مرکزی اسمبلی انتخاب 2019

ابوالحسنات قاسمی

    یوں تو حق و باطل کے درمیان نبرد آزمائی کا سلسلہ ازل سے ہی چلا آرہا ہے مگر بیسویں صدی میں ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان فسطائی نظریات کی حامل طاقتوں و قائدین نے ایسی خلیج و تفریق پیدا کردی ہے کہ جس کو پُر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

    رفتہ رفتہ مسلمانوں میں تفریق کے ساتھ ساتھ ان کو تخریب کار اور دہشت گرد ثابت (کرنے کا پرو پیگنڈہ) کرکے ان کے تعلیمی و سیاسی وجود کو معدوم و نیست ونابود کرنے کی کوشش کی جانے لگی، یہ پروپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ ’’اسلام‘‘ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور ہر ’’مسلمان دہشت گرد نہیں مگر ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہے‘‘۔ اس پروپیگنڈہ کی تشہیر میں ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) نے بہت اہم کردار نبھایا،اور چونکہ موجودہ وقت میں اکثر ذرائع ابلاغ مغربی طاقتوں (خصوصاً صہیونیت او ر بھارت میں اس کی ہم نوا تنظیموں اور ان کے پشت پناہوں ) کے قبضہ میں ہیں بلکہ ان کے دستِ راست پر بیعت کرچکے ہیں اور صہیونیت کا مقصد ہی امنِ عالم کو غارت کرنا اور اسلام و مسلمانوں کا وجود ختم (کرنے کی سعء لاحاصل) کرنا ہے اس لئے اس نے ہندوستان کے لیڈران سے رابطہ قائم کرکے اپنے ناپاک عزائم و ارادوں کو ان کے توسط سے ہندوستان میں ترویج دینا شروع کردیا۔

     غرضیکہ اوّلاً ہندوستانی قوم (مسلمان وبرادرانِ وطن) اس کے بعد مسلمانوں میں برادری واد، ذات پرستی، فرقہ پرستی، نسل پرستی کو ہوا دینا شروع کیا۔ نتیجہ آج مسلمانوں میں ایسی تفریق و دوری پیدا ہوچکی ہے جس کو دور کرنے اور اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی ضرورت کو سبھی محسوس کررہے ہیں۔ علماء و دانشورانِ قوم نفرتوں ، تفرقوں کو ختم کرنے اوراتفاق و اتحاد قائم کرنے کی تدبیریں پیش کرنے کی سعء پیہم کررہے ہیں مگر کوئی حتمی لائحۂ عمل اور اتحاد کی شکل نظر نہیں آرہی ہے۔

     موجودہ حالات میں بھی اگر مسلمانوں میں اتفاق واتحاد پیدا نہ ہوسکا (مسلمان اگر اب بھی نہ جاگے) اور 2019 ء اسمبلی انتخاب کا دَور یوں ہی لاپرواہی میں گذرگیا تو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ دیگر اقلیتوں کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوجائیں گی (چونکہ ملک کی دیگر اقلیتوں کا تحفظ بھی مسلمانوں کے اتحاد میں مضمر ہے)اس لئے مسلمانوں سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ اس انتخاب میں یہ نہ دیکھیں کہ فلاں پارٹی کے فلاں امیدوار کے میدان میں آنے سے فلاں پارٹی کا فائدہ ہوگا اور فلاں کا نقصان۔ کسی بھی پارٹی کے فائدہ و نقصان کو نظر انداز کرکے آپ (مسلمان) متحد ہوکر ووٹ دیں۔

    قومی سطح پر کانگریس پارٹی کی اور ریاستی سطح پر علاقائی پارٹیوں (” منسے ” مہاراشٹر،  ”بہوجن سماج پارٹی” اترپردیش) کی پالیسی اور کردار سب کے سامنے روزِ روشن کی عیاں ہے اور رام بھکتوں کی پارٹی (بی جے پی اور اس کے حلیفوں و کاسہ لیسوں ) کے کرتوتوں کا تو ذکر ہی کیا؟

     اس لئے مسلمانوں کو اس انتخاب میں انتہائی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہے اور اس جماعت (پارٹی) کو منتخب کرنا ہے جو انصاف پسندی اور امن پروری کو بڑھاوا دے سکے اور ریاست کی توانائی اور اقتصادی و معاشی حالت کو بہتر بناسکے، اشتعال انگیزیوں کو دور کرسکے۔

حاصلِ قرطاس یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام سے بھی اپیل ہے کہ متحد ہوکر (عظیم اتحاد) کو ووٹ دے کر جمہوریت کے استحکام اور اعتدال پسند حکومت کے قیام کی راہ ہم وار کریں۔ البتہ بہت سے اسمبلی حلقے ایسے ہیں جو اتحاد یا مسلم نمائندوں کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں ان حلقوں میں کانگریس نے اپنے امیدوار اتار دیئے ہیں (مثلاً: کشن گنج، بیگو سرائے یا آسام کے مختلف اسمبلی حلقے) تو ایسے حلقوں میں بلا تردد کانگریس کے امیدواروں کو (وہ انسان نہیں خواہ فرشتہ ہوں ) یکسر مسترد کرتے ہوئے صرف اور صرف عظیم اتحاد (مہا گٹھ بندھن) یا غیر کانگریسی امیدواروں کوہی ووٹ دینے میں دانائی و بھلائی ہے۔ البتہ اگر کسی حلقۂ اسمبلی میں متحدہ محاذ کا امیدوار اس قابل نہیں کہ وہ حلقہ کی کامیابی کی ضمانت دے سکے تو وہاں ایسے امیدوار کو کامیاب بنائیں جو حلقہ کی ضروریات کا ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ حلقہ کی ترقی اور فلاح و بہبودکے لئے نبرد آزمائی کرسکے خواہ وہ امیدوار کسی بھی پارٹی کا ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔