مرحوم حکیم ایوب اور اقامت دین کی راہ

ڈاکٹر صباح الدین اعظمی
گزشتہ صدی کے نصف آخر کی شروعات …..! اباکی عمریہی کوئی تیس سال کے آس پاس۔  بڑی ہی مستعدی اور جانفشانی سے اپنے طبّی تجربات میں مشغول تھے۔  جوانی کے ایام، نیاجوش، نیا ولولہ،بے فکری کے دن،سماجی سرگرمیاں،دوست احباب کی مجلسیں! یافت بھی اچھی تھی۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ لیکن دفعتاً سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
قریبی گاؤں کے ایک سادہ سے بزرگ ایک جھولے میں تحریک اسلامی کا لٹریچر لئے سائیکل پر نکلتے۔ کچی سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جاتے اور اپنی انتھک محنت سے خلق خدا کو دین کا پیغام پہنچانے کی سعی کرتے۔ جنید باباؒ کے نام سے معروف یہ بزرگ شاید اس علاقے کے لئے خضر راہ تھے۔ ابا کسی کام سے جارہے تھے۔  راستے میں یہ مل گئے۔ کیا باتیں ہوئیں، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو تحریک اسلامی کے کسی داعی سے پہلی مرتبہ ملتا ہے۔  کتنا متاثر ہوئے، کہنا مشکل ہے۔  لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس نیک روح نے ان کے دل و دماغ میں فکر مودودی کی جوت جگادی تھی۔  ابا کو انہوں نے تحریک کا کوئی بنیادی لٹریچردیا۔ گمان ہے کہ ’شہادت حق‘ ہو گا کہ تحریک کے سپاہی ان ایام میں مخاطب کو فکر مودودی کا اسیر کرنے کے لئے یہی کاری وار استعمال کرتے تھے۔ وہ فوراً تو قافلۂ حق میں نہیں شامل ہو ئے لیکن جنید بابا کا وار کاری ثابت ہوا۔  زندگی کے معمولات بدلنے لگے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد چند احباب کے ہم راہ سائیکل سے شہر اعظم گڑھ کسی پروگرام کے تحت جانا ہوا۔ شہر پہنچ کر ساتھیوں سے کہا آپ لوگ چلئے مجھے کہیں اور جانا ہے۔  ان کے لئے یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ لیکن انداز کچھ ایسا تھا کہ کسی نے پوچھنے کی جرأت نہ کی کہ کہاں جانا ہے؟ کیوں ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہو؟ ساتھیوں سے الگ ہوکر سائیکل آگے بڑھائی۔  موتی کارخانے کا رخ کیا۔ جہاں اس وقت جماعت اسلامی کا مکتبہ ہوتا تھا۔  تحریکی لٹریچر خریدا اور خاموشی سے واپس چلے آئے۔  کہتے ہیں واپسی پر کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ کہاں گئے تھے۔ سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب راہیں جدا ہو گئی ہیں۔ اب جسے ساتھ رہنا ہے اسے اقامت دین کی راہ پر ہی چلنا ہوگا۔ چند ساتھ ہو لئے۔  چندنے ہمت نہ کی۔  واقفیت سب سے رہی۔ کسی سے قطع تعلق نہیں کیا۔ لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ گزشتہ صدی کا وہ نام، جس کی تفہیم دین نے دور حاضر میں مسلم اذہان کوسب سے زیادہ متاثر کیا۔ اسلام کا فکری و علمی احیاء یا تجدید و احیائے دین ان کے اہم کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔  سید مودودیؒ نے اسلام کی دعوت کو عصری اسلوب میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام کی ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے تشریح کی۔  اشراکیت، سامراجیت،مادیت کے خلاف بھر پور علمی جہاد کیا۔ فتنۂ انکار حدیث اور قادنیت کی بیخ کنی کی۔  کروڑوں نوجوانوں کو مغربی افکار و تہذیب کی مر عوبیت سے نکال کراسلامی فکر کی راہ پر گامزن کیا۔
ابا نے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر پڑھا تو پھر انہیں کے ہو رہے۔ فکر مودودی کے کچھ ایسے اسیر ہو ئے کہ تمام زندگی اس کے اثر سے نہ نکل سکے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ تحریک اسلامی میں داخل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے تحریک کوبذریعۂ فکرمودودی دریافت کیا۔ وہ قافلۂ سخت جاں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جوتحریک کو اس لئے عزیز رکھتی تھی کیونکہ یہ فکر مودودی کی امین تھی۔
ابا کو فکر مودودی سے عشق تھا۔  انہوں نے بہت جلد ہی تحریک اسلامی کی باقاعدہ رکنیت اختیار کر لی اور پوری یکسوئی اورتوانائی سے فکر اسلامی کی ترویج میں لگ گئے۔ وہ شعلہ بیان مقرر نہ تھے۔ بلکہ وہ سرے سے مقرر ہی نہیں تھے۔ لیکن ان کے اندرایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کبھی وسائل اور صلاحیت کی کمی کا گلہ نہیں کرتے تھے۔ میسر وسائل اور موجود صلاحیت کا بھر پور استعمال ہی ان کا شیوہ تھا۔ یہاں بھی یہی سلیقہ ان کے کام آیا۔  انہوں نے اپنے انداز میں تحریک کی دعوت کا کام شروع کیا۔ لکھتے ہیں۔
’’مجھے اپنے علمی افلاس کا پورا احساس ہے۔ مگر میں تحریک اسلامی کے ابتدائی دور میں بھی اپنی کم علمی کے باوجوداسلام کا پیغام عام کرنے کے لئے مسجدوں اور مسجدوں کے باہربیٹھکوں میں کتابیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔  اور جب بلریا گنج تحریک اسلامی کے لئے جانا پہچانا جانے لگا تو تحریک کو ختم کرنے کے لئے علماء نے ایک طرح کی یورش کر دی۔ اور تحریک کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے اپنی تقریروں میں کرنے لگے۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات یا پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کومیں کتاب ہی سنا سنا کر دور کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ‘‘
فکراسلامی کی ترویج کے لئے ان کے نزدیک سب سے موثر ذریعہ تحریکی لٹریچر تھا۔  وہ خود پابندی سے تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرتے اوردیگر رفقاء کو بھی مطالعہ کی ہدایت کرتے۔  گاؤں کے اندر انہوں نے اپنے ذاتی وسائل سے ایک شاندار لائبریری قائم کی تھی۔  مرکزی مکتبہ سے کثیرتعداد میں ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں تحریک کے بنیادی لٹریچر منگوا کر تقسیم کرواتے۔  مطب میں جہاں مریض دیکھتے تھے ایک لکڑی کی الماری میں دعوتی پمفلٹ قرینے سے رکھے رہتے تھے۔ مریض اپنی باری کے انتظار کے دوران ان کا مطالعہ کرتے ۔  سفر کے دوران تحریک کا لٹریچر ساتھ رہتا جسے ریل گاڑی میں آس پاس کے مسافروں کو بلا تأمل پڑھنے کے لئے دے دیتے ۔ آنے والے مہمانوں کو ترجمۂ قرآن کریم اور تحریک کے بنیادی لٹریچرکا ہدیہ دینا ان کی روایت تھی۔  ہمیشہ کوشش رہی کہ ان کی اپنی اولاد،اعزہ و اقارب فکر مودودی سے نا آشنا نہ رہیں۔  تمام بیٹے، بیٹیوں اور ان کی اولاد کی شادیوں کے موقع پر تفہیم القرآن کا سیٹ تحفہ میں دیا۔  کسی بھی جاننے والے کے یہاں سے شادی کا دعوت نامہ آتا تو ہدیہ میں تلخیص تفہیم القرآن کا نسخہ بھیجتے۔ مولانامودویؒ کا ترجمۂ قرآن کریم معہ مختصر حواشی جب پہلی مرتبہ طبع ہو کر آیا تو اس کا نہایت دیدہ زیب ڈیلکس ایڈیشن منگوا کر تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو ہدیہ کیا۔
تحریک اسلامی سے وابستگی کے بعد وہ فنا فی التحریک تھے۔  انہوں نے تحریک کو ٹوٹ کر چاہا تھا۔  تحریکیں قربانی مانگتی ہیں۔ وقت کی،آرام و سکون کی، توانائیوں کی، صلاحیتوں کی، وسائل کی اور سب سے بڑھ کر مزاج کی۔ کامیابی اس وقت ملتی ہے جب قول و عمل ایک ہو جاتا ہے۔  گھر تحریک بن جاتا ہے۔ تحریکی رشتے سب رشتوں سے زیادہ عزیز ہو جاتے ہیں۔ تحریکی نصب العین زندگی کاسب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے۔  انہوں نے تحریک اسلامی کو کچھ ایسے ہی برتا تھا۔  ایسے ہی سمجھا تھا۔
ایک نمایاں سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے ابا کو بلریاگنج میں تحریک کاکام شروع کرنے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی۔ مخالفت کا تو سوال ہی نہیں تھا ۔  کچھ فکر مودودی کی کشش ،کچھ ان کا قائدانہ کردار، چراغ سے چراغ جلتا گیا۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتاگیا۔  یہ اس علاقے میں تحریک اسلامی کے پنپنے کے دن تھے۔ کارکنان میں ایک نیا جوش اور ولولہ تھا۔  جگہ جگہ اجتماعات ہوتے ۔  ذمہ داران کی آمد ہوتی ۔  آنے والے قائدین میں مولانا حبیب اللہ ملک قاسمیؒ ،سید حامد حسینؒ ، سید حامد علیؒ صاحبان جیسے بزرگ شامل تھے۔ ان نیک نفوس کی انتھک محنت اور خلوص نیت کے نتیجے میں بہت ہی قلیل مدت میں بلریاگنج اور اس کے اطراف کے مواضعات میں تحریک اسلامی کا پودا ایک تناور شجرکی صورت اختیار کر گیا۔  ابا نے بڑی ہی جانفشانی سے اس شجر کی باریابی کی ۔
یہ بتانے والے بزرگ قائدین تو خلد آشیانی ہوئے کہ اس غیر معروف قریہ میں کیا کشش تھی کہ پورے ضلع اعظم گڑھ میںیہ تحریک اسلامی کی توجہ کا خاص مرکز تھا۔  لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلریاگنج تحریک کواتنا راس آیاکہ بہت جلد ہی یہ نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں اس کی پہچان بن گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب تحریک اسلامی کی رہنمائی اور تعاون سے اہالیان قریہ نے قدیم مقامی مکتب کو ایک دینی درسگاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹا سا مکتب ایک عظیم الشان دانش گاہ جامعۃالفلاح میں تبدیل ہو گیا۔
جامعہ کی تاسیس میں ابا کا کیا کردارتھا؟اس کی تعمیر وترقی میں ان کا کیا تعاون رہا؟ اس کے طلبہ اور اساتذہ سے ان کے تعلقات کی کیا نوعیت تھی؟ ہم یہ تجزیے اوروں کے لئے چھوڑتے ہیں۔ ہمارے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ جامعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے اوران کی اس سے کیا توقعات وابستہ تھیں؟ اباکی گفتگو،ان کے خطوط ، ان کی تحریریں گواہ ہیں کہ ان کے لئے جامعہ کے درو دیوار سے زیادہ اہم وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جامعہ بحیثیت ایک ادارہ ان کو محبوب تو تھا لیکن اسے اپنا وقت ،صلاحیتیں اور توانائیاں دیتے وقت ان کے سامنے وہ اعلیٰ نصب العین ہوتے تھے جو تحریک اسلامی میں شامل ہوتے وقت انہوں نے اپنے سامنے رکھے تھے۔ جامعہ کا قیام ان کے نزدیک تحریک اسلامی کے نصب العین کے حصول کا ایک ذریعہ تھا نہ کہ مقصد۔  جامعہ اور اس کے متعلق اداروں سے ان کی دلچسپی کا محور بس یہی پیمانہ تھا۔ وہ ایک طویل عرصے تک جامعہ کی مجلس انتظامیہ اور عاملہ کے ممبر رہے۔ لیکن ان کے پاس کبھی بھی کوئی عہدہ نہیں رہا۔  انتظامی امور میں ان کی کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں تھی ۔ لیکن اسے ان کا بھرپور تعاون ہمیشہ حاصل رہا۔
آئیے جامعۃ الفلاح سے ذرا ہٹ کر بلریاگنج میں تحریک کی سرگرمیوں کا ایک جائزہ لیں۔  ماضی کے دھندلکے سے یادوں کے جگنو چمکتے ہیں۔

* * *

اباکاپراناکھپریل مکان ……! بڑے سے آنگن میں فرش بچھا ہوا ہے۔ ایک کنارے تخت پر ایک پر وقارخاتون بیٹھی درس دے رہی ہیں۔ یہ تحریک اسلامی کی مشہور شخصیت بیگم قیصر نیازی ہیں۔  کان پور سے آئی ہیں۔ پورے گاؤں سے خواتین جمع ہیں۔ سب ہمہ تن گوش……!

* * *

مغرب بعد کا وقت ہے۔ گھر کے باہر صحن میں کوئی پروگرام ہونے والا ہے ۔ کافی لوگ جمع ہیں۔ نیم کے درخت کے نیچے دور تک فرش بچھا ہے۔ لاؤڈاسپیکرپراعلان ہورہاہے۔  گیس کے ہنڈے جل رہے ہیں۔ بلریاگنج کی خوش قسمتی کہ معروف عالم دین مولانا جلیل احسن ندوی ؒ جامعۃ الفلاح میں استاد ہیں۔ آج ان کا درس ہونے والا ہے۔  مولاناچلنے سے معذور ہیں۔ جامعہ کے ایک استاد مولانا کو سائیکل پر لے کر آتے ہیں۔  مولانا کا درس جاری ہے ۔  سیکڑوں کا مجمع خاموشی سے سن رہا ہے۔

* * *

تحریک کے مرکزی قائدین تشریف لائے ہیں۔ مولانا عبد العزیز صاحبؒ کی تقریر کے بہت چرچے ہیں۔ بعد نماز مغرب مطب کے صحن میں خطاب عام کا پروگرام ہے ۔  اطراف کے مواضعات سے کثیر تعداد میں لوگ سننے کے لئے چلے آرہے ہیں۔ وسیع صحن تنگ پڑ جاتا ہے۔  اسٹیج کے پیچھے بڑا سا بینر لگا ہے۔ ایک خدا،ایک انسان،ایک قرآن، ایک نظام۔

* * *

سید حامد حسین صاحبؒ کا خطاب….!بازار کی مسجد کے سامنے مڈل اسکول کا میدان۔  سید صاحب کا دلکش انداز بیان ….!تقریر کے دوران رفتہ رفتہ شیروانی کا بٹن کھولتے ہیں۔  دیہی پس منظر میں اردو تقریر کے دوران بیچ بیچ میں انگریزی الفاظ کا استعمال۔ مجمع مسحور ہوکر سنتا ہے ۔

* * *

ناظم ڈویژن مولانا شبیرصدیقی صاحبؒ کا دورہ ہے۔ گاؤں کی مسجد میںآ ج جمعہ کا خطبہ دیں گے۔  اتناموثر، دل کو چھو لینے والا انداز۔ شاید ہی مسجد میں کوئی ہو جس کی آنکھیں نم نہ ہوں۔

* * *

ابا کا نیا مہمان خانہ۔  تاریخی بیٹھک جوبلریاگنج میں تحریک اسلامی کے ارتقاء کی گواہ تھی ، اب قابل استعمال نہیں رہی۔ عشاء بعد کا وقت۔ تحریکی کارکنان جمع ہیں۔ درمیان میں ایک میزپرسونی کمپنی کا بنا ٹیپ ریکارڈر۔  ایک کنارے اسٹول پرچائے کی بڑی سی کیتلی….. عجب سا ولولہ ہے۔ مولانا مودودیؒ کی ایک تقریر ’جماعت اسلامی کے انتیس سال ‘ کا کیسٹ آیا ہے۔ قائد سے عقیدت ہے ۔  سننے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں۔

* * *

چاند رات …..ابھی کچھ دیر پہلے رؤیت کی تصدیق ہوئی ہے۔ حاجی امانت صاحبؒ کی بیٹھک …….ابا چند رفقا ء کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ارکان جماعت ہی کے لڑکے بھی آئے ہوئے ہیں۔ کوئی غیر متعلق نہیں۔ آٹااورچاول کی بوریاں سلیقے سے رکھی ہیں۔ صدقۂ فطر کی تقسیم ہونی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے حکم کی تعمیل ہے۔ خبردار عید کے دن کوئی بھوکا نہ رہ جائے۔  معزز گھروں کے یہ لڑکے رات کے اندھیرے میں سروں پر ٹوکریوں میں راشن کے پیکٹ لئے آہستہ سے ضرورت مندوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں ۔ ہدایت ہے کہ بات راز کی ہے پڑوسی کو بھی پتہ نہ چلے۔ عزت نفس کا سوال ہے۔ احترام ضروری ہے۔

***

ابا کا تحریکی سفرحسب معمول جاری تھا۔ باقاعدگی سے اجتماعات میں شرکت کرتے۔  حلقہ کی شور یٰ کے اجلاس میں جاتے۔ دعوتی سرگرمیوں میں مشغول رہتے کہ اچانک ایک تاریخی لمحہ آیا ……. یہ 1985ء کی بات ہے۔  جماعت کی مرکز ی مجلس شوریٰ نے ایک فیصلے کے تحت ارکان جماعت کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر عائد پابندی ہٹالی اور ان کواس بات کی اجازت دے دی کہ وہ ملکی انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرسکتے ہیں۔  ارکان کی ایک بڑی تعداد نے اس تنظیمی فیصلے کے خلاف عدم اطمئنان کا اظہار کیا۔  یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ آیا یہ فیصلہ درست تھا یاغلط؟ یہ جماعت کاایک اندرونی معاملہ تھا، جس پریہاں ہم بحث کرنے کے مجاز نہیں۔ بات ہے ابا کے موقف کی، وہ ارکان کے اس گروہ میں شامل تھے جو نہایت نیک نیتی سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ فیصلہ جماعت اسلامی ہند کی بنیادی فکر سے متصادم ہے۔  نیز انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ہم سیاسی لیڈروں کے حاشیہ بردار بن جائیں گے اور جماعت دینی تحریک کے بجائے ایک ملی جماعت بن جائے گی۔
اس غیر مطمئن گروہ میں کون کون سے قائدین شامل تھے؟ انہوں نے کن ذرائع سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا؟ وہ کون تھے جنھوں نے جذبات میں آکر جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی؟افہام وتفہیم کی کتنی کوششیں ہوئیں؟ کتنے سخت خطوط کا تبادلہ ہوا؟ مرکز نے کیا تادیبی کاروائیاں کیں؟ان باتوں کے ذکر کا یہ محل نہیں۔ ذکر ہے اباکے رویے کا۔  جہاں تک مجھے یاد ہے اس فیصلے کے خلاف ان کے جذبات بہت شدید تھے۔  انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار ہر فورم پر کیا۔ مرکزی قائدین کو سخت خطوط لکھے۔ اجتماعات میں سخت موقف اپنایا۔ ارکان کے اجلاس میں کھل کر فیصلے کی مخالفت کی۔  لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تأمل نہیں ہے کہ ان کا سخت موقف نظم جماعت کے اندر رہ کر تھا۔  انہوں نے قائدین کا احترام بہر صورت ملحوظ خاطر رکھا۔ نظم جماعت کے باہر زندگی کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیاتھا۔ ان کے متعلق جب اس طرح کی باتیں منسوب کی گئیں تو انہیں بہت تکلیف پہنچی۔  ایک اعلیٰ مرکزی ذمہ دار کو بڑے ہی درد بھرے لہجے میں لکھا۔
’’ان شاء اللہ آپ ہم کو ہر حال میں صابر پائیں گے۔ ہم جماعت کی نچلی سیڑھی پر بھی بیٹھ کر ان شاء اللہ اسی طرح جماعت کی خدمت کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو جماعت سے اپنی بات کو منوانے کے لئے بار بارجماعت سے باہر نکلنے کی دھمکی دیں۔  استعفے پیش کریں اور شدت جذبات میں آکر باہر نکل جائیں۔ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ بے جماعتی کی زندگی گزاریں۔‘‘

جماعت کے اندر جینے اور جماعت ہی کے اندر مرنے کا آرزومند
حکیم محمد ایوب

اس بات کوایک مدت بیت گئی۔ رفتہ رفتہ نظم جماعت،شوریٰ کا فیصلہ ،اطاعت امیر جیسے بھاری تنظیمی دباؤ میںآکر اختلافی لہجے سردہوتے گئے۔ لگتا تھا ابا مطمئن تو نہیں ہوئے ہیں لیکن نظم جماعت کے پیش نظرفیصلے کو قبول کر لیا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ وہ جماعت سے کچھ ناراض سے ہیں ۔ اسی دوران ارکان جماعت کے کل ہند اجتماع کااعلان ہوا۔  ایک دن ڈاک سے ان کے نام ایک خط آیا۔
مکرمی و محترمی حکیم محمد ایوب صاحب!   السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔ اللہ تعالی رحمت و عافیت اور مزید توانائی سے نوازے۔
اس اجتماع ارکان 1997ء کے میدان اور آڈیٹوریم اور قیام گاہوں کے انتظامات کے دوران آپ اور مولانا صدرالدین صاحب یاد آتے رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو اس میں شرکت کا موقع عطا فرمائے ۔ میں نے بطور خاص آپ جیسے چند بزرگوں کے لئے الگ سے دو تین ویسٹرن اسٹائل بیت الخلاء کا انتظام بھی کیا ہے اور آپ کاقیام آڈیٹوریم سے قریب پختہ بلڈنگ میں اترپردیش کے رفقاء کے ساتھ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو مشکور فرمائے۔
میری طرف سے اپنے فرزندوں اور دختراں اورگھر والوں کے علاوہ رفقاء کی خدمت میں سلام مسنون۔
عبد العزیز
ناظم اجتماع و رکن شوریٰ
خط ملتے ہی ابانے اجتماع میں شرکت کا پروگرام بنا لیا۔ سب نے لاکھ سمجھایا موسم سخت ہے۔ چلنے پھرنے میں بھی دقت ہو گی۔ ڈائرکٹ فلائٹ نہیں ہے۔ ٹرین کا سفر لمبا ہے۔  لیکن پرانے ساتھیوں سے ملنے کا موقع ہاتھ آرہا تھا۔

امیر جمع ہیں احباب حال دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے

میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کے مقالے کی آخری تیاریوں میں مشغول تھا۔ ابا کا پیغام آیا۔ حیدرآباد جانا ہے۔ میں پہلی گاڑی سے گھر روانہ ہوگیا۔  بلریاگنج سے بنارس بذریعۂ کار، بنارس سے سکندرآباد ریل گاڑی کا طویل سفر۔  وہاں سے وادئ ہدیٰ حیدرآباد۔ ابا ہشاش بشاش۔ بہت دنوں کے بعد اتنا خوش نظر آرہے ہیں۔  ان کو چلنے میں دقت ہے، قیام گاہ میں ناظم اجتماع مولانا عبدالعزیز صاحبؒ ملنے آتے ہیں۔  امیرجماعت مولاناسراج الحسن صاحب، ڈاکٹرفضل الرحمن فریدی صاحبؒ ، مولانا شفیع مونس صاحبؒ ،جناب حسنین سید صاحبؒ ،مولانا عبدالرؤف صاحب ؒ اور نہ جانے کتنے بزرگ قائدین ۔ ایک جشن کا ساسماں۔ جیسے کسی تقریب میں آئے ہیں۔ دل کھول کر باتیں ہو رہی ہیں ……..میرے خدا!   ……. وہ اختلافات، وہ تند و تیزباتیں، سخت الفاظ میں خطوط۔  سب کیا تھا؟ ……………شاید ہم ہی نہ سمجھ سکے…………سب ایک ہی راہ کے مسافر تھے۔ نہ جانے کہاں چلے گئے……..!

 (مندرجہ بالا تحریر تذکرہ حکیم محمد ایوب سے اقتباس ہے۔)

تبصرے بند ہیں۔