یکساں سول کوڈ مسلمانوں کو کیوں قبول نہیں؟

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

ہمارا ملک ہندوستان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا گہوارہ ہے،رنگا رنگ تہذیب اس کی خاصیت ہے ،اور آزادی واختیار کے ساتھ ہر کسی کو اپنے مذہب و عقیدہ پر عمل آوری کی اجازت اس کا دستور دیتا ہے ۔لیکن اس وقت اس ملک کی صورت حال کافی گھمبیر چل رہی ہے ،ایک طرف سرحدوں پر تناؤ ہے جس کی وجہ سے ہر شہری بے چین اور بے قرار ہے ،وطن کی حفاظت اور اس کی سالمیت کے لئے متفکر ہے ،دوسری طرف مرکزی حکومت کے پیدا کردہ مسائل اور حالات ایسے ہیں کہ اندرون ملک بہت سے لوگ پریشان ہیں ،اچھے دن کے بلند بانگ دعوؤں اور پرزور نعروں کی گونج میں اقتدار حاصل کرنے والے بہت جلد اس کی حقیقت کو بھول گئے اور نفرت کی سیاست کا بازار گرم کردیا ،تشدد پسندوں کو کھلی آزادی مل گئی ،نفرت کے سوداگر اپنے کاروبار میں مصروف ہوگئے ،امن کے دشمن آگ لگانے میں منہمک ہوگئے ،کمزور طبقات کو مختلف بہانوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے ،کبھی گاؤ کشی کے نام پر بے قصوروں کو مارما ر کر ہلاک کیا گیا تو کبھی گاؤ رکھشک کا ڈھونگ رچانے والوں نے ظلم وزیادتی کا ننگا ناچ کھیلااور اپنی درندگی کا کھلے عام مظاہر ہ کیا ۔مہنگائی نے عام افراد کو حیران کردیا ۔چوں کہ مرکزی حکومت کے ڈھائی سال پورے ہوچکے اور اب تک کوئی قابلِ تعریف کام انجام نہیں پائے اور نہ ہی مسائل حل کئے جاسکے ،وعدوں کی تکمیل ہوسکی ،بلکہ اس کے بجائے آئے دن حالات سخت سے سخت اور سنگین ہورہے ہیں ۔نفرت پھیلانے والے اپنے زہر آلود بیانات کے ذریعہ تفرقہ مچانے میں لگے ہوئے ہیں ،خوف و ہراس کا ماحول قائم کرکے شہریوں کو ڈرا سہما رکھا جارہا ہے،اب اپنی ناکامیوں پر پر دہ ڈالنے اور حکومت کو موردِ الزام بننے سے پہلے مرکزی حکومت نے ایک نیا شوشہ’’ تین طلاق‘‘ کے خلاف چھوڑدیا اور اسے غلط قراردیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت میں حلف نامہ بھی داخل کردیا ۔طلاق کو بہانہ بناکر دراصل یہ شریعتِ اسلامی کو نشانہ بناناچاہتے ہیں ،تاکہ ’’یونیفارم سول کوڈ ‘‘نافذ کیا جاسکے ،اور اس کے ذریعہ مذہبی آزادی اور عمل آوری کے اختیارات سلب کرلئے جائیں اور سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا جائے ،یقیناًیہ حکومت کا بہت ہی خطرنا ک اقدام ہے ،وہ اس کے ذریعہ اپنی دیرینہ آرزو پورا کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان اپنے تشخص اور امتیاز کے ساتھ نہ رہ پائیں اور وہ بھی یکساں سول کوڈ کے زمرہ میں آجائے۔ یکساں سول کوڈ کی حقیقت کو ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ،مسلمانوں کو یہ کیوں قابلِ قبول نہیں ہے ؟اس کے دفاع اور شریعت کے تحفظ کے لئے کیسی کیسی کوشش اور جدوجہد کی گئی ہے ہمیں بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
ملک میں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ،سول کوڈ(CIVIL CODE)اور کریمنل کوڈ(CRIMINAL CODE)کہلاتی ہیں ،جس کے لئے اردو میں بالترتیب ضابطہ ’’دیوانی‘‘ اور ’’فوج داری ‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں۔دوسری قسم ضابطہ فوجداری کے اندر جرائم کی سزائیں ،اور بعض انتظامی امور سے متعلق قوانین آتے ہیں ،مثلاً کسی جرم پر کیا سزا دی جائے گی اور مجرم کے لئے کیا اصول و ضوابط ہوں گے اور انتظامی طور پر کس قسم کے اقدامات حکومت کرے گی؟پہلی قسم سول کوڈ کے دائرہ میں وہ تمام قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی ،تمدنی امور سے ہے ۔البتہ اس قسم کے ایک حصہ میں جسے ’’ پرسنل لا ‘‘کہاجاتا ہے اس میں ملک کی بعض اقلیتوں کو ان کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے ۔مسلمانوں کو ملک کے دستور میں یہ حق دیا گیا ہے کہ نکاح ،طلاق ،ایلا،ظہار،خلع،مباراۃ( خلع ہی ایک شکل،فسخِ نکاح ،عدت ،نفقہ ،وراثت ،وصیت ،ہبہ ،ولایت،رضاعت،حضانت ،وقف(خیراتی اور غیر خیراتی دونوں)سے متعلق مقدمات اگر سرکاری عدالتوں میں لے جائیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی مذکورہ معاملات میں فیصلے کریں گی،ان قوانین کا مجموعہ ’’پرسنل لا ‘‘ کہلاتا ہے۔( یونیفارم سودل کوڈ مسلم پرسنل لا اور عورت کے حقوق:14)
ہندوستان میں ’’ یونیفارم سول کوڈ‘‘کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی ہدایات کے خلاف نکاح وطلاق جیسے معاملات انجام دینا ہوں گے ، وصیت اور وراثت کے معاملہ میں بھی انہیں مذہبی قانون کے بجائے دوسرے قوانین پر عمل کرنا ہوگا ،اسی طرح دوسرے مذہب اور رسم ورواج کے پابند لوگوں کو بھی اپنا مذہب چھوڑ نا ہوگا ، اپنے رواج کو مٹانا ہوگا ،اور نئے قانون کا بند ہونا پڑے گا ۔ا س طرح یونیفارم سول کوڈ واضح طور پر ’’مسلم پرسنل لا‘‘سے مختلف ایک قانون ہے ۔جس کے نفاذ کے بعد ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ،گویا مسلم پرسنل لا جس کی بنیاد قرآن وسنت ہے اور یونیفارم سول کوڈ کو یکجا نہیں کیا جاسکتا ۔( یونیفارم سول کوڈ:6)مولانا عبد الرحیم قریشی صاحب مرحوم ( اسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) یکساں سول کوڈ کی حقیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’پرسنل لا کے معاملات میں کسی اور قانون پر چلنے کے لئے مسلمانوں کو کہنا یا مجبورکرنا ارتداد کی دعوت نہیں تو کم از کم مذہبی احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی دعوت ضرورہے ،بے شک کوئی مسلمان ایسی دعوت قبول نہیں کرسکتا،۔۔۔اس بات کو ذہن نشین رکھئے کہ ایک کثیر مذہبی ،کثیر لسانی ،اور کثیر تمدنی ملک میں جس کا رقبہ اور آبادی ذیلی براعظم کی نوعیت رکھتا ہو یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ نقصان دہ ہوگا ۔حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے اس بات کو محسوس کیا جانا چاہیے کہ اتحاد اور ہم آہنگی کی بنیاد دراصل اپنائیت کا احساس ہے اور یہ احساس اس اعتماد سے پیدا ہوتا ہے کہ میرے ملک میں میری کسی عزیز شئی،میرے تمدن ،میری شناخت اور میر ی پہنچان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ،مختلف شناختوں کو تسلیم کرنے سے قوی یکتائی ، ہم آہنگی اور اتحاد کو قوت ملے گی،کسی یونیفارم سول کوڈ کو مسلط کرنے کے نتیجے میں محرومی اور عدم تحفظ کے جذبات ابھریں گے جو ملک کے اتحاد اور یک جہتی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘کی مسلمان کیوں مخالفت کرتے ہیں اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ رقم طراز ہیں :مسلمان یونیفارم سول کوڈ کے مخالف ہیں ،ہندوؤں کا مذہبی طبقہ بھی اس سے اتفاق نہیں رکھتا ۔مسلمانوں کے اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘مذہبی تعلیمات سے متصادم ہے ، اس کے نفاذ کے بعد عائلی اور شخصی میں زندگی قرآن و سنت کی ہدایات سے دست بردار ہونا پڑے گا،اور ایک ایسے قانون کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا پڑے گا جس کے نتیجہ میں مذہب کی مقررہ حدیں مٹ جائیں گی اور فرد کی شخصی زندگی سے حلال و حرام کا وجود ختم ہوجائے گا ،مسلمان اس کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ ان قوانین کے ذریعہ اپنی عائلی اور شخصی معاملات و مسائل کا حل نکالیں جن کا ہر قدم پر مذہب سے ٹکراؤ ہوتا رہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے کچھ تہذیبی امتیازات ہوتے ہیں جن کا تعلق بڑی حد تک ’’پرسنل لا ‘‘ سے ہوا کرتا ہے۔بعض مذاہب کے یہ امتیازات مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں بلکہ رسم و رواج اور جغرافیائی حالات کے ماتحت ہیں ،مسلمانوں کے بھی تہذیبی امتیازات ہیں جن کی بنیاد مذہبی تعلیمات پر ہے،مسلمان آمادہ نہیں کہ وہ تہذیبی امتیازات سے دست بردار ہوں۔( یونیفارم سو ل کوڈ:17)
غرض کہ حکومت کا یکساں سول کوڈ کا منصوبہ اس ملک کی پر امن فضا ،خوشگوار ماحول ،اور آپسی خلو ص و وفا کے لئے نہایت نقصان دہ ہے ،اس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہوگا ،ملک کی رنگا رنگ تہذیب متاثر ہوگی اور یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کے حد تک محدود نہیں رہے بلکہ اس کے ضمن میں دیگر مذاہب اور تہذیبیں بھی آئیں گی اس طرح اس ملک کی خوشنمائی بگڑ جائے گی ،دوسروں کے لئے کچھ بھی ہو لیکن مسلمان کبھی اس کے نفاذ کو قبول نہیں کرے گا کیوں کہ یہ اس کی شریعت اور اسلام پر حملہ ہے اور اس کے اختیارات اور آزادی کو ختم کردینا ہے ۔
لہذا حکومت کے اس اقدام کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ اور متحدہ تنظیم ’’آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ‘‘ نے لاکمیشن کے سوالنامہ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور کسی بھی صورت حکومت کا شریعت اسلامی میں مداخلت کرنا ناقابلِ برداشت قراردیا ہے ،مسلمان اپنے دستوری حق کے ساتھ اپنی شریعت اور اپنی تعلیمات پر عمل کریں گے اگر حکومت مسلمانوں کے خلاف سازش کرتی ہے تو یہ اس کے بدباطن ہونے کی علامت ہے اور اسلام و مسلمانوں سے دشمنی کے برابر ہے۔مرکزی حکومت ملک کی خیرخواہی کے بجائے اس کی ہمہ رنگ تہذیب کے خلاف جارہی ہے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے منصوبہ بند سازشوں کو بروئے کار لانے کے آئے دن ایسے شوشے چھوڑتی ہے ،اس صورت میں ہمیں اپنے اکابرین اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین کے فیصلوں ساتھ پوری فکر مندی اور مستعدی کے ساتھ لگے رہنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔