مسلمانوں کو باہم الجھانے کی سازش

فصیح درانی

یقینی طور پر برقت مسلم سماج اور مسلم تنظیمیں ابتلاء و آزمائش کے دور سے گزررہی ہیں۔ ہرچہار طرف سے وہ فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔ ایسے وقت میں تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ مسلم تنظیموں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا ثبوت پیش کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ منتشر ہوتا دکھائی دے۔ بروقت دو مسائل موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ایک یکساں سول کوڈ اور دوسرا طلاق ثلاثہ کا مسئلہ۔ یکساں سول کوڈ کے ذریعہ حکومت چاہتی ہے کہ پورے ہندوستانیوں پر ایک طریقہ تھوپ دے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس چیزکو کوئی بھی مذہب تسلیم نہیں کرے گا بلکہ یہ ہندوستانی سماج میں دقتوں کا سبب بنے گا اور اس سے ٹکراؤ جیسے حالات پیدا ہوں گے۔دوسرا مسئلہ ہے طلاق ثلاثہ کا۔ یقینی طور پر یہ مسئلہ مسلمانوں کے مابین مختلف فیہ رہا ہے لیکن اس اختلاف کو اگر دشمنان اسلام سیڑھی بناکر اسلامی احکامات میں مداخلت کی کوشش کریں تو وہ انتہائی مذموم ہے۔ یہاں مسلم پرسنل لاء کا رویہ بھی انتہائی احمقانہ معلوم ہوتا ہے کہ جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنے پلیٹ فارم پر سبھی تنظیموں کو مدعو کرلیتی ہے لیکن جب تمام مسلم تنظیموں کو پرسنل لاء میں نمائندگی دینے کی بات آتی ہے تو پھر وہاں ہٹ دھرمی، ضد اور عناد کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ آخر ان تمام ہوہلہ کے بعد بھی مسلم پرسنل لاء نے اپنے حلف نامہ میں یہ کیوں نہیں لکھاکہ مسلمانوں میں ایک طبقہ اور مسلک ایسا بھی ہے جو یکبارگی دی گئی تین طلاقوں کو ایک مانتا ہے۔ اگر مسلم پرسنل لاء بورڈنے اپنے حلف نامہ میں اس شق کا اضافہ کردیا ہوتا تو یقین جانئے ، تمام مسائل کا تصفیہ ہوجاتا اور پھر حکومت اور کورٹ کی مداخلت کی راہ مسدود ہوجاتی۔سیدجلال الدین عمری امیر جماعت مرکزی اسلامی ہند کا یہ بیان انتہائی قابل مذمت ہے کہ تین طلاق کو ایک ماننے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ایسے وقت میں جبکہ سبھی لوگ بیک زبان ہوکر فسطائی طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہیں، اس طرح کی باتیں کرنا انتہائی مذموم ہے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کو چاہئے کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مانے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتاہے۔
بہرحال ہماری تحریر کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ مرکزی حکومت کی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کو درست کہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اپنی ہٹ دھرمی اور ضد چھوڑکر تمام طبقات کو مسلم پرسنل لاء میں نمائندگی دینی ہوگی، ورنہ پھر یہ اتحاد اگر ٹوٹا تو مسلمانوں کے دینی معاملات میں حکومت کی مداخلت کا ایسا دروازہ کھل جائے گا کہ اسے بند کرنا مشکل ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔