مسجد کی فریاد

اختر سلطان اصلاحی

ندیم کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی ، وہ پریشان تھا بات ہی ایسی تھی اسے لگا وہ کسی جادونگری میں آگیا ہے ۔ زمین بھی بات کررہی تھی، گھربھی بول رہے تھے، بیل، گائے ، مرغی ، بکری سب آدمیوں کی طرح گفتگو کررہے تھے۔ اچانک ایک طرف سے آواز آئی اب مسجد اپنی فریاد بیان کرے۔
ندیم نے دیکھا گاؤں کی مسجد اس کے سامنے کھڑی ہے شاندار اور خوبصورت مسجد آج کچھ پریشان اور دُکھی دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے منہ کھولا’’اے زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ، اے پوری دنیا کے مالک! میں سب سے پہلے تیرا شکر ادا کرتی ہوں، تو نے مجھے آج زبان بخشی تاکہ میں اپنی دُکھ بھری کہانی تیرے سامنے بیان کروں، یہاں جو لوگ موجود ہیں وہ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے کون سا دُکھ یا پریشانی ہے۔ گاؤں اور محلہ کو چھوڑئیے علاقے کا ہر شخص مجھے عزت و احترام اور قد رکی نگاہ سے دیکھتا تھا گاؤں والوں نے ایک کروڑ روپیہ خرچ کرکے میری تعمیر کی ۔ تعمیر کے لئے دوردور سے بہترین کاریگر اور مزدور بلائے گئے ۔ قیمتی پتھر اور ٹائلس میری دیواروں میں لگائے گئے اور پھر ایسا شاندار پنٹ اور رنگائی کی جو بھی دیکھے تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ جب میں بن کر مکمل ہوگئی تو ایک شاندار پروگرام بھی ہوا ، دور دور سے علماء اور معززین جمع ہوئے ، مسجد کی اہمیت اور ضرورت پر اچھی اچھی تقریریں ہوئیں ۔ مولانا لوگوں نے سمجھایا کہ صرف مسجد بنانے ہی کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو آباد رکھنا اس میں خوب نمازیں پڑھنا اور اس کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا مرکز بنانا ضروری ہے ورنہ اللہ کے یہاں ہماری پکڑ ہوگی۔ مسجد کے افتتاح کے لئے آئے ہوئے کئی ہزار لوگوں نے جب ظہر کی نماز باجماعت پڑھی تو میرا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔
’’بات تمہاری لمبی ہورہی ہے ۔ بتاؤ اب کیا پریشانی ہے ؟ ایک آواز آئی ۔
خالق دوجہاں! میں بتاتی ہوں، افتتاح کے دن شام عصر ہی میں مشکل سے دس لوگ نظر آئے وہ بھی بوڑھے ، میں نے سمجھا شاید لوگ تھک کر سوگئے ہوں گے اور کل سے میرا دامن نمازیوں سے بھرا ہوگا مگر ہائے افسوس ۱۹؍لمبی صفیں ہر روز نمازیوں کا انتظا کرتی رہتی ہیں۔ صرف پہلی صف آدھی بھرپاتی ہے۔ ’’ہوسکتا ہے اس بستی میں لوگوں کی تعداد ہی کم ہو‘‘ آواز دوبارہ آئی ۔ نہیں رب العالمین ، پوری بستی انسانوں سے بھری ہے ۔ اگر گاؤں کے تمام لوگ مسجد میں آجائیں تو میں پوری بھر جاؤں کوئی جگہ باقی نہ رہے آخر جمعہ کو کیوں میں تنگ پڑ جاتی ہوں۔
’’ٹھیک ہے تم اپنی بات مکمل کرو‘‘ پھرآواز آئی۔
بات پوری کرتی ہوں بار الٰہا! نماز ی تو کم ہیں ہی میرے دروازے پر ایک بورڈ گلا دیا گیا ہے۔ بغیر اجازت کسی کو مسجد میں تقریر وغیرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب اگر کوئی اجازت لے تو اُسے ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ میرا دل تڑپتا رہتا ہے کہ کبھی کوئی اچھا مقرر آئے اور اس کی باتوں سے میرا دل خوش ہو مگر اب تک یہ آرزو بس آرزو ہی ہے۔ ایک دن ایک مولانا آئے ان کی خواہش تھی کہ درس قرآن دیں مگر درس قرآن کا نام ہی سن کر سب لوگوں نے کان پکڑ لیے۔ متولی صاحب کہنے لگے ہم لوگ نیا نیا کام نہیں شروع کریں گے جتنا پہلے سے ہوتا ہے وہ ہماری عاقبت کے لئے کافی ہے۔
ندیم کا کیا حال ہے کیا وہ مسجد میں آتا ہے؟
ندیم اور اس کے دوستوں سے تو میں بہت ہی تنگ ہوں وہ صرف مغرب میں آتا ہے یا پھر جمعہ میں وہ جیسے ہی اندر آتا ہے اس کی شرارتیں شروع ہو جاتی ہیں، نہ تو ٹھیک طرح سے وضو کرتا ہے اور نہ ہی نماز پڑھتا ہے ۔ مسجد میں بات کرنا، ساتھیوں کو دھکے دینا، ادھر ادھر دیکھنا، نمازیوں کے سامنے سے گزرنا شور اور ہنگامہ کرنا یہ سب اس کے پسندیدہ کام ہیں۔ میری تو کبھی کبھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مسجد ہی نہ آئے۔
’’اچھا وہ اتنا شریر ہے‘‘ ! آواز غصے سے کپکپارہی تھی ندیم کو لگا وہ غصہ بھری آواز اسے دبوچ لے گی۔ ڈر کی وجہ سے اس کی چیخ نکل گئی ۔ وہ چار پائی سے گرتے گرتے بچا۔امی دوڑی دوڑی آئیں بیٹا کیاہوا؟ کیاکوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہے تھے؟
’’ہاں امی خواب تو دیکھ رہا تھا مگر خواب بالکل سچا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس خواب نے میری آنکھ کھول دی ، اب آج سے میں پانچوں وقت کی نماز پابندی سے مسجد میں پڑھوں گا۔ مسجد میں کسی قسم کی شرارت نہیں کروں گا۔ اپنے دوستوں کو بھی مسجد میں ہر طرح کی شرارت سے روکوں گا‘‘۔
کہاں وہ دن اورآج کا دن ندیم بالکل بدل گیا ہے وہ پانچوں وقت پابندی سے نماز پڑھتا ہے اس کی کوششوں کی وجہ سے تمام بچوں نے مسجد میں باتیں کرنا اور شرارتیں کرنا چھوڑ دیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔