میر انیس: مرثیہ کا وقار

راحت علی صدیقی

اصنافِ سخن مختلف، ان کے قوانین و ضوابط جداگانہ، معیارات الگ الگ، طرز و طریقوں میں زمین و آسمان کا فرق، نثر کا اپنا الگ انداز جس میں الفاظ جملوں میں ترتیب پاتا ہے، اشعار میں لفظ اکائی ہے اور مصرعوں میں مرتب ہوتا ہے، نثر میں حدود و قیود اور پابندیاں شعری معیارات کے مثل نہیں ہیں مگر اس کی اپنی شان ہے اور اظہار مافی الضمیر کا ایک عظیم ذریعہ ہے، اس کے برخلاف شاعری جو مختلف قواعد و ضوابط سے نمودار ہوتی ہے اس کا ظہور قواعد پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر ان اصولوں پر کھرا نہ اترا جائے تو شاعری کی صورت ہی ظاہر نہیں ہوگی، وہ تک بندی کے زمرے میں شامل ہوجائے گی اور شعریت مسخ ہوجائے گی، الفاظ کے ایک خاص انداز اور طرز و قواعد کی رعایت ہی شاعری کی جنم داتا ہے۔ عمدہ اور بلند افکار کو اس میں خوبصورت ڈھنگ سے پرونا اس کا اعجاز، حسن اور اس کی خوبی و خوبصورتی ہے، شعر نرم احساسات کو بھی اپنے اندر سماتا ہے اور تلخ حقائق کو بھی بیان کرنے میں دوسرا درجہ کا نظر نہیں آتا، وہ فکر کا ترجمان ہے، جذبات و احساسات اور خیالات کا لفظی جامہ ہے، زندگی کی رعنائی و زیبائی کا مظہر ہے، تخیلات کی دنیا شاعری کی روح ہے، الفاظ اس کا جسم، حقائق اس میں پروئے جاسکتے ہیں مگر ایک شاعر کے پاؤں میں وہ بیڑیاں نہیں جو ایک مؤرخ کو باندھتی ہیں اور اس کے دائرہ سے خارج ہونے کے امکان تک کو مسترد کردیتی ہے۔ شاعری تو الفاظ کا کھیل ہے، پھر شاعری مستقل کئی اصناف رکھتی ہے۔ غزل جہاں صرف دو مصرعے ایک مفہوم کی ادائیگی کے لئے کافی ہوتے ہیں، اس کے اسلوب، طرزِ قواعد دیگر اصناف سے مختلف رباعیات، قطعات، ان کا طرزِ نگارش الگ، نظم چند مصرعوں میں ایک مضمون کو مکمل کردیتی ہے، اس کا اپنا ایک خاص انداز ہے جو اس کی بلندی اور عبقریت کا ضامن ہے، جس کو اخترالایمان جیسے لوگوں نے زمانے میں متعارف کرایا اور موجودہ دور میں فیض احمد فیضؔ اس کو بہت سے نئے مضامین اور اونچائیاں عنایت کرکے زمانے سے رخصت ہوئے اور اس کو مالا مال کر گئے۔ ایک اور شاعری کی عظیم صنف ہے جس میں درد، کڑھن، تکلیف اور کبھی غم اس درجہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے کہ قلب میں رقت اور آنکھوں میںآنسو آجاتے ہیں، عجیب و غریب سماں ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے ہم کربلا کے میدان میں بے بس و لاچار کھڑے ہیں، ادھر علی اکبر کی لاش زمین پر گر رہی ہے اُدھر پانی کے نام پر تیروں کی بوچھار، ہم ہیں کہ صرف منظر پر آنسو بہا سکتے ہیں، یہ وہ قسم ہے جہاں شاعر رزم سے کام لیتا ہے، اگر چہ اس میں بزم کے نمونہ بھی بہت قلت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
مگر درحقیقت مرثیہ نگاری تو کربلا کے دل دوز واقعہ کا فسانہ ہے جسے شاعر اپنے انداز میں پیش کرتا ہے، اس کے دامن میں استعارات بھی ہیں، تشبیہات و تمثیلات کی بھی اس کے یہاں کمی نہیں، سامع اور قاری کو الفاظ کی دنیا میں کھو کر رکھ دیتا ہے، مبالغہ سے بھی اسے گریز نہیں کیوں کہ وہ اسلوب ادبی کا مسافر ہے نہ کہ اسلوب علمی کا جہاں مبالغہ قبیح سمجھا گیا، یہاں تو مبالغہ حسن ہے، استعارات وتمثیلات اور دیگر حسین و خوبصورت طرز جو اس قصے کو پوری طرح مجلس میں عیاں و بیاں کرسکیں، سب کچھ شاعر اس میں دل کھول کر قواعد کی رعایت کے ساتھ رکھ دیتا ہے۔ اس صنف کو ایک زمانہ میں بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔بہت سے لوگوں نے اس میں طبع آزمائی کی اور اس فن کو بلند کیا۔ میر خلیق، مرزا مظہر، سودا اور بہت سے ایسے نام ہیں جن کی گراں قدر خدمات مرتبہ کی پہچان اور اس کی علامت قرار پائی اور انہوں نے اس صنف سخن کو بلندیوں کی معراج کرائی، پھر انیسویں صدی میں مرثیہ کو دو عظیم ہستیاں نصیب ہوئیں میر انیس اور مرزا دبیر جن کی خدمات اور ان کے مرثیوں کو دیکھ کر ادب کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی اس حقیقت کا معترف ہوجائے گا کہ انہوں نے اس فن کو وہ عظمت اور بلندیاں عنایت کی ہیں جہاں سے اس کی تنزلی کا تصور بھی محال ہے۔ انیسویں صدی کے ادب کے آفتاب و مہتاب ہیں اور فن پاروں میں یہ دونوں ہستیاں عظیم تر ہیں، پھر ان میں سے خاص طور پر میر انیس جن کی نشو و نما مرثیہ کے ماحول میں مرثیہ کو اپنی زندگی اور اظہار ما فی الضمیر کا ذریعہ بنایا، ان کے مرثیوں میں سادگی کے ساتھ تنوع اور وہ بلندیاں ملتی ہیں جو دوسرے لوگوں کے یہاں نظر نہیں آتیں۔کہتے ہیں:
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں
تکرا ر ان کے یہاں نہیں ہے، ایک ہی عنوان کو کئی طریقوں سے پیش کرنا ان کی عظیم خصوصیت ہے، بحریں تبدیل کردیتے ہیں، الفاظ بدل دیتے ہیں مگر تکرار تصور سے پرے ہے اور ہر مرتبہ سامع گمان کرتا ہے کہ نیا ہے، جدت کو اس میں کوٹ کوٹ کر بھر دیتے ہیں، تمثیلات پیش کرنے میں دشواری یہ ہے کہ غزل کی بات نہیں کر رہا ہوں جہاں دو مصرعے کافی ہوجاتے ہیں، پھر بھی کوشش کی جائے گی کہ مناسب اور مختصر نمونہ کے ذریعہ ان کی مرثیوں کی خوبصورتی کو عیاں کیا جائے۔ سادہ زبان استعمال کرنا بھی انیس کی بڑی طاقت سمجھا گیا ہے، اگر چہ بعض حضرات نے اس کو ان کی خامی تصور کیا اور ان پر تنقید کی مگر انیس اپنے قارئین سے پوری طرح واقف ہیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اشعار کہتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں صرف ٹکسالی زبان ہی نہیں بلکہ ان کے پاس عمدہ اور اعلیٰ الفاظ بھی موجود ہیں، مگر وہ وقت کے تقاضوں سے پوری طرح واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہاں کیا پیش کرنا ہے۔ پیش ہے دونوں طرز کی مثال:
کیا کیا شرفاء نان شبینہ کے محتاج ہیں
کل قتل ہوا وہ جو گرفتار ہو آج
شراف ہیں جتنے وہ نکلتے نہیں گھر سے
دروازے نہیں کھولے لٹ جانے کے ڈر سے
سارے الفاظ انتہائی سہل۔ اب دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے:
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرائی کی وہ مہک شرمائے
شرمائے جس سے اطلس و زنگارئ فلک
وہ موقع اور سامعین کے نبض شناس ہیں، حالات و کیفیات پر ان کو پورا کنٹرول، اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ہنر آتا ہے، ان کے یہاں تشبیہات کی کمی نہیں ہے مگر وہ تشبیہ دیتے ہیں اس انداز سے جو درد میں اضافہ کا سبب ہوتی ہے یا معاملہ کو پوری طرح واضح کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر:
چمکا جو صفت شعلہ جو وہ مہرجاں تاب
شبنم کی طرح سیم کواکب ہوئی بے آب
ٍ اور تشبیہ کی مثال دیکھئے:
یوں قطع انگلیاں ہوئیں تیرہ بخت کی
جیسے کوئی قلم کرے شاخیں درخت کی
الفاظ مناسب، طول سے گریز، مقصد کی اہمیت و افادیت کو ظاہر کرنے کے لئے ماحول تیار کرنا انیس کی اہم خصوصیت ہے، جس راہ میں کوئی بھی چیز حائل ہوتی ہے وہ اسے برداشت نہیں کرتے، اس لئے ناقدین کہتے ہیں کہ میر انیس نے اپنے مرثیوں میں وہ روایتیں نقل کی ہیں جن سے عرب معاشرہ خالی ہے، وہاں وہ پوری طرح ناپید ہیں، ان کے تصور کے دریچوں سے بھی ان چیزوں کا گذر نہیں ہے مگر جب انیس مرثیہ کہتے ہیں تو ان چیزوں کا اہتمام سے ذکر کرتے ہیں، اسی لئے کہا گیا ہے کہ انیس کا مرثیہ نہ ہندوستانی ہے نہ عربی مگر ان پر ہندوستانیت غالب ہے، جو انیس کی عظیم طاقت سمجھی گئی کیوں کہ وہ مورخ نہیں شاعر ہیں، اس میں زیادہ سے زیادہ ان پر مبالغہ کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے جو شاعری میں عیب نہیں بلکہ حسن میں اضافہ کا باعث سمجھا جاتا ہے۔
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سروں کے بال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
عرب تہذیب میں نہ تو مانگ میں کوئی چیز سجانے کا ماحول ہے، نہ ہی وہاں غم و اندوہ کی کیفیت میں بالوں کو بکھیرا یا کھولا جاتا ہے۔ یہ خالصتاً ہندوستانی تہذیب ہے جو انیس کے بہت سے اشعار میں ملتی ہے اور اس پر بہت ہی شرح و بسط کے ساتھ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے انیس شناسی میں بحث کی ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں: ’’یہ بات ہماری ادبی تاریخ کے ایک دلچسپ مبحث کا حکم رکھتی ہے کہ مرثیہ کے واقعات کا جتنا گہرا تعلق عرب تاریخ سے ان کی پیش کش کا انداز اتنا ہی ہندوستانی معاشرت بالخصوص لکھنوی معاشرت اور بیگمات کے اندازِ گفتگو اور طرزِ بیان کی ترجمانی کرتا ہے۔‘‘
جس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی تہذیب کا مرثیوں میں تذکرہ کرنا اس میں ناقدین کی آراء مختلف ہوگئیں اور زیادہ تر افراد اس طرف چلے گئے کہ یہ مرثےئے کے حسن کے اضافے کا باعث ہے۔ چوں کہ مرثیہ مجلس میں کہا جاتا ہے، وہ تنہائی کی گفتگو، یا خلوت کی کہانی نہیں ہے، اس میں رزم کی وہ ساری ہماہمی موجود ہونا ضروری ہے جو قاری کو ایک خاص کیفیت میں مبتلا کردے۔
ان کے یہ اشعار اس بات کی پوری طرح تصدیق کرتے ہیں:
ندی لہو کی چاند سی چھاتی سی بہہ گئی
بہنوں کی نیگ لینے کی حسرت ہی رہ گئی
دولہا بنے ہیں خون کی مہندی لگائے ہیں
سہرا تمہیں دکھانے کو مقتل سے آئے ہیں
یہ وہ اشعار ہیں جو درد و الم کے ترجمان ہیں۔ اس کے علاوہ منظر نگاری، کردار سازی، فطرت نگاری اور صبح کے خوبصورت منظر کو عمدہ طریقے پر پیش کرنا میر انیس کی وہ خصوصیات ہیں جو انہیں دیگر مرثیہ نگاروں سے عظیم بناتی ہیں۔ انیس شناسی کی بنیاد شبلی نے رکھی اور بعد کے تمام تر ناقدین ان کی فنی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کے مرثیے اردو زبان میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف انیس بلکہ مرثیہ نگاری کو بھی ایک عظیم مقام ملا۔
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ : ’’انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلام و مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلووں کی کثرت ہے، جن میں زبان پر فتح ہے جو شاعرکی قادر الکلامی، جذبہ کی ہر لہر اور فن کے ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی، لہجہ کا اتار چڑھاؤ اورفطرت کا ہر نقش نظر آتا ہے۔
شبلی نے بھی میر انیس کو بہت قدر اور مرتبہ عنایت کیا اور ان کو دبیر سے عظیم مرثیہ نگار تسلیم کیا ہے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انیس انیسویں صدی کے ایک عظیم مرثیہ نگار ہیں اور یہ صدی انیس کے نام سے بہت سے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اس دور میں انیس کے مرثیوں کا شہرہ اور چرچا رہا۔ ان کے مرثیے مجلسوں کی زینت بنے، عوام و خواص میں ان کو مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی فنی بلندیوں سے ہر شخص متاثر و محظوظ ہوا اور بگڑا شاعر مرثیہ نگار کے تصور کو انہوں نے ختم کیا۔ اس فن کی نوک و پلک ہی نہیں سنواری بلکہ اس میں بہت سے مضامین کا اضافہ کیا۔ اس کو مستقل ایک صنف تسلیم کرانے میں میر انیس کا بہت اہم کردار ہے۔ ان سے پہلے مرثیوں کو نظم ہی کی ایک قسم سمجھا جاتا تھا۔ شاعری کا یہ گوہرِ نایاب جس کے فن کی عظمتیں آج بھی ناقدین کو داد وتحسین دینے پر مجبو رکرتی ہیں۔ یقیناًاس کی عظمت کو ان چند سطروں میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ انیس شناسی کے لئے بہت سے صفحات درکار ہیں، بہت سے حوالے اور بہت سی کتابیں اس کے فن کی بلندیوں کو جاننے اور متعارف کرانے کے لئے ایک قلم کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ چند نمونے پیش کردئیے گئے، آپ ان پر قیاس کرتے ہوئے میر انیس کی شاعری کی عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور ان کے فن کی قدر اور حیثیت معلوم کر سکتے ہیں۔آج بھی انیس کے مرثئے اسی عظمت اور اہمیت کے حامل ہیں اگر چہ ان کو رخصت ہوئے ایک عرصہ دراز گذر چکا لیکن آج بھی ان کی یہ فکری کاشت ہری بھری ہے اور اس کے قریب سے بھی خشکی کا گذر نہیں ہوا ہے۔ آج بھی ان کی فکر پر قدامت یا پرانے پن کے اثرات نظر نہیں آتے جو ان کی فنی بلندیوں کی مثال ہے۔

تبصرے بند ہیں۔