مسلمانان عالم اور تمام مستضعفین کا اتحاد ہی علاج ہے!

عالم نقوی

اسلام تو  اللہ کا پسندیدہ دین اور دین فطرت ہے۔ وہ نہ کل خطرے میں تھا نہ آج ہے۔ اپنے دین اور اپنی کتاب کا محافظ خود اس کا بانی اور نازل کرنے والا ہے۔ خطرے میں تو آج مسلمان ہیں جس کا سبب   اُن کا عدم اتحاد  اور باہمی افتراق و انتشار  ہے اور جس کی وجہ سے  نہ صرف اُن کی ہوا اکھڑی ہوئی ہے بلکہ  وہ ’اَہلِ ایمان کے دائمی دشمنوں ‘کے علاوہ ابلیس کے چُھٹ بَھئیے پیَروکاروں کے لیے بھی نر م چارہ بنے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز سمیت آج پورے وسطی، مغربی اور جنوبی ایشا میں  مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اُس کا سبب یہی اُن کا  عدمِ اِتحاد اور جِدالِ باہَم ہے۔

اسلام صرف زبان سے کہنے کی چیز  نہیں نہ محض کسی خاص وضع قطع، لباس اور حلُیے کا نام ہے۔ اسلام تو اُس کردار کا نام ہے کہ مشرکین مکہ کی طرح  دشمن بھی جس کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پائے۔ اسلام بے حسی اور خود غرضی کا نام بھی نہیں۔ اسلام وہ ہے جس کا اظہار ان لفظوں میں کیا جا سکے کہ :

مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا

مجھے کیا دبا سکے  گا کوئی ظلمتوں کا پالا

مجھے فکر ِاَمن ِ عالَم،تجھے اپنی ذات کا غم

میں طلوع ہورہا ہوں، تو غروب ہونے والا !

یعنی وقت اور دنیا کے تمام مسائل کا علاج نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام مستضعفین فی ا لا رض کا اتحاد ہے۔ اس کے بغیر ظالمین ِعالم کی سرکوبی ممکن نہیں۔

 آج   خود کو مسلمان  کہلانے والوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ جہاں جہاں  وہ اپنی اکثریت کے باعث ( یاد رہے کہ اپنے کردار و عمل کے باعث نہیں ) خود بر سر اقتدار ہیں وہاں کی اقلیتیں امن و سکون سے محروم ہیں۔سیریا اور یمن، پاکستان و افغانستان، عراق و لیبیا، بحرین و سعودیہ،امارات و نائجیریا  وغیرہ  میں کیا ظالم و مظلوم  اور قاتل و مقتول سب ایک اللہ ایک  رسول ﷺ اور ایک  ہی کتاب  کے ماننے والے نہیں ؟  لیکن چاہتے یہ ہیں کہ میانمار، بھارت ، یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں مسلمان  اقلیت میں ہیں وہاں کی اکثریت اور حکمراں انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھائیں !

یہ دنیا ویسے بھی عالم ِاَسباب ، دارُ العمل اور دارُ ا لاِ متحان  ہے یہاں جَو بو کر گیہوں کاٹنے کی اُمید رکھنے والے اَحمقُ الَّذین کہلاتے ہیں۔

 کیوں ہوئی ہے اتنی ارزانی ہمارے خون کی ؟

اپنی عظمت کس نے اپنے ہاتھوں سے مدفون کی ؟

جبر کی تصویر کوئی نیل کا فرعون ہے

’بے عصا‘ مُرسی کے لب پر ’اَنتم ا لا علون ‘ہے!

رو رہے ہیں دیکھ وہ ’اکبر ؔ‘ کے بچے زار زار

دیکھ !لے آیا کہاں ہم کو ہمارا انتشار!!

کانپتی تھی ’سلطنت ‘تیرے خرام ناز سے

آہ تو ڈرتا ہے اب ناقوس کی آواز سے !!

اے جنید ؔو اکبرؔ و اخلاق ؔو پہلوؔ کے لہو !

یاد رکھ اللہ کا فرمان ہے ’لا تقنطوا ‘!!

یا امیر کارواں  بیدار کُن، بیدار باش!

اَز فریب ِ ’بُت فروشان ِ حرم ‘ہشیار باش !!

رہبر معظم خؒامنہ ای نے  ہر سال کی طرح اِمسال بھی اپنے پیغام حج میں، جو آج (۲۰ اگست ۲۰۱۸ کو) میدانِ عرفات میں پڑھ کے سنایا گیا، صد فی صد درست فرمایا ہے کہ:

’’ہمیشہ اور ہر سال اس مقام پر اور ایک خاص وقت پر حج اپنی زبان ِ گویا اور صریحی منطق سے مسلمانوں کو ’اتحاد‘ کی دعوت دیتا ہے اور یہ دشمنان اسلام کی خواہش کے بالکل بر عکس ہے جو تمام اَدوَار میں اور خاص طور پر دورِ حاضر میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مدّ ِ مقابل محاذ آرا ہونے کی ترعغیب دلاتے  رہتے تھے اور آج بھی وہی کر   رہے ہیں۔ آج آپ مُستَکبِر اور جرائم پیشہ امریکہ کا رویہ دیکھئے !اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اس کی اصلی پالیسی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔ اس کی خباثت آمیز خواہش اور کوشش مسلمانوں کا ایک دوسرے ہی کے  ہاتھوں قتل عام کرانا اور ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دینا اور با لجبر  مسلط رکھنا،ظالموں کی پشت پناہی کرنا اور ان کے ہاتھوں مظؓلوموں کی بے رحمی سے سرکوبی کرنا اور اس  ہولناک فتنے کی آگ کو ہمیشہ شعلہ ور رکھنا ہے۔ مسلمان ہوشیار رہیں اور اس شیطانی پالیسی کو ناکام بنائیں۔ حج اسی ہوشیاری کی زمین فراہم کرتا ہےاور یہی حج میں مشرکین اور مستکبرین سے اعلان برائت کا اصلی فلسفہ ہے۔ ۔حجاج کرام آپ شام، عراق، فلسطین، افغانستان، یمن، بحرین، لیبیا، پاکستان، کشمیر، میانمار اور دیگر علاقوں کے مظلوموں اور امت اسلامیہ کو اپنی دعاؤں ہر گز فراموش نہ کریں۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ امریکہ، دیگر مستکبرین عالم، اور ان کے آلہ کار لوگوں کے ہاتھ کاٹ دے۔ ‘‘

تبصرے بند ہیں۔