مرکز عالمی اردو مجلس دہلی کے زیر اہتمام ادبی تقریب و محفل مشاعرہ کا انعقاد

ڈاکٹر غلام نبی کمار

مرکز عالمی اردو مجلس‘دہلی کے زیر اہتمام کل مورخہ 29اگست کو سرینگر کے ہوٹل شہنشاہ پیلس میں جموں و کشمیر کے دو شہرت یافتہ ادیبوں فاروق نازکی اور محمد یوسف ٹینگ کے اعزاز میں ایک ادبی تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں ریاست کے نامور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی۔ مجلس کی پہلی نشست اعزازیہ تقریب پر مشتمل تھی جس کی ایوانِ صدارت میں وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی پروفیسر طلعت احمد، وحشی سعید، محمد یوسف ٹینگ، بیگم فاروق نازکی، حنیف ترین اورڈاکٹر شمیم اختر موجود تھے۔ اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی پروفیسر طلعت احمد تھے جن کی موجودگی نے اس ادبی محفل کو زینت بخشی۔

شاہباز ہاکباری نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کیا۔ مجلس کے اہم رکن اور کشمیر کے نمائندے بشیر چراغ نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ جبکہ مرکز عالمی اردو مجلس کے صدر اور روحِ رواں حنیف ترین نے میں خطبہ اسقبالیہ دیا۔ صدر نے اپنے خطبے میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر طلعت احمد سے استدعا کی کہ وہ کشمیر یونیورسٹی کو جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طرز کا نمونہ بنانے میں تمام تر انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تاکہ کشمیر کی نئی پود ان کو ہمیشہ یاد رکھے اور تعلیمی سرگرمیوں میں ایک فعال کردار کے طور پر انہیں اور ان کی خدمات کو سنہرے حروف میں یاد کیا جائے۔ انھو ں نے ادارے کے جنرل سکریٹری غلام نبی کمار کی صلاحیتوں اور اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ جنھوں نے گذشتہ ماہ قومی سطح کا سمینار اور مشاعرے کروا کر ثابت کیا کہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں ادب کی بے لوث خدمت کرنے کا جذبہ اور مادّہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔

پروفیسر طلعت احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں صلاحیت اور ذہانت بدجۂ اتم موجود ہیں۔ نیز وادی میں مذکورہ دونوں شخصیات کے علاوہ بہت سے قلم کار اور ادیب موجود ہیں جنھوں نے زبانوں کی خدمت میں قابل قدر رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے یقین دلایا کہ وہ کشمیر یونیورسٹی کو ادب اور سائنس کے فروغ کے حوالے سے ایک اہم رول ادا کریں گے۔ محمد یوسف ٹینگ نے بھی زریں خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے شدت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹینگ صاحب نے مزید کہا کہ کشمیرمیں اعلیٰ پایہ کے ادیب و شاعر موجود ہیں جنہیں باہر وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے اور اس ضمن میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ حنیف ترین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹینگ صاحب نے کہا کہ اگر موصوف نے اسی طرح کشمیر میں محب اردو کا رول ادا کیا تو انہیں بابائے اردو خطاب دیا جا ئے گا۔

وحشی سعید نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ڈاکٹر حنیف ترین اور غلام نبی کمار کی کاوشیں قابل داداور قابل ستائش ہیں۔ دورانِ نشستِ اوّل ہی محمد یوسف ٹینگ کو پروفیسر طلعت احمد، وحشی سعید اور حنیف ترین کے بدست اعزاز سے نوازا گیا۔ فاروق نازکی ناساز طبیعت کے سبب پروگرام میں شامل نہ سکے تاہم ان کی غیرموجودگی میں بیگم فاروق نازکی محترمہ بلقیس نازکی کو ڈاکٹر شمیم اختر کے بدست ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا۔ پروفیسر طلعت احمد کی بھی پروگرام میں شال پوشی کی گئی۔ اس نشست میں نظامت کا فریضہ عاصم اسعدی سے احسن انداز میں انجام پایا۔ حنیف ترین کے تازہ ترین شعری مجموعے’’دلت کویتا جاگ اٹھی‘‘کی رسم رونمائی بھی اسی نشست میں انجام دی گئی۔

دوسری نشست میں محفل مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت شبنم عشائی نے کی جبکہ رفیق راز، ڈاکٹر شفق سوپوری، ڈاکٹر نذیر مشتاق اوروحشی سعید بطور مہمان خصوصی اسٹیج پر رونق افروز تھے۔ اس نشست میں نظامت کی ذمہ داری حنیف ترین صاحب نے سنبھالی۔ محفل مشاعرہ میں جن شعرائے کرام نے اپنا کلام پڑھا اور داد پائی ان میں رفیق راز، بشیر داد، نذیر آزاد، خالق پرویز، شبنم عشائی، شفق سوپوری، سید ذی شان فاضل، بشیر چراغ، پرویز مانوس، عادل اشرف، عاصم اسعدی، مشتاق حیدر وغیرہ شامل ہیں۔

مشاعرے کے آخر پر تعمیل ارشاد کے مدیر ناظم نذیر نے مجلس کے منتظمین کو داد دی اور ان کے کارناموں کو سراہا۔ پروگرام میں شامل سامعین میں نور شاہ، ڈاکٹر شاہ فیصل، دیپک کنول، شہزادہ بسمل، سید ظہور احمد ترمبو، پروفیسر نیلوفر ناز نحوی، اختر محراج وغیرہ قابل ذکر رہے۔ واضح رہے کہ عالمی اردو مجلس نے اس سے قبل بھی کئی بزرگ ادیبوں اور قلم کاروں کواپنے سابقہ ادبی پروگراموں میں اعزاز دیے ہیں جس میں فاروق مضطر، بشیر چراغ، رفیق مسعودی، شاہد علی خان وغیرہ شامل ہیں۔ مجلس دہلی میں مسلسل پروگرام منعقد کراتی رہی ہے۔ وادیِ کشمیر میں ادارے کا پہلا پروگرام منعقد کیا گیا۔ بشیر چراغ صاحب نے آخر پر تمام مہمانوں اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور مستقبل میں بھی تعاون کی امید ظاہر کی۔

تبصرے بند ہیں۔