مسئلہ کزن میرج نہیں، مرعوبیت ہے

لندن مقیم جناب فہیم اختر صاحب کامضمون ’کزن میرج ایک سنگین مسئلہ ہے‘ کا جواب۔

ممتاز میر

   قریب ایک صدی قبل مولانا مودودی نے اپنی پہلی کتاب’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھی تھی۔  کتاب کی ابتدا ہی میں مولانا نے لکھا تھا کہ دنیا میں وہ فلسفے قبولیت عامہ حاصل کرتے ہیں جو تلوار بند ہاتھوں سے پیش کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سو سال کے عرصے میں حالات مزید دگرگوں ہوئے ہیں۔  تلوار بند ہاتھوں کے واپس چلے جانے کے بعد بھی مرعوبیت ختم نہ ہوئی نہ رکی بلکہ مزید بڑھی۔ گوری چمڑی سے ہم مرعوب ہوئے، زردار اور بھیک دینے والے ممالک سے ہم مرعوب ہوئے۔ یہاں تک کہ weapons of mass destruction بنانے والے ممالک کو ہم نے امن کا پیغامبراور مہذب سمجھااور خود کو جنگلی وحشی اور دہشت گرد۔ وہ شہر کے شہر نیست ونابود کردیں تو نجات دہندہ، امن کے فرشتے اور جمہوریت کے چیمپئن کہلاتے ہیںاور ہم دوچار ہی کو خون میں نہلادیں تو ٹیررسٹ،امن کے دشمن اور آمر کہلاتے ہیں، اور یہ سب گوری چمڑی والے دانشور لکھیں تو دماغ نہیں کھولتامگر جب کالے بابو بھی یہی بات لکھیں تو خیال آتا ہے کہ غلامی ابھی تک گئی نہیں، حالانکہ آزاد ہوئے پون صدی گزر گئی۔

   آئیے، کچھ مثالیں دیتے ہیں۔ ابھی تو زور کم ہوگیا مگر ختم تو نہیں ہواورنہ آج سے ۴؍۵ دہائیاں قبل خاندانی منصوبہ بندی یا بچے کم پیدا کرو کا بڑا شور تھا۔  کیونکہ دو سو سال پہلے ایک احمق نے population explosion کی پیش گوئی کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وسائل simple ratioیعنی ۱،۲،۳،۴کے حساب سے اور آبادی multiple ratioیعنی ۲،۴،۸،۱۶ کے حساب سے بڑھ رہی ہے(ہم بنیاد پرست مسلمانوں کاایمان یہ ہے کہ وسائل پہلے دنیا میں آتے ہیں انسان بعد میں) تعجب کی بات یہ ہے کہ گذشتہ دوصدی میں آبادی وسائل سے زیادہ نہیں ہو پائی پھر بھی ہم کالی چمڑی کے لوگ ان احمقانہ باتوں کے سحر سے نہ نکل پائے۔  اور اس کی جہ صرف یہ ہے کہ ہم وحی ء الٰہی پر نہیں مغرب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ آج جب کہ صرف ہمارے ملک میں لاکھوں ٹن اناج سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے یا چوہوں کو کھلا دیا جاتا ہے اور ہمارا وزیر غذاعدالت عظمیٰ کے حکم کو ٹالنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ ظاہر ہے لوگ بھوکے تو مریں گے اور الزام آبادی کے سر جائے گا۔  اور ہم پشتینی غلام غلط نظام تقسیم کو دوش تھوڑ ی دیں گے؟اور یہ اسکے باوجود ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں فرانس نے ہٹلر کے سامنے اسلئے گھٹنے ٹیکا تھا کے اس کے پاس لڑنے کے لئے افراد ہی نہیں تھے۔  اور یہ مرعوبیت اس کے باوجود ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہر دو چار سال میں آبادی کے تعلق سے اپنی پالیسی تبدیل کر رہا ہے۔  چین فی خاندان ایک بچہ کی پالیسی پر سختی سے عمل کر رہا تھا۔  نتیجہ یہ نکلا کہ کارخانے چلا نے کے لئے انسان عنقا ہوگئے۔  پھر دو بچوںکی اجازت دینی پڑی اوراب سال دو سال سے تین بچوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہی حال تعدد ازدواج کا ہے۔ ہم وحشی اور غیر مہذب لوگوں کو ایک سے زائد شادی سے روکاجاتا ہے اس شادی سے جسمیں عورت اور اس کے بچوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اور گوری چمڑی والے مہذب لوگوں کو مکمل آزادی ہے کہ جہاں چاہیں چرتے پھریں۔ جتنی چاہیں رکھیل بنائیں۔ اور اس کے لئے لیو ان ریلیشن شپ جیسے sophisticated الفاظ بھی ایجاد کر لئے گئے ہیں۔ ’استعمال‘کرنے کے بعد بھاگ جانے کی بھی آزادی ہے۔

   یہ ہیں وہ حالات جسمیں ۲۷ فروری کے اخبار میں لندن مقیم جناب فہیم اختر صاحب کامضمون ’’کزن میرج ایک سنگین مسئلہ ہے‘‘ نظر سے گزرا۔  فہیم صاحب کے مضامین پہلے بھی نظر سے گزرتے رہے ہیں۔  مسلمانوں کے ساتھ بہت سارے مسائل ہیں۔ مثلا قرآن و حدیث کا کما حقہ مطالعہ نہ ہونا، ایمان کی کمزوری، اخلاقی جراء ت کی کمی، مرعوبیت۔  فہیم اختر صاحب کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں یہ خامیاں ہیں۔  ایسا لگتا ہے کہ ان کا مطالعہ بھی وسیع نہیں ہے۔

   بالکل بنیادی بات، ذرا سوچیں!اسلام میں حلال و حرام کی بنیاد کیا ہے؟اللہ نے کسی چیز کو حلال اور کسی چیز کو حرام کیوں رکھا ہے؟ جناب! اللہ نے انسان ہی کو نہیں کائنات کی ہر چیز کو بنا یا ہے اسلئے وہی جانتا ہے کہ کونسی چیز انسانی جسم کے لئے مفید اور کونسی مضر ہے۔ جو چیز مفید ہے وہ انسانوں کے لئے حلال ہے اور جو چیز مضر ہے وہ حرام ہے۔  یہ ہے وہ بنیادی فلسفہ جس کی بنا پر کسی چیز کی اجازت دی گئی ہے اور کسی چیز سے روکا گیا ہے۔  سب سے پہلے تو حضور ﷺ نے اپنی سب سے پیاری صاحبزادی کو اپنے سگے چچازاد بھائی سے بیاہ دیا اگر اس میں کوئی خرابی ہوتی تو حضور ﷺاسے کیسے انجام دیتے ہیں کیونکہ سب سے بڑے طبیب تو حضور ﷺ خود تھے۔ پھر خود حضور نے اپنی سگی چچا زاد بہن سے شادی کی۔  اور باقی مسلمان بھی اس کی اتباع کرتے ہیں۔  بر صغیر کی کچھ برادریوں،خاندانوں میں اس کا رواج بہت زیادہ ہے۔  دوسری طرف دو سگی بہنوں کو بیک وقت ایک ہی شخص کے نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کے اس کے پیچھے کیا مصلحت ہے ؟اور قرآن وحدیث کے واضح احکامات کے بعد ہم سائنس کی پرواہ نہیں کرتے۔  کیوں؟ کیونکہ سائنسی مفروضے تو روز بدلتے رہتے ہین۔ اور رسول ﷺ کے قول یا فعل اٹل ہیں۔ قریب ۳۵ برس پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جو ایک فرانسیسی سائنسداں موریس بوکائیلے کی لکھی ہوئی تھی، اور نام تھا، ’’بائبل قرآن اور سائنس‘‘۔  انھوں نے کتاب میں کہا تھا کہ سائنس کی کوئی ثابت شدہ تھیوری ایسی نہیںجو قرآن کے بیانات سے ٹکراتی ہو۔ فہیم صاحب یہ سائنسداں بھی ہمارے آقاؤں میں سے ہی تھا۔  بمبئی کی فارما انڈسٹری پر جین اور مارواڑی سماج کے لوگوں کا غلبہ ہے۔  ایک سیل ڈپو کی الماری پر ہم نے لکھا دیکھا ’’جیو ہتیا مہاپاپ ہے‘‘ہم نے مالک سے کہا بھائی۔  اب تو سائنس کہتی ہے کہ جیو ہتیا کے بغیر آپ کھا ہی نہیں سکتے۔  اس نے شرما کے کہا کہ ارے یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ فہیم صاحب، ۳۰ ؍۴۰سال پہلے کہا جاتا تھا کہ جلے ہوئے پر پانی نہ ڈالو اب کہتے ہیں کہ جتنا سرد پانی ممکن ہو ڈالو۔  نیٹ پر ڈھونڈیں تو بہت ساری سائنسی تھیوریز ایسی مل جائیں گی جن کے تعلق سے کل کچھ کہا جاتا تھا آج کچھ اور کہا جاتا ہے۔ تو پھر،قرآن و حدیث کو بھی بازیچہء اطفال بنانے کا ارادہ ہے؟

   یہ دور اتنا عجیب دور ہے کہ الاماں و الحفیظ۔ آنکھوں دیکھی بات پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔  دو دہائی پہلے ساری دنیا نے بچشم سر دیکھا تھا کہ ٹوئن ٹاورس کو دو ہوائی جہازوں نے گرایا تھا۔ کیا واقعی ایسا تھا؟دو سالوں سے کرونا کا رونا چل رہا ہے۔ ابتدا میں جو دُھرندر حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اسے واقعی وبا ثابت کرنے پر تلے تھے، اب انھیں بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسی بیماری ہے جو ہر ۸؍۱۰ ماہ بعد ایک نو مولود کو جنم دے رہی ہے۔  اور یہ سلسلہ ختم ہوگا کب؟اس کے جو بھی علاج پیش کئے جا رہے ہیںوہ کارگر کیوں نہیں ہیں؟ اور کارگر نہیں ہیں تو زبردستی عوام کے ماتھے کیوں مارے جا رہے ہیں؟اوران ملکوں میں جہاں یہ سب ڈرامہ نہیں کیا گیا کشتوں کے پشتے کیوں نہیں لگ رہے ہیں؟آخر یہ وائرس انتخابات کے زمانے میں کہاں چلا جاتا ہے؟یہ تمام سوالات اپنی جگہ اور دنیا کی حماقت اپنی جگہ۔

   تو جناب فہیم اختر صاحب!مرعوبیت کو دماغ سے نکال پھینکئے۔ قرآن و حدیث کو گھول کر پی لیجئے۔ اور اس پر کما حقہ ایمان بھی لائیے۔  اخلاقی جراء ت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔  اللہ تعالیٰ ہم سے زیادہ آپ کا دماغ روشن کردے گا۔ اب بھی مسلمانوں کے پاس بے شمار چیزیں ہیں جس کا مغرب کے پاس کوئی جواب نہیں۔  ہم ان کے گرو ہیں اور گروآخر گرو ہوتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔