یہاں تو کل بھی رات تھی یہاں تو اب بھی رات ہے

حفیظ نعمانی
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ مسٹر اکھلیش یادو نے لکھنؤ میں میٹرو کو چلا کر دکھانے کے بعد کہہ دیا کہ اب ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ وہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہم سماجوادی اپنے وکاس (ترقی) پر الیکشن لڑیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکھلیش پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنھوں نے بہت سنجیدگی اور لگن کے ساتھ وکاس پر توجہ کی ہے اور ان کا سب سے زیادہ زور لکھنؤ کو حسین بنانے اور لکھنؤ کو آگرہ اور دہلی سے جوڑنے اور اس طرح کے ترقیاتی کاموں پر رہا ہے۔ میٹرو ان کا سب سے اہم خواب تھا۔ ان کے ذہن میں شاید دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ مسز شیلا دکشت کی 15 سال کی حکومت تھی جو شہرت کی حد تک میٹرو کا تحفہ تھا۔ لیکن اکھلیش بابو شاید بھول گئے کہ لکھنؤ دہلی نہیں ہے، لکھنؤ میں تو صرف ۵ سیٹیں ہیں اور لوگ میٹرو سے فیض اٹھانے والے ارد گرد کے دیہاتیوں یا ان اضلاع کو بھی ملا لیا جائے جہاں سے روز لوگ لکھنؤ آتے جاتے ہیں تو سیٹوں کی تعداد 25 ہوسکتی ہے۔
شیلا جی کے سامنے تو صرف دہلی تھی وہ شہر بھی ہے اور وہی صوبہ ہے۔ جبکہ اکھلیش یادو سہارنپور سے مرزا پور تک اور چنبل گھاٹی سے گورکھپور تک سوا چار سو سیٹوں کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے بے شک بندیل کھنڈ میں تالاب بنوائے اور پانی کا انتظام کیا لیکن ضرورت اس کی تھی کہ ہر گاؤں کو اس کے قریبی شہر سے سڑکوں سے جو ڑ دیا جائے اور وہ سڑکیں ڈامر کی نہ ہوں تو کنکر کی ہی ہوں کہ آدمی سائیکل سے 10 ۔15 کلومیٹر دور بینک میں جا کر پیسے نکال لے اور شام تک سب کام کرکے گھر آجائے۔
اکھلیش یادو نے بہت دھیمے لہجے میں مودی جی کے وکاس کے بارے میں معلوم کیا ہے کہ انھوں نے کیا کیا؟ 2014ء کے الیکشن میں انہیں اترپردیش نے 73 سیٹیں دی تھیں اور انھوں نے بار بار کہا تھا کہ میں اترپردیش کو گجرات بنا دوں گا اور یہ بھی کہا تھا کہ گجرات کے معنی24گھنٹے بجلی، ہر کھیت کوپانی اور آدمی کو چین اوراگر آپ لوگوں کو یاد ہو تو یہ بھی کہا تھا کہ گجرات بنانا آسان نہیں ہے اس کے لیے 56 انچ کی چھاتی چاہیے۔ ان کی بات پر بھروسہ کرکے ان کی جھولی سیٹوں سے بھردی لیکن نہ انھوں نے بجلی دی، نہ پانی دیا، نہ چین آرام دیا بلکہ بنارس کے جس گاؤں کو گود لیا تھا وہ بھی آج ایسا ہورہا ہے جیسے وہ بچہ جس کی ماں کی چھاتی کا دودھ سوکھ جائے یا اس کی ماں کسی اور سے یاری کرلے۔ بنارس کے بنکروں کو مودی جی نے یقین دلایا تھا کہ سال بھر میں ساری دنیا میں بنارسی ساڑیاں چھا جائیں گی اور ہمارے بنکر خواب دیکھنے لگے تھے۔ لیکن ڈھائی سال کے بعد بھی وہ سب انہی گلیوں میں اپنا خون جلا رہے اور پسینہ بہا رہے ہیں اور یہ سوچ کر صبر کررہے ہیں کہ جب ماں گنگا نے ہی مودی کو بلانا چھوڑ دیا تو ہماری کیا حیثیت ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ مودی جی ہر دن ایک نیا نعرہ دیتے ہیں اور دوسرے دن اسے بھول کر کچھ اور کہہ دیتے ہیں جس کا عذاب سارا ملک جھیل رہا ہے۔
مودی جی نے نوٹوں کے ساتھ جو مذاق کیا ہے وہ ایسا مذاق تھا کہ اگر کانگریس سپا اور بسپا پیسوں کے معاملہ میں کمزور نہ ہوتے تو شاید بغیر الیکشن کے وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پرمجبور کردیتے۔ لیکن تینوں پارٹیاں خزانہ دبائے بیٹھی تھیں اسی لیے انہیں کہنا پڑا کہ فیصلہ صحیح ہے صرف طریقہ غلط ہے جبکہ فیصلہ بھی غلط تھا اور طریقہ تو اتنا غلط تھا جس کی وجہ سے 30 نومبر کو وزیر اعظم اور وزیر مالیات کو استعفیٰ دے کر اعلان کردینا چاہیے تھا کہ ہم حکومت کے قابل نہیں۔ ہم 1952سے بینک سے جڑے ہوئے ہیں۔ 70 برس میں پہلی بار سنا کہ بینک میں کیش نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ریزگاری، کپڑے اور ان چیزوں کی جو لندن سے آتی تھیں ضرور قلت تھی لیکن لائن میں کسی کو کھڑا نہیں ہونا پڑا ۔ ملک کی آزادی کے70 برس کے بعد آج اپنے ہی روپے نکالنے کے لیے صبح 4 بجے 5 بجے آکر کھڑا ہونا پڑ رہا ہے اور جو دیر میں آیا اسے No Cashکا بورڈ دیکھنا پڑا۔ ان میں افسر بھی ہیں،پروفیسر بھی، انجینئر بھی اور چپراسی بھی۔
کون کانگریسی ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہمارے لیڈروں کے پاس نمبر 2 کا روپیہ نہیں تھا؟ اور کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ سماج وادی پارٹی کا یادو خاندان صرف اس لیے فیصلہ ٹھیک کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ اس کے پاس بھی اگر مودی اور سونیا سے زیادہ نہیں تو کم روپے بھی نہیں تھے اور مس مایا وتی کی ٹکٹ کی دوکان کا ریٹ تو ہر زبان پر ہے۔ اور اسی کمزوری نے مودی کو شیر بنادیا اور وہ کہہ رہے ہیں صرف وہ مخالف ہیں جنھیں میں نے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ اور تینوں میں کوئی نہیں ہے جو کہہ سکے کہ تم نے2014ء کے الیکشن میں ایک غیر ملکی ایجنسی کے سروے کے مطابق24؍ ہزار کروڑ روپے خرچ کیے تھے اور اکتوبر 2016میں بہار میں ہر شہر میں بی جے پی کے دفتروں کے لیے کروڑوں روپے کی زمین خریدی ہیں۔ یہ وہ روپیہ ہے جو بہار کے الیکشن کے لیے آیا تھا اور خرچ ہونے سے رہ گیا تھا۔ اسے مودی جی نے اب ٹھکانے لگوادیا۔ جبکہ نوٹ بندی کا فیصلہ 10 مہینے پہلے کرلیا تھا۔
اب تو ہر پارٹی نہا دھو کر پاک ہے۔ اب تو زبان کھولنا چاہیے کہ یہ کیسی حکومت ہے جسے دو مداری ڈگڈگی پر نچا رہے ہیں اور ثابت کررہے ہیں کہ وہ صرف وزیر اعلیٰ بننے کے قابل ہیں۔8؍ نومبر سے اب تک نہ جانے کتنی بار تھوک چکے اور کتنی بار چاٹ چکے ہیں۔ سب سے پہلے صرف تین دن کے لیے پرانے نوٹ بدلنے کا موقع دیااورکہا کہ 4 ہزار پرانے نوٹ دے کر بدل لو۔پھر اسے ساڑھے چار ہزار کردیا، کوئی نہیں بتا سکتا کہ ۵ سو سے کیا فرق پڑا۔ پھر اسے گھٹا کر 2 ہزار کردیا۔ یعنی 4 کے بعدساڑھے چار اس کے بعد 5۔ 10 ہونا چاہیے تھا لیکن2 کردیا اور یہ نہیں سوچا کہ گھنٹوں لائن میں لگ کر دو ہزار کمائے نہیں صرف تبدیل کیے ہیں؟
کہا گیا کہ 24؍ نومبر تک پرانے نوٹوں کو سرکاری محکموں میں اور پٹرول پمپ پر لیا جائے گا۔ پھر 24؍ کو کہا کہ 30 نومبر تک لیا جائے گامگرہزار کا نوٹ صرف بینک میں جمع ہوگا۔ اس کے بعد 30؍ آئی تو کہا 15 ؍دسمبر تک اور اب کہہ دیا کہ 2؍ دسمبر تک ۔70 برس میں کئی سرکاریں آئیں اور گئیں کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی ایک نے بھی مداری کی طرح ڈگڈگی بجا کر سواسو کروڑ کو نچایا ہو؟
مودی جی نے کالا دھن آتنک واد اور بھرشٹا چار کی مالا جپنا اپنا مشن بنالیا ہے جو کسی بھی طرح کی مخالفت کرے اس پر الزام لگتا ہے کہ وہ ملک کو ان بیماریوں سے پاک نہیں کرنا چاہتا جبکہ ان تینوں بیماریوں سے دنیا کا ہر ملک جوجھ رہا ہے۔ ا مریکہ، روس، چین، فرانس، یورپ اور افریقہ کون ہے جہاں یہ بیماری نہیں ہے۔بلیک منی کا علاج مودی جی نے نوٹ بندی سے کیا اور2 ہزار کے نوٹ چھپوائے۔ بار بار اعلان ہوچکا ہے کہ ان نوٹوں کی نقل آسان نہیں ہے یعنی کوئی دشمن ملک نقلی نوٹ چھاپ کر ہماری معیشت کو تباہ نہ کرسکے گا۔آج کی ہی خبر سب نے پڑھ لی ہوگی کہ پنجاب کے موہالی میں صرف 21 سال کے ابھینو ورما اور 20 سال کی وشاکھا ورما نے صرف ایک کمپیوٹر اورایک اسکینر کے ذریعہ دو ہزار کے3 کروڑ نوٹ نقلی چھاپ کر چلابھی دئے۔ یہ تو ملزموں کا بیان ہے، کیا خبر 10 کروڑ چھاپ کر چلادئے ہوں؟ اور کرناٹک میں ایک انجینئر کے گھر انکم ٹیکس کی ٹیم نے چھاپا مار کر دو ہزار کے نئے نوٹ پکڑ لیے۔ اور بینکوں میں نوکیش کے بورڈ لگے رہے اور جیٹلی یہی کہتے رہے کہ کیش کی کوئی کمی نہیں ہے۔
جب یہ کام اتنا آسان ہے تو جس پارٹی کو جتنے روپے کی ضرورت ہوگی وہ کسی نہ کسی سے لے لے گی اور جب کمپیوٹر سے نوٹ بن سکتا ہے تو وہ پاکستان جہاں چین کی اعلیٰ مشینیں لگی ہیں انھوں نے تو نہ جانے کتنے چھاپ کر سرحد پر بھیج بھی دئے ہوں گے۔
مودی جی نے یہ کھیل صرف اترپردیش اور پنجاب میں کانگریس کا صفایا کرنے کے لیے کھیلا تھا۔ وہ کانگریس جس کو حکمت کرنے میں ہی وہ اپنی زندگی سمجھ رہے ہیں اس کا دوبارہ پھن اٹھا کر کھڑا ہونا وہ برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ اور انھوں نے صرف کانگریس کو مارنے کے لیے پورے ملک کے سو کروڑ آدمیوں کو مار دیا اور ان سفید پوشوں کو بھی لائن میں کھڑا کردیا جو زندگی میں کہیں کھڑے نہیں ہوئے تھے اور انہیں بھکاری بنا دیا جو سیاسی آدمیوں کو بھیک دیتے تھے ا ور ان کی نس بندی کرادی جن کی نس بندی کی مارنے اندرا گاندھی اور سنجے کو پورے ملک سے معافی مانگنے پر مجبور کردیا تھا۔ اب وہ مودی کے ساتھ کیا سلوک کریں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔