مرزا  اطہر ضیا: آواز اہل دل

محمد شاہد خان

عہد قدیم کی طرح عہد جدید میں بھی اچھی اور بری دونوں طرح کی شاعری موجودہے،ادب کا ہر قاری اپنے ذوق اور پسند کے مطابق کلام منتخب کرتا ہےاور اسے پسند کرتا ہے، اچھی شاعری میں چونکا دینے والی کیفیت ہوتی ہے، جو دل ودماغ  کو اپنا گرویدہ بنا لے،  جس میں گھسی پٹی تعبیرات کے بجائے نئی تعبیرات کا استعمال ہو، شعری تراکیب میں ایسا صوتی تناغم ہوکہ چرند پرند بھی جھوم اٹھیں، خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ حسنِ الفاظ کاایسا انتخاب ہو کہ لفظ لفظ چمک اُٹھے، اس میں شہد کی سی شیرینی ہو، ظلم وناآنصافی کے خلاف ایسی آواز ہو کہ فراعنہ وقت کی نیدیں اڑجائیں ، مظلوموں کی ایسی داد رسی ہو کہ وہ شکستہ دلوں کی پکاربن جائے، اندھیری رات میں ایسی قندیل ہو کہ بھٹکے ہوؤں کو را ستہ دکھا ئے، ایسی تلمیحات اور استعارےہو ں جن میں معانی کا ایک جہان آباد ہو،سچی شاعری دراصل اپنے عہد کی ترجمان ہوتی ہے، اس میں مستقبل کے لیے بھی روشنی ہوتی ہے، شاعر کے احساسات وجذبات اور خیالات الفاظ کا لبادہ اوڑھ کر اس کے نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں، وہیں سے ہمیں کسی شاعر کے رجحانات اور  کردار کے بارے میں  بھی پتا چلتا ہے۔

اطہر ضیا سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی لیکن ان کی شاعری جب جب  بھی میری نظر سے گزری، دل میں اترتی چلی گئی،اطہر ضیاایک ایسا  شاعر ہے جس کی شاعری پوری قوت کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، اس کا سفرِذات آپ کو اپنی زندگی کا سفرنامہ محسوس ہوگا، زندگی کے مختلف مراحل میں، زمانے کا اتار چڑھاؤ اس کی شاعری میں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے، اس کی شاعری میں مختلف موضوعات ہیں  وہ اتنا تیز رو ہے کہ اسے لامکاں سے آگے نکل جانے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے، اس لیےوہ اپنی ذات میں ٹھہرجانا چاہتا ہے، بعض تعبیرات ولفظیات با لکل نئی ہیں، نا ممکن ہے کہ اس کے اشعار  پر آپ نہ ٹھہریں، اس کا ہر شعر ایک عنوان ہے اس کی شاعری میں غم جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی ہے مثال کے طور پر محبت پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے

مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کےلیے

میں تو ہروقت محبت سے بھرا رہتا ہوں

اردو شاعری بغیر غزل کے ادھوری ہے اوراطہر ہمیں غزلیات کا بہترین شاعر دکھائی دیتا ہے مثلا  یہ شعر دیکھیے

میں تجھکو باندھ لوں اپنی غزل کے شعروں میں

خیال یار ذرا دیر میرے دھیان میں رک

بہت سی قوس قزح بن رہی ہے آنکھوں میں

اے ہفت رنگ پری میری داستان میں رک

پھر وہ سنگینی حالات کا شکوہ کرتا ہےکہ یہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، حالات اتنے سخت ہیں کہ لفظ اور معانی ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، حالات انتہائی ناگفتہ بہ  ہیں پھر ایسے میں کوئی پیار کا نغمہ کیسے چھیڑے، کوئی کلی کیوں مسکرائے، لیکن شاعر ایسے حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا ہے بلکہ مسکرانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈھ ہی لیتا ہے

سارے الفاظ معانی سے گریزاں ہوے ہیں

ہم یہ کس عالم وحشت میں غزل خواں ہوے ہیں

ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں ہنسنے کا بہانہ کوئی

زیر تجھ سے کبھی ہم گردش دوراں ہوئے ہیں ؟

ملک کے موجودہ حالات کو اگر سامنے رکھا جائے جہاں سیاست داں خوف کی نفسیات سے فائدہ اٹھاکر ہمارا استحصال کرتے ہیں اس تناظر میں یہ شعر دیکھیے

چند لوگوں کےکاروبار یہاں

تیرےاور میرے ڈر سے چلتے ہیں

اطہر ضیاکی شاعری میں افراد کی اصلاح اور کردار سازی کے پہلو بھی ہیں وہ کہتے ہیں

دیکھ لگ جائے تکبر کی نہ دیمک تجھ کو

یہ وہ کیڑا ہے جو کردار کو کھا جاتا ہے

نوجوان نسلوں کو وہ یہ سبق دیتے ہیں کہ

ہمیں پہ ختم نہیں خواب دیکھنے کا ہنر

امین اس کا نئی نسل کو بھی ہونا ہے

مصائب کے اس  دور میں، جب قوم انتہائی بے کسی کے عالم میں ہے اور کبھی کبھی بے ساختہ زبان پر یہ الفاظ آجاتے ہیں کہ اے اللہ آخر تیری  مدد کب آئے گی اور اس ظلم وجور کا خاتمہ کب ہوگا ایسے میں شاعر ہمیں روشنی دکھاتا ہے اور اس کی زبان سے یہ ا شعار ادا ہوتے ہیں

ایسے مایوس ہوکے مت بیٹھو

مل کے رستہ نکالا جائے گا

اور وہ اجتماعی شیرازہ بندی  کی دعوت دیتے ہوےکہتا ہے

جو روشنی کی تمنا ہے ساتھ چلتے رہیں

ہمیں پتاہے کہ سورج کہاں سے نکلے گا

غرض اطہر ضیاکی شاعری ہمہ جہت ہے جسے اس مختصر سے مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے، اطہر ضیاکے شعری سفر میں ان کے رجحانات کا بخوبی پتا چلتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھا انسان ہے، اس کے سینے میں ایک حساس دل ہے جو زمانے کے نشیب وفراز سے ہر لمحہ متاثر ہوتا ہے اس کے اشعار کے مطالعہ کے دوران زمانے کی بے ثباتی کا اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی ڈور کتنی کمزور ہے، کتنے  کام تھے جو ابھی ادھورے ہیں، کتنے خواب تھے جن میں ابھی رنگ بھرنا تھا، اس کا اظہار اطہر ضیا کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے اس کی شاعری پڑھتے وقت مجھے کئی بار یہ احساس ہوا کہ جیسے وہ قضا وقدر کے فیصلوں کو جانتا ہو اور کاتب تقدیر نے اس کے ہاتھ میں قلم پکڑا دیا ہو کہ وہ اپنے آنے والے کل کو خود سے رقم کرلے، اور بارہا میرا دل بھر آیا کہ کاش خدا اس جواں سال شاعر کو زندگی کے کچھ ماہ وسال اور نصیب کردیتا تو دنیا کو اس کی ذات اور شاعری سے استفادہ کا مزید موقع مل جاتا ان اشعار کو پڑھیے آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ شاعرغیبی احساس کے کس منزل پر ہے

خود کو لٹا رہا ہوں یہی سوچ کر ابھی

پھر اس کے بعد خود کو میسر نہ آؤ ں گا

اور یہ آخری شعر کہ

اب نہیں ڈھونا مجھے اور یہ زنجیر وجود

آج آزاد کیا جائے مری مٹی کو

اس نوجوان شاعر سے استفادہ کا دور ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ بیماریوں نے اسے نڈھال کردیا اور قدرت نے ہمیں ایک لاچار تماشائی بناکر چھوڑ دیا، اگر کوئی خدائی کرشمہ ہوگیا تو یقینا اردو  والوں کوایک اچھے شاعر سے محظوظ اور مستفید ہونے کا مزید موقع ملےگا۔

تبصرے بند ہیں۔