اردو اصناف کی کہانی، تصویروں اور رنگوں کی زبانی

شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کہ طلبہ و طالبات نے ادبی نمائش کا اہتمام کر کے پوری ادبی دنیا کو ایک نیا اور حیران کن تصور دیا ہے۔ اس نمائش کے ذریعے اردو شعر و ادب کو جس قدر جاذب نظر اور پرکشش بنا کر پیش کیا گیا ہے وہ حد درجہ قابلِ تحسین ہے۔ ان خیالات کا اظہار بی۔ اے۔ آنرس سمسٹر دوم، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کے زیرِ اہتمام منعقدہ ادبی نمائش ’’اردو اصناف کی کہانی، تصویروں کی زبانی‘‘ میں پروفیسر خالد محمود نے کیا۔ نمائش کی پذیرائی کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ اس نمائش میں طلبہ نے بیس (۲۰) شعری اور نثری اصناف کو بےحد سلیقہ مندی اور خوب صورتی کے ساتھ معلومات افزا بنانے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر وہاج الدین علوی نے طلبہ کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نمائش کا انعقاد کرنے والے طلبہ و طالبات کا تعلق بی۔اے۔ کے پہلے سال سے ہے، لیکن ان کی اس نمائش سے ان کے پختہ اور گہرے ادبی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔

صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے نمائش کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مختلف شعری اور نثری اصناف سے تعلق رکھنے والی اہم کتابوں اور مصنفین کی تصویروں کے علاوہ ہر صنف کی تعریف، اجزائے ترکیبی، فنی خصوصیات اور آغاز و ارتقا کو جس خوش اسلوبی سے اس نمائش میں پیش کیا گیا ہے وہ ایک قابلِ قدر پیش رفت ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے اس نمائش کو طلبہ و طالبات کا ایک غیر معمولی کارنامہ قرار دیا۔ پروفیسر کوثر مظہری نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ لائبریریوں میں مختلف اصناف پر تحقیقی اور تنقیدی کتابوں کی کمی نہیں ہے اصل مسئلہ اس کے دلکش اظہار کا ہے۔ اس حوالے سے اس نمائش کی اہمیت و افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر خالد جاوید نے کہا کہ لفظ نمائش کا استعمال عموماً منفی معنی میں کیا جاتا ہے لیکن اس ادبی نمائش نے اس تخریبی تصور کو رد کردیا ہے۔ نمائش کے نگراں خالد مبشر اور ڈاکٹر سید تنویر حسین نے طلبہ کی غیر معمولی محنت اور ذوق و شوق پر دلی خوشی کا اظہار کیا۔

اس نمائش میں جن اصناف کی کہانی رنگوں اور تصویروں کی زبانی پیش کی گئی ان میں داستان (شمامہ تنزین، مہہ جبین، یاسمین)،ناول (اسرافیل، محمد معاذ، اشتیاق عالم)، غزل( سمیہ خان، ثنا، سفیر صدیقی)،  نظم (جمیل سرور، تعظیم، نرگس)، افسانہ (فیضان الٰہی، امجد علی، عائشہ خاتون)، خاکہ نگاری (غلام ربانی، سہیل احمد، انتظار انجم)، سفر نامہ (غلام محمد، عبد الصمد، حسنین، قمر)، سوانح (غلام معین الدین، اشرف الحق، سہراب احمد، منور عالم)، رپورتاژ (شوقین، ناصر حسین، عامر خان)،خود نوشت (ارمان علی، محمد ارشاد، محمد سرفراز)، مکتوب نگاری (سمیہ شکیل، دانش خورشید، افسار بٹ)، انشائیہ( فیض احمد، خطیب الرحمٰن، انعم شمس)، ڈرامہ( عائشہ صدیقہ، عاشق علی، نجمِ عالم)، قصیدہ (عبد الرقیب، دانستہ، ابوبکر)، مثنوی (انجم آرا، عبد الرحمٰن، آصف فیصل)، مرثیہ( ثانیہ، صوبیہ، ثمینہ)،رباعی (ردا علوی، تبسم، شکیل اختر)،قطعہ( نازمین، فیضی، کلثوم)، شہر آشوب( اقرار، آمنہ، محمد ابراہیم) اور واسوخت( محمد شعیب اختر، اکرم، شعیب امام) شامل ہیں۔

 عبد الرقیب، نرگس زیدی اور سمیہ خان اس نمائش کے آرگنائزر تھے۔ نمائش کی شہرت سن کر شائقین کی بھیڑ صبح سے شام تک لگی رہی۔

تبصرے بند ہیں۔