مسلمانان ِ برما کے نام مفکر اسلام علی میاں ندویؒ  کا پیغام

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت میں اللہ تعالی نے خوبیوں اور کمالات کو جمع فرمادیا تھا،خلوص وللہیت، جذبۂ دروں وفکرمندی ود ل سوزی، امت وملت کے تئیں بے چینی وبے قراری آپ میں بسی ہوئی تھی۔اللہ تعالی نے آپ کو دعوتِ دین کا غیر معمولی جذبہ عطافرمایاتھا اور وسعتِ فکر ونظر سے نوازاتھا،قوموں کے عروج وزوال پر آپ کی گہری نظر تھی، انسانی تاریخ کے نشیب وفراز سے آپ بخوبی واقف تھے،قرآنی آیتوں اور احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کو بالخصوص فرضِ منصبی سے آگاہ کرنے اوربحیثیت ِ مسلمان ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو نبھانے کے سلسلہ میں آپ کی بہت کوششیں اورفکریں رہی ہیں، ہر مجلس میں، ہر بیان میں اور دنیا کے ہر کونے میں آپ نے امت کو دعوتِ دین کی عظیم ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا،اور اس سے غفلت برتنے پر آنے والے سنگین نتائج سے باخبر کیا۔

کوئی  بزم ہو، کوئی انجمن، یہ شعار اپنا قدیم ہے

  جہاں روشنی کی  کمی  ملی  وہیں ایک چراغ جلادیا

    جب سے برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کا نہایت الم انگیز سلسلہ شروع ہوا، اور کمزور انسانوں کاوحشیانہ انداز میں قتل ِ عام کیا جانے لگاتو اس ضمن میں واٹس ایپ وغیرہ پر مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کے برما میں آج سے تقریبا ۵۷ سال قبل کئے گئے بیان کا کلپ بھی گشت کرنے لگا۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت مفکر اسلام ؒ نے برما کے مسلمانوں کو اپنی جن ذمہ داریوں کے اداکرنے کی طرف بھرپور توجہ دلائی وہی فکر آپ نے دنیا کے ہر خطہ میں موجود مسلمانوں کو بھی دی،سوئے ہوؤں کو جگایا،جاگے ہوؤں کو کام پر لگایا،ایک حرارت،کیفیت، بے چینی اور فکرمندی کے جذبات کو ابھارا۔ 1960ء میں آپ نے برما کا سفر کیا تھا اورتقریبا ایک ماہ سے زائد قیام کے دوران بیسیوں تقریریں وہاں فرمائی،اور ہر تقریر میں آپ نے وہاں کے مسلمانوں کو جھنجھوڑااور نعمت ِ اسلام کی قدردانی اورتعلیماتِ اسلام کے تحفظ کی طرف متوجہ کیا۔آپ کے ان بیانات اور خطبات کا مجموعہ’’تحفہ ٔ برما‘‘ کے نام سے چھپا ہوا بھی ہے۔دراصل برما میں کی گئی تقریریں صرف برمی مسلمانوں کے حد تک ہی اپنی اہمیت رکھنی والے نہیں ہیں بلکہ ان تقریروں میں جو پیغام اور سبق دیا گیا وہ دنیا کے ہر مسلمان کے لئے انمول تحفہ ہے۔

  موجودہ حالات اور بالخصوص برما میں ہونے والے بدترین مظالم میں ایک مرتبہ اس عظیم المرتبت محسن ِ ملت، مردِ درویش کے ان بیانات کوذہن ودل میں تازہ کرنے اور فکر وشعور کو بیدار کرنے کے لئے ان کی اسی کتاب’’تحفہ ٔبرما ‘‘ سے چند اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں تاکہ ایک مرتبہ پھر حرارتِ ایمانی پیداہوجائے اورامت ِ مسلمہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور دنیا کے بدلتے حالات میں اپنے فرض ِمنصبی کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے۔اللہ والوں کی دوراندیش نگاہیں اور ان کی باتوں سے ہر دور میں ہر جگہ کے مسلمان اور انسان فائدہ اٹھاسکتے ہیں، مفکر اسلام ؒ کی تمام کتابوں اور خطبات وتحریروں میں ملت کے لئے سبق اور پیغام ہوتا ہے، تحفہ ٔ برما بھی آپ کے دل ِ دردمند کا شاہکار ہے، اس کی سطر سطر سے آپ کے دلی بے قراری اور مسلمانوں کے ایمانی مستقبل کے بارے میں فکرمندی جھلکتی دکھائی دیتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ درد میں ڈھل کر دل وجان کو تڑپارہے ہیں اور غفلت کا شکار مسلمانوں سے اپیل کررہے ہیں اپنے ایمان وعقیدہ کی فکر اور حفاظت کے لئے کمر بستہ ہوجائیں، دنیا کا کوئی خطہ اسلام کے خلاف سازشوں سے خالی نہیں ہے، آئے دن اسلامی تعلیمات، اسلامی قوانین اور اسلامی تہذیب پر پابندی لگانے کی منصوبہ بند کوششیں کی جارہی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہر فردِ امت کو کیاکرنا چاہیے وہ آپ کو ان خطبات میں ملے گا،مسلمانوں کی صرف مادی ترقی اور دنیوی تیز گامی سے خوش نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ اصل چیزمسلمانوں کا ایمانی رشتہ ہے کہ وہ کتنا مضبوط ہے اور کتنا کمزور؟اس بنیاد پر مسلمانوں کی کامیابی اور ترقی کے حقیقی فیصلے کئے جاسکتے ہیں اور روشن مستقبل کے بارے میں اطمینان کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ عمومی افادہ کے لئے آپ کی صرف اسی ایک کتاب ’’تحفہ ٔ برما‘‘ کے بہت مختصر چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں، جس کے مخاطب اصل تو برمی مسلمان تھے لیکن اس کا پیغام دنیا کے ہر مسلمان کے لئے برابر ہے۔

ابتدامیں مرشد الامت حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی مدظلہ نے لکھا ہے کہ:حضرت مولانا ؒ نے جب وہاں کا سفر 60-61ء  یں کیااس وقت وہاں مسلمانوں کے معاشرہ کو دیکھنے کا موقع ملااور اس میں زندگی کوصحیح دینی اور سماجی راہوں پر قائم رکھنے میں بڑی کوتاہی محسوس کی،چناں چہ انہوں نے اپنی تقریروں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی اور فرمایاکہ حال مادی لحاظ سے بہت بہتراوراعلی نظر آتا ہے لیکن یہ مستقبل کی سلامتی اور بہتری کی علامت نہیں بن سکتااگر زندگی کو دینی اور اخلاقی قدروں کا پابند نہیں کیا گیا اور قوموں کے عروج وزوال کے اسباب کوسامنے نہیں رکھا گیا،تویہی خوش حال معاشرہ ناکامی اور سخت نقصان اور خسارہ کاشکار ہوگااور پھر مسلمانوں کا یہاں رہنا مشکل ہوجائے گا،اس وقت مسلمانوں نے اس بات کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی اور صرف اس کو ایک نصیحت اورخیر خواہی کی بات قراردی۔ ۔

بہرحال حالات کا جو تسلسل ہوا اس میں حضرت مولانا ؒ نے جن باتوں سے ڈرایاتھابہت کم مدت میں وہ سامنے آئیں، اور بڑے بڑے تاجروں کو قلاش ہوکر ملک چھوڑنا پڑا،اورہندوستا ن اور دوسرے ملکوں میں پناہ لینی پڑی،اس وقت ملک بدر ہونے والے مسلمانوں نے مولانا کی تقریروں کو بہت یاد کیا،او ر ان کی اہمیت تسلیم کی،لیکن یہ بعد ازوقت تھا،جس کو آئندہ کے حالات پر منطبق کرکے دیگر ملکوں کے مسلمان فائدہ اٹھاسکتے تھے۔‘‘اور خود حضرت مفکر اسلام ؒ نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ:ہمارے آنے کے کچھ عرصہ کے بعد وہاں فوجی انقلاب ہوا،اورکمیونسٹ حکومت آگئی اور وہ سب پیش آیاجس کا خطرہ ان تقریروں میں ظاہر کیا گیا تھااور کو کسی کشف یا خارق عادت چیز پر مبنی نہیں تھا،قرآن مجید کے تھوڑے بہت فہم اور تاریخ کے مطالعہ نے اس کی طرف رہبری کی تھی، لوگ اب ان تقریروں کے ریکارڈسنتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں۔ ‘‘( کاروانِ زندگی:1/459)

 حضرت مفکر اسلام ؒ نے اپنی ایک اہم تقریر میں فرمایاتھاکہ:معلوم نہیں اللہ کے وہ کون مقبول بندے تھے، جو اس ملک میں آئے اور جن کی بدولت آج تم مسلمان ہو،ہم کو تم کو شکر کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ذریعہ بنا،اللہ نے ہم کو ایمان کی دولت نصیب فرمائی،اس دولت کوقائم رکھنا،اس دولت کو پھیلانا،اور باقی رکھنااور آئندہ آنے ولی نسلوں تک اس کو دولت کو منتقل کرنا تمہارا فرض ہے،بیشک کھاؤ،پیو،بیشک دکانیں کرو،بیشک خوب کماؤاور تجارت کرو،کوئی تم کو نہیں روکتا،لیکن تمہارا پہلافرض یہ ہے کہ اپنی اولاد کو اس تہذیب کا وارث بناؤ،اپنی اولاد کو توحید کا وارث بناؤ،ان کو اسلامی تعلیم دو،ان کو اللہ اور رسول کی پہچان کراؤ،توحید کی محبت ان کے دل میں بٹھاؤ،اسلامی تہذیب سے عشق اور اسلامی تہذیب سے وابستگی اور اسلامی تہذیب سے شیفتگی ان کے اندر پیداکرو،ان کو بتاؤ کہ اسی پر جینابھی ہے، اسی پر مرنا بھی ہے۔‘‘

 ایک تقریر میں فرمایا:میں آپ سے کہتاہوں کہ برمی خصوصیات اپنے اندر خوشی سے پیداکیجیے،زبان سیکھئے،بچوں کو پڑھائیے،اپنا حصہ رسدی حاصل کیجیے،ملک کے ایڈمنسٹریشن میں اپنے شایان ِ شان حصہ لیجیے،لیکن ساتھ ہی ساتھ داعی بھی رہو،مومن بھی رہو،توحید کا اعلان بھی کرتے رہو،اور پیغام پہنچانے والے بھی بنو۔آپ کا مقام متبع کا مقام نہیں، مقلد کا مقام نہیں۔ آپ کا مقام امام اور پیشوا کا مقام ہے،آپ کا اس دیس میں جیسا باقی رہناضروری ہے اسی طرح ایمان بھی باقی رہے،توحید بھی باقی رہے، فکر ِ آخرت بھی باقی رہے،تمام برمی باشندوں کے متعلق خداکے یہاں آپ سے سوال ہوگاکہ اللہ نے آپ کو سینکڑوں برس اس ملک میں باقی رکھا،لیکن حضرت ابراہیم کی دعوت اور آپ کا دین کیوں آپ کے اندر محدودرہا، اس کو پھیلنااوروسیع ہونا چاہیے۔آپ کو اپنا عمل اس طرح پیش کرنا چاہیے کہ برمی بھائیوں کا دل آپ کی طرف کھنچے،زبان سے تبلیغ کے ساتھ ساتھ عمل بھی ایسا ہوناچاہیے کہ دوسری قوموں پر اس کا اثر ہو،آپ کا تاجر بازار میں بیٹھے تو معلوم ہو کہ مسلمان تاجر ایساہوتا ہے اور لوگوں کو شوق ہو کہ وہ آ پ کے پاس آئیں ‘‘

ایک صاحب ِ بصیرت، دوراندیش مفکر،مصلح اور مربی کی نگاہ کو دیکھئے کہ جس نے آج سے قریب ساٹھ سال پہلے لوگوں کو للکارا تھا کہ:اگر تم نے اپنے کاروبار سے وقت نکال کر کے ہدایت وتبلیغ کا اپنے اندر طریقہ پیداکیااور پھر اس کے لئے کوشش کرلی تو اللہ تعالی تمہارے انعام میں دنیا میں تم کو بہت دے دے گااور آخرت میں تم کو جنت عطا فرمائے گااور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یادرکھو تم اس ملک میں نہیں رہ سکتے،یہ میں آج سیاسی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس روشنی میں جو اللہ تعالی نے ہر مسلمان کو عطافرمائی ہے، اس روشنی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اس ملک میں تمہارا رہنا مشکل ہوجائے گا،اگر تم نے دین کے لئے خلوص کے ساتھ کا م نہ کیا اورجب وہ حالت پیداہوگی تو نہ تمہاری دکانیں محفوظ رہیں گی، نہ تمہارے کارخانے محفوظ رہیں گے۔‘‘

آگے فرمایا:یہاں ہم آپ کے ملک برما میں جو چند دن سے آئے ہوئے ہیں تم نے محسوس کیا کہ یہاں سب سے بڑی عقلمندی کی بات اور سب سے زیادہ ضروری اورپہلاکام جو وقت کا تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں دین کے لئے محنت کرلو۔سب سے بڑی یہاں کی سیاست یہی ہے، سب سے بڑی یہاں کی نفع کی تجارت یہی ہے،سب سے بڑی یہاں کی حکمت یہی ہے، معرفت یہی ہے کہ اس ملک میں ایک مرتبہ طے کرلو کہ دس بیس برس اسلام کو پھیلاناہے اور یہاں مسلمانوں کے عقیدے اور اسلام کی حفاظت کرنی ہے، اگر آپ کا یہ برما بدھسٹ اسٹیٹ بن گیا تو تمہاری ذمہ داریاں کتنی بڑھ جاتی ہیں، ابھی تک شکر ہے کہ بدھسٹ نہیں ہے سیکولر ہے،خدانخواستہ بدھسٹ اسٹیٹ ہوگیا پھر اگر تم نے اپنے دین کی فکر خود نہ کی اور تم نے اپنے ایمان کو قائم رکھنے کا ارادہ اور فیصلہ نہ کیا اور یہ حالات آئے توتمہاری کوئی مددنہیں کرے گااور تم کہیں کے نہ رہو گے۔۔۔‘‘ا

گر تم نے اس میں غفلت کی تو یادرکھومیرے بھائیو!میں شاید اس وقت ہوں تمہیں یاد دلانے والااور شاید ریکارڈموجود ہوتو یا نہ ہولیکن جو تم میں سے غور سے سنے گاوہ میری باتیں یادکرے گا میں کوئی صاحب ِ فراست آدمی نہیں ہوں، کوئی روشن ضمیر آدمی نہیں ہوں، کوئی بزرگ نہیں ہوں، جن کو مثلادس برس پہلے اللہ کی طرف سے کوئی بات دکھائی جاتی ہے، لیکن یہ بات اتنی موٹی ہے اتنی کھلی ہے جیسے بارش دیکھے،کڑک سنے ہواٹھنڈی چلے اور وہ کہے کہ بارش آنے والی ہے، پانی برسنے والا ہے،اورپانی برس جائے تو اس کو کوئی ولی نہیں مانتا یہ توبچہ بھی سمجھ سکتا ہیکہ بارش آنے والی ہے،اس طریقے سے میں آپ سے کہتا ہوں کہ سخت دن آنے والے ہیں، خداکے لئے اس وقت اپنے کاروبار کو اتنی اہمیت نہ دو جتنی اہمیت دیتے رہے ہو،اس وقت دین کے کچھ کرلو،صورپھونک دوایمان کا، توحید کا، رسالت کا، ایک مرتبہ برما کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اسلامی تہذیب دینداری اور توحید کا صور پھونک دو،ایک ایک مسلمان کو اچھی طرح باخبر کردو،ایک ایک کا ہاتھ پکڑکر کہو کہ یہ دین اور یہ ایمان ہے، یہ کفر ہے یہ شرک ہے۔‘‘

 ’’آج مسلمان موم ہورہا ہے، موم کی ناک کی طرح ہر مڑنے اور جھکنے کے لئے تیار ہے، اس کو تو بنادو فولاد، اورغیر مسلم جس کا دل لوہے اور پتھر کی طرح ہورہا ہے اس کو کردونرم بس اگر یہ دوکام کرلو کہ مسلمان ہوجائے فولاد اور غیر مسلم ہوجائے موم، اورجب وہ اسلام قبول کرے اس کو بھی فولاد بنادو،اب فولاد ہی فولاد، اور جہاں فولاد ہی فولاد ہو کس کی مجال ہے کہ اس کی طرف نظر اٹھاکر دیکھ سکے۔ مسلمانوں کو ایمان پر پختہ کرنا اور غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنادوہی کام ہیں۔ یہ کام اگر تم نے کرلیا تو اپنے اوپر احسان کروگے کسی دوسرے پر یا اسلام پر احسان نہیں۔ ‘‘

 اللہ تعالی ان مفکرانہ باتوں پر ملت ِ اسلامیہ کو عمل کی توفیق عطافرمائے، حفاظت ِ اسلام کے سامان مہیاکرے، اور ملت کے اس عظیم محسن کو جزائے خیر دے۔آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔