تھے،

"الاعراب اشد کفرا و نفاقا و اجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللہ رسولہ”، 9/97

یہ بادیہ نشیں لوگ کفر اور نفاق میں سخت ہوتے ہیں، اور زیادہ تر اس قابل ہوتے ہیں کہ احکام اور اوامر،کی حدود کو نہ جان سکیں، جو خدا نے اپنے رسول پر نازل کئے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کا یہ فرمان ان لوگوں کے متعلق ہے، جن کی زبان میں قران کریم نازل ہوا تھاتو بہ دیگراں چہ رسد ؟

ہم یہ کبھی بآور ہی نہیں کرسکتے کہ غیر عرب نو مسلموں نے کلمہ پڑھتے ہی قرانی تعلیمات کو بعیـــــــــــنہ اسی طرح سمجھ لیا ہوگا، جیسا قران سمجھانا چاہتا ہے۔ بلکہ یہاں تو یہ حالت ہے کہ قران کریم کے لفظ” الصلوۃ” کو ایرانیوں نے وہی نام دیا جو وہ آتش پرستی کے دور میں، اپنے طریقہء عبادت کو دیتے تھے، یعنی  نماز اور قرانی صلوۃ کو درود و سلام کا نام دے کر ،ورد، و وظائف کرنا شروع کردئے، حالانکہ، درود کا لفظ، قرانی ہے نہ عربی۔

تبصرے بند ہیں۔