ہنداسرائیل دوستی: کچھ باتیں ہیں بتلانے کی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
اسرائیلی صدر اس وقت بھارت آئے جب یہاں کے عوام اپنی ایمانداری کا ثبوت دینے کیلئے لائنوں میں لگے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اسرائیل سے کیا کیا معاہدے ہوئے ۔ خبروں کے مطابق اسرائیلی صدر ریووین رولن آگرہ میں منعقد ٹیکنالوجی اینڈ بزنس میلہ میں مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوئے۔ چنڈی گڑھ میں ایگروٹیک کانفرنس کا صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے ساتھ افتتاج کیا۔ اس موقع پر انہوں نے پیداوار بڑھانے کی نئی ٹیکنک پر تفصیلی روشنی ڈالی اور ٹرکوں پر سولر پینل لگانے پر زور دیا تاکہ خراب ہونے والی سبزیوں کو دیر تک محفوظ رکھا جاسکے۔ انہوں نے بھارت کو اسرائیل کا قریبی دوست بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان کئی معاملے میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پورا تعاون دینے کا یقین دلایا۔ کاروبار، سرمایہ کاری، زراعت، پانی کے وسائل اور سائبر جرائم سمیت مختلف معاملات میں تعلقات کو اور گہرا بنانے کے بارے میں اتفاق ظاہر کیا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت اسرائیل کے بیچ دوستی لمبے وقت سے بغیر رکاوٹ کے چل رہی ہے۔ یہ ایسا تعلق نہیں ہے جسے چھپانے کی ضرورت پڑے۔
کسی بھی ملک سے دوستی یا دوری اس ملک کی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ بھارت شروع سے فلسطین کا حامی رہا ہے۔ عرب ممالک سے دوستی اور روس سے نزدیکی کی وجہ سے بھارت نے اسرائیل سے اپنے قریبی رشتوں کو پوشیدہ رکھا۔ شاید اسی وجہ سے 1949 میں بھارت نے اسرائیل کو اقوام متحدہ کا ممبر بنائے جانے کے خلاف ووٹ کیاتھا۔ بھارت کے اس قدم کی آر ایس ایس اور ہندوشدت پسندوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ خود گاندھی اسرائیل کے قیام کے حامی لیکن فلسطین کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کے مخالف تھے۔ یواین میں اسرائیل کے خلاف ووٹنگ کے بعد حکومت ہند کے نظریہ میں تبدیلی آئی۔ بھارت نے فلسطین کی سرزمین پر دونوں کے ایک ساتھ رہنے اور دونوں کی حق ملکیت تسلیم کئے جانے کا موقف اختیار کیا۔ 17ستمبر 1950کو بھارت نے اپنی اسی سوچ کے تحت غاصب اسرائیل کو ایک ملک تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے اپنے سرکاری بیان میں کہا’’ اسرائیل ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں اورہم نے بہت پہلے اس کا اعتراف کرلیاتھا لیکن عرب ممالک کی دوستی اور ان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانے کی خاطر ہم اس کا اظہار نہیں کررہے تھے‘‘ اسی سال ممبئی میں اسرائیل کا قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ آٹومن اور برٹش حکومت کے تحت فلسطین میں رہنے والی عرب آبادی اور یہودیوں کے بیچ کا تنازعہ ٹکراؤ کی اصل وجہ ہے۔ اس میں ایک ودسرے کے وجود کو تسلیم کیاجانا، سرحد، حفاظت، پانی پر حق، مسجد اقصیٰ پرکنٹرول، یہودی بستیاں، فلسطین کی آزادی اور مہاجرین کو پناہ دینے جیسے مسائل کا حل شامل ہے۔ فلسطین میں 1914میں پانچ لاکھ عرب اور یورپ سے آئے 65000 یہودی رہتے تھے۔ فلسطین اس وقت ترکی کی آٹومن حکومت کا حصہ تھا۔ برطانیہ کے وزیرخارجہ لارڈ بل فور نے 1917میں یہودیوں سے فلسطین کو ان کا گھر بنانے کا وعدہ کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کی خلافت ختم ہوگئی۔ فلسطین اور جارڈن پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ 1922سے 1939 کے درمیان یورپ سے تین لاکھ سے زیادہ یہودی فلسطین پہنچے۔ خونریز ٹکراؤ ہوا۔ برطانیہ نے عربوں کی مخالفت کو دبادیا، اس کے بعد سے یہودی بستیاں بڑھتی گئیں اور فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ملکوں میں پناہ لینی پڑی۔ 15مئی 1948 کو فلسطین کی سرزمین سے پر اسرائیل کے نام سے یہودیوں کا ملک وجود میںآگیا۔ یہودیوں کی حمایت میں نصرانیت، صیہونیت، شہنشاہیت اور فسطائیت ایک نظر آتی ہے۔
1948 میں اسرائیل کے وجود میںآنے کے بعد اس کا اسلاموفوبک کردار دنیا کے دوسرے ٹھکانوں پر بیٹھی ہندو آبادی کو متاثر کررہا تھا۔ امریکہ، کناڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، سنگاپور سمیت مشرقی ایشیا کے دیش ایسے گڑھ ہیں جہاں پر گلوبل فرنٹ آف راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، دی ہندو سویم سیوک سنگھ، اور سیز فرینڈس آف بی جے پی جیسی تنظیمیں سوچ کی سطح پر زایونزم (یہودیت) سے زبردست طریقہ سے متاثر ہیں۔ ایسے موقع آئے جب زایونسٹ آرگنائزیشن آف امریکہ نے انڈو امریکن کمیونٹی کو سپورٹ دیا خصوصاً ان علاقوں میں وزیراعظم نریندرمودی کے سفر کے دوران ایسے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ آر ایس ایس شروع سے ہی یہودی راشٹرواد کو اپنا آئیڈیل مانتا رہا ہے۔ 2014 میں وزیراعظم نریندر مودی کے حلف لینے کے بعد زیادہ تر یہودی میڈیا نے ہیڈ لائن لگائی ’’اسرائیل بیسٹ فرینڈ ان ساؤتھ ایشیا‘‘۔ یہودی میڈیا نے ایسے موضوعات کو خاص جگہ دینا شروع کیا ہے، تو اس لئے کیوں کہ اس کے پس منظر میں کاروبار، اسلام کو نقصان پہنچانے والے سروکارہیں۔ لگ بھگ ایک کروڑ 75لاکھ این آر آئی بھارتیوں کا ایک بڑا حصہ اس ’’نوراشٹرواد‘‘ کے راستے پر چل پڑا ہے۔ یہی یہودی میڈیا کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
ہنداسرائیل تعلقات کو چار حصوں میں سمجھا جاسکتا ہے۔ 1948سے 1991تک تل ابیب کے اور نئی دہلی کے بیچ جوکچھ ہو ا۔اسے پردے کے پیچھے رکھا گیا۔ 1992میں سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد سے 1998تک تب سے جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے۔1998سے 2004این ڈی اے حکومت قائم ہونے کے بعد بھارت اسرائیل کے سفارتی رشتوں میں مضبوطی آئی ۔دونوں ملکوں کے تعلقات عام ہو گئے ۔جسونت سنگھ نے 2000ء میں بطور وزیر خارجہ اسرئیل کا دورہ کیا ۔ وہ بھارت کے پہلے وزیر خارجہ تھے جنہوں نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا ۔2003ء میں
اسرائیل کے وزیر اعظم اریل شیرون پہلی مرتبہ بھارت آئے ۔ حکمراں جماعت بی جے پی نے خصوصی اہمیت دی ۔اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے شیرون کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کے مستحکم ہونے کا اعتماد ظاہر کیا ۔ اس کے بعد یو پی اے کے دور میں ہند ۔ اسرائیل دوستی اور چوتھے مودی حکومت کے دور میں بھارت اسرائیل کے تعلقات ۔ اس وقت اسرائیل سے رشتوں کو لے کر ضرورت سے زیادہ
شور کیوں ہو رہا ہے ؟ اور مودی کے اسرائیل کو آئیڈیل بتائے جانے کی پڑتال کی جانی چاہئے ۔
ناگپور میں سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے 31اکتوبر 2011کو ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’ویژن‘‘ کی وجہ سے جاپان اور اسرائیلی طاقتور ملک میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ مودی جی کے اقتدار میں آنے پر ناگپور کادباؤ تھا کہ وزیراعظم پہلا بیرونی سفر اسرائیل کا کریں۔ ویسے 2006میں گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے مودی جی اسرائیل کا سفر کرچکے ہیں۔ مہارشٹر، ہریانہ، کشمیر سمیت کئی ریاستوں میں انتخابات کی وجہ سے شاید مودی جی کااسرائیل جانا ٹل گیا۔ ہند اسرائیل کے بیچ سفارتی تعلقات کو 29جنوری2017میں 25سال پورے ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے وزیراعظم اس وقت تل ابیب جائیں اور بتائیں کہ اسرائیل کے بعد بھارت پہلا ملک ہے جس نے سرجیکل اسٹرائیک کرائی تھی۔
اسرائیل کو آدرش ماننے کا کیا مطلب ہے؟ کیا فلسطین کے تعلق سے بھارت کی پالیسی بدل گئی ہے؟ منڈی میں جوکچھ وزیراعظم نے کہا تھااس کا مطلب تو یہی ہے کہ اسرائیل نے جتنے ٹارگیٹ کلنگ(اسے وہاں سرجیکل اسٹرائیک نہیں کہتے) کئیے وہ صحیح تھے۔ ویسے بھارت رشین بلاک میں ہونے کی وجہ سے یاسر عرفات کا حامی تھا۔ فلسطینی کاز کا نہیں۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد رشتے کا یہ باریک دھاگہ بھی ٹول گیا۔ کئی ملک حماس و حزب اللہ کو فلسطین کی آزادی کے لئے لڑنے والا گروپ مانتے ہیں ۔ مگر بھارت کی ان کے بارے میں وہی سوچ ہے جو اسرائیل کی ۔تبھی تو وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ہم پلہ بن یامن نتن یاہو کو پیغام دیا ہے کہ ’’ ہم فلسطینی دہشت گردوں‘‘ کے خلاف اب تک ہوئی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطین میں الفتح (یاسرعرفات کی پارٹی) کی حکومت ہے۔ جبکہ غزہ پٹی پر حماس کا دبدبہ ہے۔ دنیا فلسطین کے تنازعہ کو فلسطین اسرائیل کا آپسی جھگڑا مانتی ہے جس طرح کشمیر کو بھارت پاک کا مسئلہ مانا جاتاہے۔ اس لئے اوآئی سی نے کبھی اس معاملہ میں پاکستان کا
ساتھ نہیں دیا کیونکہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔۔ فلسطین کو بھارت کی حمایت جاری رہنے کے بارے میں اسرائیلی صدر سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ یہ ضروری نہیں کہ دوست ہر بات میں آنکھ سے آنکھ ملاکر دیکھیں‘‘ دوستوں کے طور پر ہم احترام اور سمجھ کے ساتھ اختلاف کے لئے اتفاق کر سکتے ہیں ‘‘۔
انہوں نے کہا کہ’’ ہمارے اور فلسطین کے مابین انصاف پر مبنی ومستقل حل نکالا جانا چاہئے، لیکن ایسے کسی حل کے کامیاب ہونے کی گنجائش نہیں ہے جب تک کہ ہم لوگوں کے بیچ ابھی سے یقین بحالی کیلئے کام نہیں کریں، سوال یہ ہے کہ کیا بندوق کی نوک پر یقین بحال ہوسکتا ہے؟
غورکرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے اسرائیل سے دوستی نہیں تھی؟ ستمبر 1968 میں RWAکا قیام عمل میںآیا۔ تب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے را کے چیف، رامیشورناتھ کاؤ کو موساد سے رابطہ بڑھانے کو کہا تھا۔1977میں مرارجی ڈیسائی کے وزیراعظم بننے تک را موساد کے تعلقات پوشیدہ تھے۔ کوہٹہ میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ فرانس کی مدد سے لگائے جانے کی جانکاری مرارجی ڈیسائی کو انہیں تعلقات کی وجہ سے ہاتھ لگی تھی۔ جس سے انہوں نے ضیاء الحق کو یہ کہہ کر چونکا دیا تھا کہ ہمیں معلوم ہے آپ کوہٹہ میں کیا کررہے ہو۔راجیوگاندھی کے زندہ رہنے تک موساد سے تعلقات کی ایک لکشمن ریکھا تھی جو نرسمہا راؤ کے بعد بدلنے لگی۔ اب سب کچھ ڈھول نگاڑے کے ساتھ ہورہا ہے۔ 2015میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نیشنل پولس اکیڈمی حیدرآباد سے دو جتھوں میں ڈیڑھ سو آئی پی ایس افسر ٹریننگ کیلئے اسرائیل گئے۔2006میں شرد پوار ، کپل سبل ، کمل ناتھ ، موجودہ وزیر اعظم ، متعدد مسلم رہنما اور اردو صحافیوں کے وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا ۔ آج حالت یہ ہے کہ موساد کی پہنچ بھارت کی ہر اہم جگہ تک ہے چاہے پی ایس یو ہو یا، آئی ٹی، کارپوریٹ ہاؤس ہوں یا میڈیا، تھنک ٹینک ہو یا ہیلتھ کیئر، انشورینس یا پھر اقتصادی محکمے ۔ اس پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جو حضرات اسرائیل کا سفر کر چکے ہیں ان کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کے 120ممبران میں سے 10-12ممبر اور ایک وزیر مسلمان ہوتا ہے وہاں 32 شرعی عدالتیں ہیں۔یونیورسٹی میں اسلامیات کی فیکلٹی اور مسلم بستیوں میں دینی تعلیم کا انتظام ہے ۔یہاں اقلیت کی حیثیت میں مسلمانوں کو بھارت سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں ۔دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ جو حصہ الفتح کے اقتدار میں ہے وہاں تھوڑی تھوڑی دور پر اسرائیلی فوج کی چوکیاں ہیں اسرائیل مسجد اقصیٰ میں کبھی اذان تو کبھی نماز پر پابندی لگا دیتا ہے ۔ایسا کوئی جمعہ نہیں گزرتا جب مسجد اقصی ؒ جاتے ہوئے ایک دو لوگوں کی موت نہ ہو جائے ۔
اسرائیلی صدر کے دورے میں جہاں اعلیٰ تعلیم ، کاروبار پر بات ہوئی وہیں شدت پسندوں ، کٹر وادیوں اور دہشت گردی کی چنوٹی سے مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے پر اتفاق ہوا ۔ بھارت کو شدت پسندوں اور کٹروادیوں سے اسرائیل کے نپٹنے کا طریقہ پسند آرہا ہے۔جبکہ کئی ملک اس طریقہ پر شدید ااعتراضات کرتے رہے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ متاثر اور سینکڑوں بے گناہ خاص طور پر نو عمر بچے جان گنواں چکے ہیں ۔یہاں حقوق انسانی کی پامالی کی بہت سی خبریں س گاہے بگاہے سامنے آتی رہی ہیں ۔
بھارت روس کے بعد سب سے زیادہ ہتھیار و دفاعی ساز سامان اسرائیل سے خریدتا ہے۔اسرائیل کے بروقت اسلح سپلائی کرنے کی وجہ سے کارگل کی کامیابی میں بھارت کو مدد ملی۔ ایک اندازہ کے مطابق بھارت 9بلین ڈالر سے زیادہ سالانہ اس کے لئے اسرائیل کو ادا کرتا ہے ۔ کاروبار میں بھی بھارت نے بہت ترقی کی ہے۔ 1992 میں جو کاروبار 20 کروڑ ڈالر سے شروع ہوا تھا اب پانچ ارب ڈالر کے آنکڑے کو پار کرچکاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیلی صدر کے بھارت آنے کے بعد کاروبار، روزگار، تعلیم، صحت، پانی کے وسائل، زراعت اور سماجی زندگی میں کیا کیا تبدیلی آتی ہے۔ اسرائیلی صدر کے بھارت آنے کے بعدیہ مانا جا رہا ہے کہ دوستی کی پچیس ویں سالگرہ پر وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کریں۔ اس دورے سے ملک کو کیا حاصل ہوگا اورپالیسیوں میں کیا تبدیلی آئے گی اس کا دیش کی عوام کو انتظاررہے گا۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔