مسلمانانِ ہند کو دلتوں سے سیکھنا چاہئے سیاست کا سبق

امام الدین علیگ

تاریخ کے مطابق ملک کے دلت طبقے نے فرقہ وارانہ استحصالی طاقتوں کے ظلم و استبداد کو تقریبا 5000 برسوں تک جھیلا ہے اور تاریخ کے اس طویل ترین استحصال اور ہولناک ظلم و تشدد کو جھیلنے کے بعد ان پڑھ، غریب اور دبے کچلے دلتوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ ظلم و استحصال اور فرقہ وارانہ تعصب و امتیاز سے چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ "سیاسی طور پر بااختیار بنا جائے ۔ آزادی کے بعد جب ملک میں جمہوری نظام ِ حکومت کا قیام ہوا تو دلتوں نے اسے اپنے لیے نعمت مترقبہ سمجھا اور پورے کا پورے دلت طبقہ نے فرقہ وارانہ طاقتوں کا خوف اپنے دل و دماغ سے اتار کر اور نتائج سے بے پروا ہوکر اپنی قیادت کا ساتھ دیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آبادی کے اعتبار سے 18-20فیصد یعنی اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں انھوں نے کئی بار حکومت کی اور ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ جب دلتوں کے روایتی حریف مانے جانے والے برہمنوں کی پارٹی بی جے پی کو بھی دلت قیادت کے سامنے اتحاد کے لئے سر جھکانا پڑا۔ ملک کے مسلمانوں کے سامنے اپنے حالات کو بدلنے کے لئے یہ ایک جیتی جاگتی اور واضح مثال ہے۔ اگر دلتوں نے بھی مسلمانوں کی طرح فرقہ پرست استحصالی طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی فکر پال لی ہوتی اور وہ بھی اپنی قیادت قائم کرنے کے بجائے دیگر سیاسی پارٹیوں کی دم پکڑے رہتے تو آج دلتوں کا بھی وہی حال ہوتا جو مسلمانوں کا ہے۔ جبکہ دلتوں نے دور اندیشی سے کام لیا، پیش آئند انتخابات کے نتائج اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے خوف سے بےپروا ہو کر انھوں نے اپنی قیادت کا ساتھ دیا اور آج اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ جمہوری ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہےکہ وہ اپنی قیادت کو مضبوط کریں اور تمام مشکلات اور شکوک و شبہات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی قیادت کا ساتھ دیں ۔ سیاسی طور پر بااختیار ہونےسے ہی مسلمانانِ ہند کے بے شمار مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ دلتوں کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے تمام اختلافات کو بھول کر اور دل و دماغ سے فرقہ پرست طاقتوں کے خوف کا بوجھ اتار کر اپنی ٹوٹی پھوٹی قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ویسے دیکھا جائے تو مسلمانوں نے دلتوں کے مقابلے میں فرقہ پرست طاقتوں کے مظالم کا ایک حصہ بھی نہیں جھیلا ہے۔ دلت طبقہ تو آج بھی فرقہ وارانہ تعصب و امتیاز کے زہر کو پی رہا ہے ۔ ایسے میں جب دلت طبقہ فرقہ وارانہ طاقتوں کے خوف کو اپنے دل و دماغ سے اتار کر اپنی قیادت قائم کر سکتا ہے تو پھر مسلمان کیوں نہیں؟
اگر دور اندیشی سے کام لیا جائے اور پیش آئند انتخابات کے نتائج اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے خوف سے اوپر اٹھ کر سوچا جائے تو یہ بات دن کے اجالے کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کے پاس سیاسی دیوالیہ پن سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ جو بھی تھوڑی بہت مؤثر مسلم قیادت اور مسلم سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے بیچ موجود ہیں، انہی کو مضبوط کیا جائے۔ دیگر کمیونٹیز کی قیادت پر بھروسہ کرنے یا ان کی سیاسی غلامی کرنے سے مسلمانوں کا سیاسی دیوالیہ پن دور ہونے سے رہا۔ ویسے بھی مسلمانوں نے اپنی سیاسی قیادت کو مضبوط کرنے کے علاوہ دیگر تمام متبادل کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔ ان متبادل میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے لے کر دلت اور پسماندہ قیادت سمیت تمام علاقائی پارٹیاں شامل ہیں، جنہیں مسلمانوں نے کئی کئی بار اپنا یکمشت ووٹ دے کر کامیاب کیا مگر اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان سب نے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسلمانوں کو اپنا سیاسی غلام بنائے رکھنے کے لئے دن رات ایک کیااور فرقہ وارانہ طاقتوں کے انجانے خوف میں مبتلا کرکے مسلمانوں کو ہمیشہ ہی اپنی ابھرتی قیادت سے بدظن کرنے کا کام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان سیاسی طور پر معذور ہوکر رہ گئے۔
مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس دعوے میں کوئی دم نہیں ہے کہ مسلمانوں کے متحد ہونے اور اپنی پارٹی بنانے سے تمام ہندو متحد ہو جائیں گے اور فرقہ وارانہ طاقتیں مضبوط جائیں گی۔ اگر اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی ہے، کسی بھی اتار چڑھاؤ کو دوام نہیں حاصل ہوتا ہے بلکہ سب کچھ وقتی ہوتا ہے۔ ویسے تو مسلمانوں کے متحد ہونے سے اوّلاً ہندو طبقہ متحد نہیں ہوگا لیکن اگرہو بھی جائے تو یہ بھی ایک جزؤ وقتی بات ہوگی، کیونکہ کہ بی ایس پی، ایس پی، کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیوں سمیت دیگر متعدد پارٹیاں مسلمانوں کے فکر میں مبتلا ہوکر اپنے وجودسے سمجھوتا نہیں کریں گی ۔ یہ تو صرف ملک کے مسلمانوں کی خاصیت رہی ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کی فکر میں اپنے سیاسی وجود سے سمجھوتہ کرکے بیٹھ گئے اور ملک کی آزادی کے بعد سے سوائے اپنے شاندار ماضی پر فخر کرنے اور دوسروں کے قیادت کی سیاسی غلامی کرنے سے انھیں کچھ اور سجھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ بہر حال مسلم قیادت کی فکر میں ملک کی دیگر تمام پارٹیاں فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنے وجود کو ختم کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتی ہیں بلکہ اس کے برعکس یہی پارٹیاں اپنا وجود بچانے کی خاطر مسلم قیادت سے اتحاد کرنے کے لئے خود آگے آئیں گی اور تب مسلمان اپنے شرائط پر ان پارٹیوں کو جھکنے کے لیے مجبور کر سکیں گے ۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ ملک کی زیادہ تر پارٹیاں موقع پرست ہیں ۔ جب دو روایتی حریف بی ایس پی اور بی جے پی اقتدار کے لیے گٹھ بندھن کر سکتی ہیں تو آگے چل کر دیگر جماعتوں کا مسلم قیادت کے ساتھ اتحاد کیوں نہیں ہو سکتا؟ اور اگر آگے چل کر کوئی بھی پارٹی مسلم قیادت کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے تیار نہ بھی ہو تب بھی اتر پردیش جیسی ریاست کے مسلمان اپنی 20-22 فیصد آبادی کے دم خم پر اہم اپوزیشن پارٹی کے کردار میں ہوں گے اور اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی کارروائی کی زوردار طریقے سے مخالفت کر سکیں گے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا نے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ مگر یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان اپنی قیادت اور اپنی سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرلیں ، اسی ایک صورت میں ہی مسلمانوں کو سیاست میں حصہ داری مل سکتی ہے۔ مسلم قیادت قائم ہونے سے پہلے نہ تو مسلمانوں کو سیاست میں حصہ مل سکتا ہے اور نہ ہی اس سے قبل کوئی مؤثر پریشر گروپ کے بننے کا امکان ہے۔ اگر پریشر گروپ بنا بھی لیا گیا تو بھی وہ کسی کام کا نہیں ہوگا اور کوئی پارٹی مسلمانوں کی نہ سنے گی اور نہ ہی ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہوگی، مسلمان چیختے چلاتے اور احتجاج کرتے رہیں ۔
۔مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ جب ملک کے سات آٹھ فیصد آبادی والے طبقوں سے لے کر دو ڈھائی فیصد آبادی والے طبقے بھی اپنی قیادت قائم کرکے اور متحد ہوکر اقتدار کی کرسی تک پہنچ سکتے ہیں تو قومی سطح پر 15فیصد آبادی والے مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ جب کہ کئی ریاستوں اور اسمبلی حلقوں میں تو مسلمانوں کی آبادی 30-40فیصد اور کہیں کہیں تو اس سے بھی اوپر ہے۔مسلمانوں کو اس سلسلے میں دور اندیشی اور گہرائی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔