مسلمانوں اورسیکولر زم کی اصل آزمائش یوپی کا اسمبلی انتخاب

ڈاکٹراسلم جاوید
اس وقت ملک گیر سطح پر ہر زبان پر یہی چرچا عام ہے کہ یو پی اسمبلی انتخابات میں کون سی پارٹی بازی مار نے میں کامیاب ہوگی اورکس جماعت کو ہزیمت و پسپائی سے دوچار ہونے پڑے گا۔1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد یوں تو اتر پردیش میں کانگریس اور بی جے پی کیلئے اقتدار تک پہنچنے کے سبھی راستے بند ہوچکے تھے ۔مگر2014کے عام انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کو ملنے والی ناقابل یقین کامیابی نے بی جے پی کے حوصلے میں زبردست اضافہ کردیا۔اس کے بعد سے سنگھ پریوار اندرون خانہ اتر پردیش میں مسلسل سرگرم ہے اور یہ کوشش کررہی ہے کہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 2ماہ سے بی جے پی کے قومی صدر اوردوسرے ریاستی لیڈران اس بات کیلئے جی جان لگائے ہوئے ہیں کہ کسی طرح بھی یو پی اسمبلی پر بھگوا پرچم لہرانے میں انہیں کامیابی حاصل ہوجائے۔اس کیلئے موقع و محل کے اعتبار سے ہر قسم کی چالیں چلنی شروع کردی گئی ہیں۔کہیں ترقی اور وکاس کی بات کی جاتی ہے تو کہیں مذہبی منافرت کے ذریعہ پولرائزیشن کا فائدہ اٹھانے کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے۔گزشتہ سال ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بڑے تجزیہ نگار اورصحافی وید پرتاپ ویدک نے کہاتھا کہ’’انتہائی چالاکی کے ساتھ بی جے پی نے پارٹی کے اندر دوگروپ تیار کرلیا ہے۔ایک گروپ ترقی اور وکاس کے ساتھ جمہوریت اوررواداری کی بات کرتا ہے،جبکہ دوسرا گروپ ہندوتوا ایجنڈے پرباربار شرانگیزی پھیلانے کی ذمہ داری نبھا تا ہے۔میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ بی جے پی اورسنگھی طاقتیں صرف اقتدار کی بھوکی ہیں اوراس کیلئے مذکورہ دونوں چیزوں میں سے جس کی جہاں ضرورت پڑتی ہے اس کا وہاں استعمال کرتی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی ،امت شاہ،راج ناتھ سنگھ اور ان جیسے دیگر لیڈران کی زبان پر’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے نعرے ہوتے ہیں،جبکہ سادھوی نرنجن جیوتی،ساکشی مہاراج ،سادھوی پراچی اوریوگی آ دتیہ ناتھ جیسے لوگوں کو ریاست کی پر امن فضا میں نفرت کی فصل اگانے کی کھلی چھوٹ دیدی جاتی ہے۔اب اتر پردیش اسمبلی انتخابات کا نمبر ہے اور کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی ہوکر ہی گزرتا ہے۔ایسی صورت حال میں فاشزم کو شکست فاش دینے اور ملک کی روادارانہ گنگاجمنی تہذیب کے ساتھ امن و مان کی فضا بحال رکھنے کیلئے سیکولر جماعتوں کو کیا کرنا چاہئے یہی اس وقت کا سب سے بڑا سوال ہے اور اتر پردیش میں بڑی جماعت کہلانے والی سماجوادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو اپنے سیکولر دوست ہونے کا ثبوت دینے کا یہی سب سے اہم اور حساس موقع بھی ہے۔اگر اس غنیمت موقع کو ریاست کی اکھلیش سرکار اور اہم اپوزیشن بی ایس پی نے گنوادیا تو یاد رکھئے کہ بی جے پی کو بغیر کسی مشقت کے اقتدار تک پہنچنے کی راہ مل جائے گی اور اس کے بعد کف افسوس ملنے کے سوا سیکولرزم کے دعویداروں اورمحافظوں کے پاس کوئی بھی راہ نہیں بچے گی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس پر مہدی عینی نے بجا لکھا ہے’’ ریاست میں1980 تک ہرپارٹی کاSLOGANسیکولرزم اور جمہوریت ہی تھا،لیکن راشٹریہ سیوک سنگھ کی سیاسی تنظیم بی جے پی کے وجود میں آ نے کے بعد پورے ملک خصوصاً اتردپردیش کی سیاست اکثریت بنام اقلیت اورہندو بمقابلہ مسلم کی جانے لگی،دیکھتے ہی دیکھتے اس سیاست نے اوچھااورگھٹیاروپ دھارلیا، ہندوتوا بی جے پی کانشان وامتیازبن گیاتوجمہوریت دیگر پارٹیوں کی لونڈی بن گئی‘‘،بابری مسجد کی شہادت ہوئی،یوپی سے آستین کاسانپ کانگریس اورکھلادشمن بھارتیہ جنتاپارٹی کا صفایاہوا،کارسیوکوں پرگولی چلواکر ملائم سنگھ ‘‘ملا ملائم’’ہوگئے اورجستہ جستہ اسی کو اپنا انتخابی منشور بناکر مسلمانوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرکے اپنی پارٹی کو اترپردیش کی ریڑھ کی ہڈی بنانے میں کامیاب ہوگئے،دوسری جانب دلت مسلم تھنک پر کام کرتے ہوئے کانشی رام و مایاوتی نے یوپی میں اپنے پیر جمالئے،کبھی پوزیشن تو کبھی اپوزیشن میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماجوادی پارٹی کایہی سلسلہ گزشتہ 25برسوں سے چل رہاہے،مگر اس وقت منظر نامہ کچھ اور ہے۔ مسلم یادو کارڈ کھیل کراقتدار کو لونڈی بنا لینے والی سماجوادی پارٹی تن تنہا انتخابی میدان میں اتر کر بازی مار لے گی ایسا سوچنا دیوانے کا خواب ہوگا ،وقت انتہائی کم ہے اور برسر اقتدار جماعت ابھی تک ایسا کوئی بھی مثبت فیصلہ لینے میں کامیاب نظر نہیں آ تی جس سے یہ پتہ چل سکے کہ سماجوادی پارٹی بی جے پی کو روکنے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہے۔اس نے ماضی قریب میں بی جے پی کودھول چٹانے والے بہار کے عظیم اتحاد سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے اور کہیں سے بھی یہ مژدہ سننے کو نہیں مل رہاہے کہ سماجوادی پارٹی فاشزم کیخلاف ناقابل تسخیر محاذ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔سماج وادی پارٹی نے اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے جس سے پتہ چلتا ہوکہ وہ بی جے پی کو روکنے اورریاست کو فسطائیت کے چنگل سے بچائے رکھنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔کچھ دنوں پہلے ہی وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بڑے اتحاد کا اشارہ دیا تھا ،نیز ان کے چچا اور ایس پی کے جنرل سکریٹری اور اتر پردیش کے محکمہ تعمیرات عامہ کے وزیر شیو پال سنگھ یادو نے بھی مہا گٹھ بندھن کی بات کی تھی۔ مگر بہت ہی جلدیہ کہہ کر پیر کھینچ لئے کہ کوئی جماعت اس موضوع پر سنجید گی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔حالاں کہ شیوپال یادو نے کہا تھا کہ ’’یوپی میں مہاگٹھ بندھن بن سکتا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے ایس پی کسی سے بھی سمجھوتہ کر سکتی ہے، تاہم اس پر حتمی فیصلہ پارٹی صدر ملائم سنگھ یادو ہی کریں گے۔‘‘مگر نیتا جی پر بھروسہ کرنا سیکولر پارٹیوں کیلئے ٹیڑھی کھیر ہے،اس کا ثبوت انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے ہی دے دیا تھا۔جب جنتال دل متحدہ،راشٹریہ جنتا دل ،جنتا دل سیکولر اوردیگر چھوٹی پارٹیوں نے مہاگٹھ بندھن تیار کرنے کیلئے حتمی فیصلہ کرلیاتھا اوراس کی قیادت کیلئے لائحہ ترتیب دینے کی ذمہ داری ملایم سنگھ یادو پر چھوڑ دی تھی۔مگر عین انتخابات سے چند روز پہلے ہی مہاگٹھ بندھن کو سب سے پہلے ملایم سنگھ یادو نے ہی مسترد کردیا۔ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ سماجوادی پارٹی اتر پردیش کو فسطائی قوتوں سے بچانے کیلئے کوئی مثبت قدم اٹھائے گی۔ابھی چند دنوں سے میڈیا کے درمیان یہ خبر گردش کررہی ہے کہ مایاوتی کی بی ایس پی اورکانگریس پارٹی کوئی بڑااتحاد تشکیل دینے کی تیاری کررہی ہے۔اگر یہ ممکن ہوسکا تو یوپی کے تباہ حال اور نفرت انگیز ماحول میں فرقہ پرستوں کے تشدد کا نشانہ بننے والے مظلوموں کیلئے انتہا ئی مفید رہے گا۔اس میں شبہ نہیں کہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کا متبادل بی ایس پی ہے اور جس قدرسماجوادیبدنام ہورہی ہے اسی قدر بی ایس پی کو فائدہ مل رہا ہے۔ یہاں مسلمانوں کا ووٹ 20فیصد ہے اور اس کا اکثر حصہ سماج وادی پارٹی کو جاتارہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ محض8فیصد آبادی والی یادوبرادری سے آنے والے ملائم سنگھ کی پارٹی کویہاں جیت مل جاتی ہے۔ اس وقت مسلمان ایس پی سرکار سے خوش نہیں نظر آتے اور وہ بی ایس پی کی طرف میلان رکھتے ہیں، ایسے میں مسلم ووٹ کو پکا کرنے کے لئے مایاوتی کو مثبت اور ٹھوس فیصلے لینے ہوں گے۔سناہے کہ مایا وتی کانگریس کے علاوہ ایم آئی ایم سے اتحاد کے راستے پر چل رہی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں بہوجن سماج پارٹی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اتحاد پرکا فی دنوں تک چرچا گرم رہی ہے۔اگرچہ یہ ساری باتیں ابھی قیاس اور امیدوں تک محدود ہیں ۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کومعمولی سمجھ کرنظرانداز کرنا کبھی کبھی بھاری نقصان کا باعث بن جا یا کرتا ہے۔ایک معمولی چیونٹی بسا اوقات ہاتھی کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ سماجوادی پارٹی یا بی ایس پی اپنی انا سے ہٹ کرریاست کے سیکولرزم کو بچانے کی فکر کریں اوراس کیلئے چھوٹی یا بڑی کسی بھی جماعت سے ہاتھ ملانے میں جھجھک نہیں ہونی چاہئے۔اتر پردیش کا آئندہ اسمبلی انتخاب صرف سیکولر جماعتوں کیلئے ہی سوالیہ نشان نہیں ہے بلکہ یہ انتخاب مسلمانوں کو ماضی تجربات سے فائدہ اٹھاکر مستقبل کی تعمیر کیلئے کوئی مثبت منصوبہ سازی کی دعوت دیتا ہے۔اگر پورا سیر نہیں تو ہم پاسنگ کی حیثیت یقیناًرکھتے ہیں ۔اگر اتر پردیش کے مسلمانوں نے تقسیم کی سازش سے خود کو محفوظ رکھ کر ان سیٹوں پر جہاں ان کی تعداد فیصلہ کن مقدارمیں ہے وہاں اتحاد کا ثبوت دیتے ہیں تو مسلم لیڈروں کی ایک بڑی فوج ہم اپنی نمائندگی کیلئے اسمبلی میں بھیج سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم منتشر ہوگئے اوراپنی انا کی تسکین کا سامان بن گئے تو یا درکھئے کہ ہماری رہی سہی حیثیت بھی ختم ہوجائیگی اوراقتدار پر فائز طاقتیں ہمیں فٹ بال سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیں گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔