مریض

سالک جمیل براڑ

ہاں آج بھی مجھے گرمیوں کی وہ دوپہر یادہے۔ مئی کامہینہ ابھی ختم نہیں ہواتھا۔ موسم کی سختی سے دنیاپریشان تھی۔ دوپہر کے تقریباً دوبج رہے تھے۔ میں کسی ضروری کام سے اپنی موٹر سائیکل پرسوار ہوکر اسپتال جارہاتھا۔ میں صدربازارسے ہوکردلی گیٹ پہنچ چکاتھا۔ ٹھہرئیے، شاید آپ حیران ہوگئے۔ دلی گیٹ سن کر میں اپنے شہرکے ایک ایریا دلی گیٹ کی بات کررہاہوں۔ بزرگوں سے سُنا ہے کہ کسی زمانے میں جب مالیر کوٹلہ ریاست تھی۔ اس جگہ پرایک گیٹ بناہواتھا جس کا دہلی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے اس کا نام دلی گیٹ رکھاگیاتھا۔

اب یہاں پرکوئی گیٹ وغیرہ نہیں ہے۔ بلکہ گیٹ کانام و نشان تک نیست و نابود ہوچکا ہے۔ اب یہاں پردُکانیں ہیں۔ ان سے آگے چوراہاہے۔ یہ چوراہاشہرکے کئی بڑے علاقوں کو آپس میں جوڑتاہے۔ یہاں دن میں ہر وقت بھیڑرہتی ہے۔ اس ٹریفک کوکنٹرول کرنے کے لئے دو سال پہلے ہی اس چوک میں لائیٹ سسٹم چالوکیاگیاہے۔ ان لائٹوں کے بارے میں ہر ایک کا اپنا اپنا نظریہ ہے۔ کوئی انھیں رحمت، توکوئی زحمت سمجھتا ہے۔ یہ رحمت ہیں یازحمت یہ توخداہی بہترجانتاہے۔

خیربات ہم مئی کے اس خاص دن کی کررہے ہیں۔ اس دن میں دلی گیٹ تک پہنچ چکا تھا۔ مجھے جس بات کا ڈرتھا۔ وہی ہوا، ہمیشہ کی طرح آج بھی سرخ لائٹ کاسگنل مجھے مونہہ چڑارہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس موڑپرسکوٹر، موٹرسائیکل، اورکاروں کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ میں بھی اسی بھیڑ کاایک حصّہ بناہواکھڑاتھا۔ ان وہیکلز کے بے سرے ہارنوں کی آوازیں آپس میں مل کر ماحول کو پریشان کر رہی تھیں۔ ہرکسی کو کہیں نہ کہیں جانے کی جلدی تھی۔ کئی توایسے تھے جن کے وہیکل ابھی بھی چالو حالت میں کھڑے تھے۔ وہ اپنے چندلمحے بچانے کی خاطر دیش اورماحول کا بہت بڑا نقصان کر رہے تھے۔

’’توبہ توبہ اتنی تیزدھوپ‘‘ابھی مجھے کھڑے ہوئے تھوڑاہی وقت گزرا تھا۔ کہ میراجسم پسینے سے پوری طرح شرابور ہوچکاتھا۔ مجھے ہری لائیٹ پر بے حد غصّہ آرہاتھا۔ شایدوہ یہ بات بھول ہی گئی تھی۔ کہ اسے جاگنا بھی ہے۔

میری موٹرسائیکل کے آگے ایک کار، دائیں طرف پان فروش کی دوکان، بائیں طرف تھوڑے سے فاصلے پرایک بوڑھا آدمی سائیکل پرسوارتھا۔ وہ شکل و صورت سے دیہاتی معلوم ہورہا تھا۔ اسی سطرمیں آگے موٹر سائیکل پر سوارڈاکٹر رئیس جوکہ شہرکے بڑے ڈاکٹروں میں شمارکئے جاتے ہیں۔ اپنے کمپاؤنڈر کے پیچھے اٹیچی کیس سنبھالے بیٹھے تھے۔

ہم اکسیویں صدی کے انسان کس قدر پریشان ہیں۔ ہماری زندگی کی ڈکشنری میں سکون اورآرام نام کی کوئی چیزنہیں ہے۔ شاید ہمیں انسان کہنا غلط ہوگا۔ ہم لوگ روبوٹ ہیں۔ رات دن ایک عجیب سی اندھی دوڑمیں مصروف ہرآدمی اپنے ایک ایک منٹ کوبہت قیمتی مانتا ہے۔ وہ چاہتاہے کہ پلک جھپکتے ہی وہ گھرسے آفس، آفس سے گھر، اس کے نتیجے میں آئے دن حادثوں میں اضافہ ہوتا رہتاہے۔ دن بہ دن ٹریفک میں اضافہ ماحول پربرااثراورطرح طرح کی بیماریو ں کا جنم۔ اس قہر بھری دوپہر میں بھی کسی کو سکون نہیں۔ ساتھ ہی سائیکل پر سوار بزرگ آدمی پرمجھے بہت ترس آرہاتھا۔ جوبار باراپنے سرپرباندھی ہوئی میلی سی پگڑی سے اپنے چہرے سے پسینہ صاف کئے جارہاتھا۔ گرمی تو اچھّے اچھّوں کے چھکے چھڑارہی تھی۔ وہ توپھربہت کمزورتھا۔

میرے پیچھے ایک صاحب کچھ زیادہ ہی جلدی میں تھے۔ وہ میرے اور اس بوڑھے کے درمیان خالی جگہ میں فٹ ہوناچاہتے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے اپناسکوٹر آگے بڑھایا بوڑھے کی سائیکل کا توازن بگڑگیا۔ وہ سائیکل سمیت ہی قریب کھڑے سکوٹرپرجاگرا۔ جب تک میں نے اورکچھ لوگوں نے اسے مل کر اٹھایا۔ وہ خون سے لت پت ہوچکاتھا۔ اس کے ماتھے سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑاتھا۔ ایسالگ رہاتھا جیسے اس کی کوئی نس پھٹ گئی ہو۔ میں ڈاکٹر رئیس کی طرف دیکھ رہاتھا۔ جوکہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انجان بنے اِدھراُدھردیکھنے لگے تھے۔ اتنے میں ہری لائٹ کاسگنل ہوگیا۔

ڈاکٹررئیس کوجاتے ہوئے دیکھ کر میں نے حوصلہ کرکے ان کو روکا ’’ڈاکٹر صاحب! پلیزاس بوڑھے زخمی کوتودیکھئے!‘‘میری آواز کے ساتھ دوتین آدمی اورچلّائے۔

’’ڈاکٹر!……ڈاکٹر………!!‘‘

کمپاؤنڈرنے سکوٹر گیئرمیں ڈال لیا۔ ڈاکٹررئیس ایک کھسیانی ہنسی کے ساتھ ہماری طرف دیکھ کر بولے۔

’’سوری!………میں جلدی میں ہوں !!……مجھے ایک مریض کودیکھنے جانا ہے………!!‘‘

تبصرے بند ہیں۔