مسلمانوں کا آپسی اتحاد کسی بھی پیشین گوئی پر بھاری پڑسکتاہے

اترپردیش کا تاج

تبسم فاطمہ
یہ سوال اہم ہے کہ موجودہ فضا کو دیکھتے ہوئے اترپردیش کے مسلمان کس کے ساتھ جائیں گے کانگریس ،ایس پی،بی ایس پی،تینوں آپشن مسلمانوں کے لئے کھلے ہیں۔ دراصل یہی سیاسی کنفیوژن ہے، جو بی جے پی کی جیت کے لیے راستہ تیار کرتا ہے۔ بی جے پی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ اس کی سیاست نفرت کی سیاست رہی ہے ۔پچھلے لوک سبھا انتخاب میں اسی لئے جو سیاسی اسٹریٹجی تیار کی گئی ،اس میں مسلمان کہیں نہیں تھے۔ بی جے پی کو راشٹرواد اور ہندو تو کا سہار اہے ، اس لئے اس کا مکمل یقین اکثریت کے ووٹوں پر ہے۔ اور یہ بار بار آزمایا ہوانسخہ ہے کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملتا آیا ہے۔ اگر اس بار بھی کسی ایک پارٹی سے نام پر مسلمانوں کا اتحاد سامنے نہیں آتاہے تو اس تقسیم یا بکھراؤ سے بی جے پی کی فتح کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ کانگریس ،ایس پی ،بی ایس پی کے علاوہ بھی چھوٹی موٹی سیاسی پارٹیاں ہیں جن سے انتخاب کے تنائج متاثر ہوتے ہیں۔پیس پارٹی نئے سیاسی عزائم کے ساتھ اپنے دائرے کو بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس پارٹی کا انحصار بھی دلت اور مسلم ووٹوں پر ہے۔ اسدالدین اویسی کے معاملات بھی پہلے کی طرح نہیں ہیں۔ بہار میں شکست کے باوجود پارٹی کے حوصلے بلند ہیں۔ مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخاب میں ملنے والی کامیابی کا اثر اترپردیش کے اسمبلی انتخابات پر کتنا ہوگا۔ یہ کہنا مشکل ہے۔ اویسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کس حدتک ووٹ بینک میں تبدیل ہوگی، اس پر ابھی کوئی رائے نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ موجودہ سیاسی حالات اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے ایک طبقے نے امید بھری نظر وں سے اویسی کی طرف دیکھنا شروع کردیاہے۔ لیکن اترپردیش کی سیاست میں اویسی اپنے دم پر کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے ۔ اب یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر وہ اتحاد ی کردار میں آنا چاہیں تو کس پارٹی کے ساتھ جاسکتے ہیں بی جے پی کے ساتھ ساتھ اویسی، کانگریس اور سماجوادی کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس لیے ان دونوں پارٹیوں میں شامل ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔
شیوپال یادو نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اتحاد کا اشارہ ضرور دیا تھا،لیکن اکھلیش یادو کو دوسری پارٹیوں سے اتحاد منظور نہیں ہے۔ اکھلیش کو امید ہے کہ ان پانچ برسوں میں عوام کی بھلائی کیلئے جو کام انہوں نے کیا ہے، اس کا فائدہ پارٹی کو ملے گا۔مگر اکھلیش یہ بھول رہے ہیں کہ بہار ہو یا اترپردیش ،یہاں ذات پات کی سیاست اس قدر حاوی ہے کہ ووٹ کام سے نہیں بلکہ سوشل انجینئرنگ سے ملتا ہے۔ بی جے پی سوشل انجینئرنگ کی اسٹریٹجی کے ساتھ ہندوتو کو بھی شامل رکھتی ہے ۔ بہار اور دلّی کو چھوڑ دیجئے تو اس کا فائدہ اسے لگاتار ملتا رہاہے۔ آسام میں بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ ہی کام آئی تھی۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ سماجوادی کی آپسی خانہ جنگی اور رسہ کشی نے اترپردیش کے عوام کو کنفیوز کردیاہے۔ اصل کنفیوژن یہ ہے کہ وہ کس کو اپنا لیڈر تسلیم کریں۔ بزرگ ملائم سنگھ کو جن کی یادداشت آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی ہے ۔ چھوٹے بھائی شیوپال یادو کو ،جن کے بارے میں ،ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ سماجوادی پارٹی کی سب سے بڑی طاقت شیوپال ہیں۔ سماجوادی پارٹی میں کسی کی چلتی ہے تو شیوپال کی ۔ شیوپال یادو، امرسنگھ کو پارٹی میں لے کر آئے ۔ مخالفت کا بازار گرم ہوا لیکن ملائم سنگھ نے سب کوخاموش کردیا۔ یہ خانہ جنگی عام ہوئی تو بھری بزم میں ملائم نے اکھلیش کو ان کی حیثیت دکھاکر نصیحت دے ڈالی اور شیوپال یادو سے معافی مانگنے کو کہا۔ تنازعہ اتنا بڑھا کہ پروفیسر رام گوپال یادو کی چھٹی کردی گئی۔ مگر تازہ ترین سیاست پر نظر ڈالیے تو شیوپال یادو حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔ پرفیسررام گوپال یادو کی واپسی ہوگئی ہے۔ اکھلیش کے خیمہ میں ان کا قد بڑھا ہے۔
اس خانہ جنگی کو کچھ لوگ ملائم سنگھ کی اسٹریٹجی تصور کرتے ہیں۔ یعنی ایک سیاسی تیر سے کئی شکار اکھلیش پر لگاتار کٹھ پتلی ہونے کا الزام لگتا رہا تھا۔ ملائم نے اکھلیش یادو کی طاقت کو دکھانے کے لئے ایک سنگین ڈرامہ کھیلا۔ اس کے نتائج کی پرواہ نہیں کی۔ اکھلیش طاقتور ہوکر ضرور سامنے آئے ہیں،لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ 2017کے انتخابات میں وہ کوئی معجزہ دکھاسکیں گے یانہیں؟ مظفر نگر کے بعد بھی اترپردیش میں فسادات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بی جے پی کے بیٹی بچاؤ،بہو لاؤ، گھرو اپسی جیسے نعروں کو سب سے زیادہ اترپردیش میں ہی ہوا دی گئی اور سماجوادی پارٹی خاموش رہی۔ امرسنگھ کے آنے سے پارٹی کا اکیلا مسلم چہرہ اعظم خان حاشیہ پر چلے گئے۔ اس لئے مسلمان خیمے میں یہ کنفیوژن قائم ہے کہ سماجوادی کا ساتھ دیں یانہیں۔ اکھلیش کا اب تک کا کردار صاف ستھرا ضرور رہا ہے مگر ملائم سنگھ یادو کی بی جے پی سے نزدیکیوں کی خبروں نے مسلمانوں کو سماجوادی پارٹی سے دور کردیاہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔
27برس کے طویل عرصہ کے بعد کانگریس دوبارہ اترپردیش کی سیاست میں سرگرم ہونے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ لیکن کانگریس جانتی ہے کہ ان 27برسوں میں سیاست کا مزاج بہت حد تک بدل چکاہے ۔
آسام میں شکست بہار میں اتحادی قوتوں کی وجہ سے فتح کے بعد، کانگریس اترپردیش میں اتحاد کے سہارے ہی پاؤں جمانے کی کوشش کررہی ہے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ مسلمان طبقہ جب بی جے پی سے خوف محسوس کرتا ہے تو وہ سلامتی اور تحفظ کے خیال سے کانگریس کی طرف دیکھتاہے ۔ اس پہلو کو ریاستی سطح پر بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ سماجوادی پارٹی سے اتحاد کا کیا کوئی فائدہ کانگریس کو ہوگا؟ اس صورت میں جب کہ مسلمان سماجوادی پارٹی سے ناراض نظر آتے ہیں۔
نوٹ بندی کے تماشے کا اثر اس وقت پورے ملک میں دیکھاجارہا ہے۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اس لئے نوٹ بندی کا اثر یہاں ہونا واجب ہے ۔گجرات کے بلدیاتی انتخابات سے بی جے پی کو ملنے والی کامیابی نے ظاہر کیا کہ وہاں نوٹ بندی سے کوئی فرق عوام کے فیصلوں پر نہیں پڑا۔ لیکن یہی بات اترپردیش کے لئے نہیں کہی جاسکتی۔ فرقہ واریت کے ساتھ کانگریس اور سماجوادی کے پاس اب نوٹ بندی کا ایشو بھی ہےاس کے مضر اثرات اور قطار میں اپنے پیسوں کے لئے مرتے عوام بھی ہیں۔آگے کچھ مہینوں میں نوٹ بندی کے مسئلہ کو مودی کیا موڑ دیں گے، یہ کہنا مشکل ہے۔ روز روز نہ صرف بیانات بدلے جارہے ہیں، بلکہ نئے نئے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں لیکن اس کا اثر بی جے پی کے ووٹ بینک پر پڑے گا۔ ایک خیال یہ ہے کہ کانگریس اگرسماجوادی سے اتحاد کے لئے مجبور ہے تو مسلمانوں کی ناراضگی کا سامنا کا کانگریس کو بھی اٹھانا پڑسکتا ہے ۔ مسلمانوں کو اس بات کا بھی غصہ ہے کہ کانگریس نے کبھی ان کے لئے کچھ نہیں کیا، صرف جھوٹے وعدے کیے۔
دلتوں اور مسلمانوں کو لے کر اترپردیش میں اگر مسلسل کوئی آواز اٹھ رہی ہے تو وہ بی ایس پی سپریمو مایاوتی کی ہے۔ نوٹ بندی پر کھل کر مخالفت کرنے والوں میں بھی کیجریوال ،ممتا بنرجی، اور مایاوتی کا نام سب سے آگے ہے۔ مایاوتی کو امید ہے کہ اس مخالفت کی فضامیں مسلمان ان کے ساتھ آجاتے ہیں تو ان کی جیت پکّی ہوجائے گی۔ مایاوتی کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے کئی بار اپنے بیانات سے مسلمانوں کو ناراض بھی کرچکی ہیں۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام پارٹیوں کو مسلمانوں کا ووٹ چاہئے مگر ابھی تک کسی بھی سیاسی پارٹی نے مسلمانوں کے رزق ،کیریر اور حقوق کی کوئی بات نہیں کی ہے۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کاآپسی اتحاد کسی بھی پیش گوئی پر بھاری پڑسکتا ہے۔ مگر یہ سوال بناہوا ہے کہ کیامسلمان متحد ہوں گے۔؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔