مزاحیہ: قصہ ایک پروفیسر کا!

شفیق شاکر

اس پروفیسر کا چہرہ مبارک اتنا تو بھیانک تھا جیسے صاحب ابھی قبر سے اٹھ کر آئے ہیں۔ خدا ایسا چہرا کسی دشمن کو خواب میں بھی نہ دکھائے۔ کوبرا سانپ جیسی بڑی اورٹیڑھی ،بلیکن وائیٹ مونچھیں جنہوں نے ان کے منہہ کے آدھے حصے پر ناجائز قبضہ جمائے رکھا تھا، انہیں کسی نے مسکراتے ہوئے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا جو اندازہ لگایا جا سکے کہ ان کا انداز تبسم کتنا دلربا ہوگا! دیکھنے والوں نے تو صرف ان کا غضب ہی غضب دیکھا تھا جس دوران ان کے لبوں سے زیادہ ان کی مونچھیں لرزشی حرکت کرتی تھیں۔ان کا تکیہ کلام تھا کہ” یہ کس قسم کی کلاس ہے جس میں قبرستان کی خاموشی چھائی ہوئی ہے،” پھر اگر کسی طالبعلم نے بھولے سے حماقت کرتے ہوئے کوئی سوال داغ دیا تو سامنے سے میزائیل آئے گا ” شٹ اپ، نان سنس!” پروفیسر صاحب نہ صرف عجیب و غریب تھے بلکہ باقائدہ ایک عجوبہ تھے۔روسٹم پہ کھڑے ہوتے تو ایک موضوع سے دوسرا،دوسرے سے تیسرا،تیسرے سے چوتھا، نہ کاما نہ فل اسٹاپ، بریک پر پاوَں صرف اس وقت رکھتے جب کوئی انہیں چائے نوشی کے لئے باہر بلاکر کلاس سے وقتی طور پر اس آفت ایزدی کو ٹال دیتا۔صاحب کی اکلوتی عینک جس پر میل اور مٹی کا ایک گہرا رنگ چڑھارہتا ، موہن کے دڑے سے ملی ہوئی نادرات میں سے معلوم ہوتی تھی۔بار بار ہائی ریکٹر اسکیل پر انکار میں گردن ہلانے کے شوق کی وجہ سے اس عینک کو رسی سے باندھنا ضروری ہو گیا تھا تاکہ کسی ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے۔اصل قیامت تو تب گرتی تھی جب پروفیسر صاحب کی امتحانات میں ڈیوٹی لگتی تھی۔ زیادہ تر معزز طلبا امتحان کی تیاری کرنے نہیں بلکہ پیچھے والی سیٹوں پر قبضہ کرنے وقت سے پہلے امتحانی کمرے میں پہنچ جاتے تاکہ آئندہ تین گھنٹوں کے لئے "عذاب الاہی "سے بچا جا سکے۔لیکن جن بدنصیبوں کو آگے والی سیٹوں پر بیٹھنا ہی نصیب ہوتا تھا وہ بھی پیچھے بیٹھنے والوں سے حسد کی آگ اس طرح نکالتے تھے کہ اچانک کسی نے معصومانہ آواز لگادی ” سر! فلاں مجھ سے سوال کا جواب پوچھ رہا ہے۔” بس پھر تو اس پیچھے بیٹھے معصوم کی سمجھو کہ شامت آگئی۔ ایک گرجدار آواز ابھرے گی، ” اسٹینڈ اپ، گیٹ آئوٹ!” کسے مجال کہ ایک لفظ بھی مزید بول سکے۔سمجھو کہ وہ تاریک راہوں میں مارا گیا۔آخر گھنٹے ڈیڑھ کی منت ہ سماجت کے بعد اسے ان الفاظ کے ساتھ کاپی واپس کی جاتی کہ "آئی ایم وارننگ یو، دس از دی لاسٹ چانس فار یو۔” پروفیسر صاحب کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا تھا اور وہ سورج کی طرح وقت کے پابند تھے۔چھٹی کا لفظ ان کی لغت میں ہی نہیں تھا۔ان کی بیماری کے لئے بار بار مانگی جانے والی دعاوَں کے باوجود وہ اتنے اثر پروف تھے کہ بیماری انہیں سونگھتی بھی نہ تھی۔وہ ایسی مشین تھے جس میں اپنےموضوع اور مضمون کے سوا اور کوئی مواد فیڈ ہی نہ تھا۔نہ کوئی لطیفہ،نہ کوئی کہانی اور نہ ہی کوئی دلچسپ واقعہ، شاید اس لئے کہ ان سے زیادہ عجیب اور دلچسپ مخلوق کوئی اور نہ تھی۔اگر کسی طالبعلم کی اچھی کارکردگی پر خوش بھی ہوتے تھے تو اسے ایسی پراسرار خونخوار نظروں سے دیکھتے جو پتہ نہ لگتا تھا کہ وہ طالبعلم کی اس کارکردگی پر خوش ہو رہے ہیں یا اس کی کارکردگی پر اس سے جل رہے ہیں۔
ویسے تو پروفیسر صاحب کی تعریف کرنے کے لئے ان کی شخصیت میں کوئی قابل ستائش چیز ڈھونڈے بھی نہ ملتی تھی لیکن کچھ چالاک طالبعلم اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے خوشامد کے طور پر ان کی انیس سؤ صفر کی عینک،انگریزوں کے دور کے کوٹ، مغلوں کے دور کی پتلون اور قائد اعظم کے دور کی گھڑی کی تعریف کردیتے تھے۔یہی ان کی کمزوری تھی ۔اس تعریف کے انعام میں وہ ان ایسے طلبا پر کچھ ہاتھ ہلکا رکھتے تھے۔باقرخانی جسے عرف عام میں ” کھارہ بسکوٹ” بھی کہا جاتا ہے انہیں چائے میں ڈبوکر کھانا دیوانگی کی حد تک ان کاپسندیدہ مشغلہ تھا اور کھانے کے وقت وہ دنیا وما فیھا سے بے نیاز ہوجاتے تھے۔اگر باقرخانی سے بہتی ہوئی چائے کی کوئی خوبصورت لڑی ان کے سینے کا بوسہ لینےکی گستاخی کرتی تو اس کا زیادہ برا منانے اور اسے صاف کرنے کا کوئی خاص تکلف اور تکلیف نہیں کرتے تھے۔پروفیسر صاحب کو اگر کوئی چیز سنجیدگی سے پریشان کرتی تھی تو وہ تھی ہر وقت بہنے والی ان کی ناک! جسے بار بار صاف کرنے کے لئے اپنی جیب سے بار بار رومال نکال کر اپنا قیمتی وقت ضایع کرنے کے بجائے وہ اکثر اپنی قمیص کے دونوں کف باری باری استعمال کرلیتے تھے۔ طلبا کے لئے ویسے تو پروفیسر کلی طور پر ایک آفت تھے لیکن اس بھی بڑی آفت ان کی چھینک تھی جو کسی زلزلے سے کم نہ تھی۔چھینک ایسی جیسے کسی نے اچانک کریکر کا کوئی دھماکہ کردیا ہو۔اس وقت دل چاہتا تھا کہ حفاظتی تدابیر کے تحت کرسیوں کے نیچے چلے جائیں لیکن یہ سب کچھ کس کے بس میں ہوتا تھا! چائے پروفیرب صاحب کے لئے پیٹرول کا درجہ رکھتی تھی۔کبھی کبھار چائے کلاس میں ہی منگوالیتے اور طلبا کے سامنے ہی بغیر کسی کو صلاح کئے ، پیتے ہوئےموسیقی کی ایسی ردھم نکالتے کہ گھونٹ لینے کی آواز پوری کلاس میں سنائی دیتی۔ہنسی تو بہت آتی تھی لیکن کسے مجال کہ کہے کہ ” آ بیل مجحے مار۔” کوئی اسائینمینٹ کتنی بھی اچھی لکھ کر لائیں ، زیادہ سے زیادہ جو ریمارکس پروفیسر صاحب کے قلم کی نوک سے نکل سکتے تھے وہ تھے ” اوکے،فیئر ، رائیٹ ” باقی ” گڈ،ویری گڈ،ایکسیلنٹ” جیسے ریمارکس وہ کس جناتی مخلوق کے لئے بچائے رکھتے تھے یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا ہے!

تبصرے بند ہیں۔