بیداریِ ملت سے ممکن ہے اتحادِ اُمت

الحان ریحانہ بشیر
خدا تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے شرف سے مشرف کیا ہے۔ ظاہر ہے جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا فریضہ عطا کیا ہوگا تو لازمی ہے کہ اس منصب کا مستحق بننے کے لیے کچھ امتیازی خصوصیات بھی متئین کی ہوں گی۔ ورنہ مخلوق ہونے کی حیثیت سے ہر نوع مساوی ہے۔ یہ امتیازی خصوصیت انسان کو عقل و شعور، فہم و ادراک ، صحیح اور غلط میں تمیز، سچ اور جھوٹ میں امتیاز اور حق و ناحق میں فرق کی صورت ملی ہے۔ یہی انسان جب مذکورہ امتیازی خصوصیات کوبروئے کار نہیں لاتا ہے اور اپنے اس امتیازی منصب سے منہ موڑ لیتا ہے تو فرقہ پرستی مادہ پرستی،گمراہ کن عقائد اور انتشار کا جنم لینا کوئی محیر العقول بات نہیں ہے۔ اگر ہم اُمتِ مسلمہ کی بات کریں تو جس قدر ہم اپنے دین کے پابند اور متعینہ اصولوں کے علمبرردار ہوں گے، ترقی و کامرانی کے زینے طے کرتے رہیں گے اور جس قدردین سے ہمارا تعلق کمزور ہوگا ، تنگی اور بد حالی میں مبتلا ہوں گے اور مغلوبی و محکومیت ہمارا مقدر۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(ترجمہ)’’اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور صاف صاف احکام آجانے کے بعدایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن درد ناک عذاب ہوگا‘‘ (پارہ4، سورۃ آل عمران، آیت 105)
اسی آیت کریمہ کو اگر بنیاد بنا لیں تو ۶ لاکھ مسلمان فلسطین میں گرہ بندی اختیار نہ کرتے اور یہودیوں کے ہاتھوں ملک بدر نہ ہوتے۔ اسپین پر ساڑھے سات سو برس تک حکومت کرنے کے باوجود عربوں کا وہاں سے نام و نشان مٹ گیا اور وہ صرف فرقہ بندی کا ہی نتیجہ تھاجو آج بھی ہر سُو نظر آتی ہے۔
کسی بھی مسئلہ پر غور کرنے سے قبل اُ س مسئلے کے تعلق سے تمام پہلوؤں کو ذہن میں ایک خاکے کے طور پر بٹھا لیناچاہیے، خاص طور پر جب مسئلہ اُمتِ مسلمہ کے مفاد اور مستقبل سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر غور کیا جائے تو مسلمان ملکوں کو چھوڑکربقیہ تمام ممالک ہم سے بہت دور نکلے ہیں اورمختلف شعبہ جات کا جب تقابلی جائزہ لیا جائے تو مایوسی اور افسردگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
کسی ایک مسلمان ملک کی ایسی حالت نہیں کہ اُمید کی کرن دکھائی دے بلکہ سب پسماندگی کے گڑھے میں گرتے ہی جارہے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ مسلمان عوام محنتی یا ذہین نہیں ہیں مگر مغربی اعتقادات کی اندھا دھند تقلید نے مسلمانوں کو اپنے مقصد سے ہٹادیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی فاتح قوم کو پست کرنے کی غرض سے حملہ کیا گیا،سب سے پہلے اُس قوم کی عوام میں پھوٹ ڈالا جاتا ہے اور پھر اُن کے اذہان کو اُن چیزوں کی طرف مائل کیا جاتاہے جواُن سے اُن کا اصل مقصد چھین لیتی ہیں جس سے وہ اپنی اصلیت کوبھول کر اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتاہے اورہو رہا ہے۔ اخلاق و کردار میں ابتری پیدا ہوگئی،انتشار عام ہوگیا ہے، بے یقینی کی کیفیات پیدا ہوگئی ہے، آخرت فراموشی اوردنیا طلبی عام ہوگئی ، دنیوی جاہ و منصب کے لیے چھینا جھپٹی شروع ہوگئی ۔ یہ حال ہے اُس اُمت کا جنھیں ’’امرباالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ ادا کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ غرض کہ اُمت نے جب خدا کے احکامات اور اصول و قوانین کی خلاف ورزی کی تو آسمان سے ہمارے لیے فیصلے بھی اُسی نوعیت کے صادر ہوئے ہیں ، جس کا خامیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
ان سب باتوں کی طرف ہمارا ذہن کیوں نہیں جاتا ہے۔ علم کا ایک بہترین سرمایہ ہونے کے باوجود بھی ہم جاہل کیوں ہیں؟ ہم اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر حق سے اعراض کیوں کررہے ہیں؟ کیوں ہم دیوانگی اور جنون میں مبتلا ہوئے ہیں؟ کون سی چیز ہمیں غور و تدبر کرنے سے روک رہی ہے؟ کیوں ہم اقوامِ ماضیہ مثلاً قوم ہود ؑ ، وقوم نوح ؑ اور قوم فرعون وغیرہ سے نصیحت نہیں لیتے ہیں اور دنیوی مصائب سے نجات پانے کے لیے جددوجہد کرتے ہیں؟ ان سب سوالات کا یہی جواب ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی پیروی نہیں کی، ہم نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا،ہم قرآنی تعلیمات سے دور بھاگے ہیں نتیجتاًہم پر طرح طرح کی آفتیں آپڑتی ہیں۔ قرآنی تعلیمات، سنت و احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ ہونے کے باوجود بھی ہم بے کس اور بے یارو مدد گار ہیں۔
گنو ا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
ایک اورمسئلہ فرقہ پرستی کا ہے جس نے اُمتِ مسلمہ کو اپنے ساتھ بہا لیا اور بہادری و شجاعت و دلیری کی بجائے ہم میں کھوکھلے دعوے رہ گئے، اگر اُمتِ مسلمہ اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھے گی تو کہیں بھی مسلمان اپنے جائز مقاصد کے لیے ناکام نہیں ہوئے ہیں، اُمتِ مسلمہ کا ماضی بہت ہی روشن رہا ہے مگر آج ہمیں اپنے ہی حال پر پشیمان ہونا پڑتا ہے۔ اگر اُمتِ مسلمہ خود گروہ بندی کا شکار نہیں ہوتی تو کیا مسلمانوں کو جو اذیتیں دی جا رہی ہیں، اُن سے دو چار ہونا پڑتا؟ ہماری غفلت شعاری اور اپنی مذہبی تعلیمات سے روغردانی ہی ہماری بربادی اور مصائب و آلام کی جڑ ہے۔
دامنِ دیں ہاتھ سے چُھوٹا تو جمیعت کہاں
اور جمیعت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ہماری تہذیب و ثقافت مستقبل بالزات ہے اور ربانی و آسمانی خصوصیات رکھتی ہے، ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے مناسب و مفید ہے، مضبوط بنیادوں پر قائم اور کتاب و سنت سے ماخوذ و ربانی ہدایات اور نبوی تعلیمات پر مبنی ہے۔ ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ جس مغربی تہذیب کی ہم اندھا دھند تقلید کرتے ہیں، جس کی نشونما مخصوص تاریخی عوامل کے زیر اثر اور ایسے ماحول میں ہوئی ہے، جس پر مادیت کا غلبہ ہے۔ آج مغربیت ہماری رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اور اس دلدل میں اس طرح پھنس گئے ہیں کہ اگر مدد کے لیے آواز بھی دیں گے تو کوئی سننے والا بھی نہیں ہوگا کیوں کہ جس کو آواز دیں گے وہ بھی مغربی تہذیب کا پیروکار ہوگا اور اُس کو بھی یہی تعلیم دی ہوگی کہ اپنے آپ کے سوا کسی کی مت سنو، کوئی چیختا ہے تو چیخنے دو، کوئی مرتا ہے تو مرنے دو، کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو ہونے دو، غریب امیرکا نیوالا بن چکا ہے تو بننے دو، ظلم و تشدد کا بازار گرم ہے تو ہونے دو۔۔۔۔ مغربی قوتوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی نت نئی اور تحیر کن ایجادات و اختراعات سے اُمتِ مسلمہ کو اپنی تہذیب سے کاٹے جانے کا کام لیا جارہا ہے۔ The Vision Of Islam کے مترجم محمد سہیل لکھتے ہیں:
’’جدید سائنس نے جو کچھ کیا ہے وہ قرآنی تعلیمات ہی کے منطقی نشونما سے عبارت ہے۔ انسانی اقدار کی سطح پر دیکھیے تو اقوامِ متحدہ کا چارٹر قرآن وحدیث سے چربہ کیا گیا ہے۔ بیرونی اثرات اور اندرونی زوال کی وجہ سے مسلمان نے قرآنی تعلیمات کے اصل ہدف کو فراموش کردیا۔ جب مسلمان اس سے غافل ہوئے تو اہلِ مغرب نے موقع کا فائدہ اُٹھایا اور مسلمان کا پیدائشی حق اُس سے چھین لے اڑے۔ اب وقت آیا ہے کہ اسلام اپنی میراث دوبارہ حاصل کرے‘‘ ص570
اُمتِ مسلمہ نے اپنی پہنچان کھو دی ہے اور اپنی اُ س روشن تاریخ سے چشم پوشی کی ہے جس میں اُمتِ مسلمہ کی سر بلندی کے لیے جانبازوں کے کار ہائے نمایاں درج ہیں۔ مگر مغربی تہذیب ،فرقہ پرستی اور مادہ پرستی نے ہمیں دین کے تناور درخت سے اُس پتے کی طرح کاٹ دیا ہے جو مغربی یا کسی بھی بیرونی ہواکے معمولی جھونکوں سے اُڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
اب بھی وقت بگڑا نہیں ہے، اب بھی ہم وہی شجاعت ، وہی دلیری پیدا کر سکتے ہیں کہ کسی مسلمان کے خلاف اُٹھنے والی آواز کا جواب دیا جاسکتا ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں،متحد ہو کر اور قرآنی تعلیمات و دیگر سنت و احادیث کی روشنی میں اپنے اعلیٰ منصب کو پا سکتے ہیں ۔ اب بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہو کے ظالموں کو منہ توڑ جواب دیا جاسکتا ہے، تاریکی سے روشنی کا ظہور ہوسکتا ہے، سیاہ بادل کو اپنے سر سے ہٹا یا جاسکتا ہے۔
اب اُمتِ مسلمہ کی اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اپنی اسلامی تہذیب کو تخریبی اور شر پسند عناصر اور فاسد و مہلک رجحانات سے بچائے رکھیں۔ اُمتِ مسلمہ ہی آسمانی پیغام کی حامل ایک ابدی اُمت اور انسانیت کی مرکز اُمید ہے۔ اس لیے اسے اپنے پیغام کو سینے سے لگائے رکھنا چاہیے اور قافلہ انسانیت اور دنیاکی نگرانی اور عقائد و اخلاق اور انفرادی و بین الاقوامی تعلیمات پر نظر رکھنا چاہیے ۔ کیوں کہ جہد مسلسل ، دائمی مستقل احساسِ ذمہ داری،ہمہ دم قربانی کے لیے آمادگی، قوتِ افادیت و صلاحیت کی بدولت ہی قوم آگے نکل سکتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ہم اپنے منصب و مقام کو چھوڑ کر گوشۂ عافیت میں چلے جائیں گے تو ہم تاریخ کے دفترِ پارینہ کا حصہ بن جائیں گے اور زمانہ ہمیں طاقِ نسیاں پر رکھ دے گا۔ اس لیے اُمتِ مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ از سرِ نو اپنے دعوتی، تہذیبی اور قائدانہ کردار کے ساتھ سر گرمِ سفررہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔