مسلمانوں کیلئے سہارنپور کا سبق! 

نہال صغیر

یوں تو ہندوستان میں آزادی کے بعد سے ہی ہندوتہذیب و تمدن کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرنے والے گروہ کے نشانہ پر مسلمان اور پسماندہ طبقات رہے ہیں ۔یہ کام کانگریس کی حکومت میں بھی جاری تھا اور اب ذرا کھل کر سب کچھ ہو رہا ہے ۔کانگریس تو مصلحت پسند اور مہذب پارٹی کا چلا اوڑھ کر یہ کام کرتی تھی لیکن بی جے پی کو یہی کام کھلے عام کرنے میں کوئی آڑ نہیں ہے ۔اس لئے موجودہ حکومت کی آمد کے بعد سے ہی مسلمانوں ،دلتوں اور عیسائیوں پر حملوں میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوگیا اور سنگھ اور بی جے پی کے افراد ایسی باتیں زبان سے نکالنے لگے جس کو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں برا مانا جاتا ہے ۔کیوں کہ آج مہذب دنیا برائی کو بھی تہذیبوں کے خوشنما پیکیٹ میں پیش کرنے پر عمل پیرا ہے ۔

بقول مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے یہ لوگ ذرا گنوار ہیں تو عجلت میں یہ کام کررہے ہیں لیکن یہی کام شیروانی اور لال رومال میں ستر برسوں سے ہو رہا ہے ۔کئی سال قبل سنگھ کے چیف موہن بھاگوت بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے کیڈر سبھی پارٹیوں میں ہیں ۔آر ایس ایس کا مسئلہ ہندو مذہب نہیں ہے بلکہ وہ نسلی برتری کی قائل ہے اور برہمنیت کو ہر حال میں نافذ دیکھنا چاہتی ہے اور اس برہمنی نظام میں جس کی بنیاد منو سمرتی ہے دیگر اقوام جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ ان کے غلام ہیں اور برہمنوں کی خدمت ہی ان کا فرض ہے ۔اسی نسلی برتری نے انہیں فرعونی غرور میں مبتلا کررکھا ہے اور خود کو ہر قانون سے آزاد مانتے ہیں ۔ان کے ایک شنکر اچاریہ کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ہمارا قانون صرف منو سمرتی ہے ۔وہی منو سمرتی جسے ڈاکٹر امبیڈکر جلا کر اس سے برات کا اظہار کرچکے ہیں اور دلت تنظیمیں ہر سال اس تاریخ کو منو سمرتی جلانے کی رسم کی ادائیگی کرتے ہیں ۔

پانچ مئی سے سہارنپور آگ کے دہانے پر ہے ۔خبروں میں یہ مشہور کیا گیا کہ دلتوں نے ٹھاکروں کے ایک جلوس پر پتھراؤ اور کھلے عام تشدد کا ارتکاب کیا ۔پولس نے یہ کہا کہ انہوں نے فائرنگ بھی کی ۔جس میں ایک شخص کی موت بھی ہوگئی تھی ۔لیکن انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دلتوں کا بند گھر اور ویران محلہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ فی الواقعہ تشد کس کی جانب سے اور کس پیمانے پر ہوا ۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ پورا صوبہ اتر پردیش آتش فشاں کے دہانے پر ہے ۔سہارنپور کے بعد دیوریا میں بھی تشدد پھوٹ پڑا ۔الزام سیدھے دلتوں اور دلتوں کی تنظیموں پر لگائے جارہے ہیں ۔خبروں میں جہاں گروہ یا بھیڑ لکھے جانے کی گنجائش موجود تھی وہاں بھی سیدھے دلتوں کو ملزم قرار دیدیا گیا ۔

یہ سب کچھ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ موجودہ حکومت کس سوچ کی ہے اور اس کا منشا کیا ہے ۔بہت دنوں بعد یا یوں کہہ لیں ستر سال کے بعد انہیں کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا ہے کہ ملک پر برہمنیت کی اجارہ داری قائم کردیں ۔ہم نے پولس افسران کے تبادلوں میں بھی یہ محسوس کیا ہے کہ دلتوں کو سبق سکھانے کیلئے کس ذہنیت کے افسران کو مقرر کیا گیا ہے ۔جیسے پہلے مسلمانوں کو سبق سکھانے کیلئے کیا جاتا تھا یا اب بھی کیا جاتا ہے ۔بہر حال فی الحال دلتوں کو سبق سکھانے کیلئے انہیں بدنام کیا جارہا ہے اور ہر طرح سے انہیں تشدد کا ذمہ دار قرار دینے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے اور اس میں بھیم سینا نام کی تنظیم کا بار بار نام لیا جارہا ہے ۔سہارنپور سے دیوریا تک یہی نام بار بار لئے جارہے ہیں ۔بغیر کسی تفتیش اور تحقیق کے انہیں ظالم اور ٹھاکروں کو مظلوم بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ موجودہ تشدد سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ موجودہ حکومت کا نشانہ صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کے نشانے پر پسماندہ طبقات بھی بڑے پیمانے پر ہیں ۔جیسے مسلمانوں کو دہشت گرد اور فسادی قرار دے کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے اور ٹھیک اسی طرح دلتوں کے خلاف کیا جارہا ہے ۔

چھتیس گڑھ اور ودربھ کے علاقوں میں اسی طرح نکسلیوں کے نام پر غریب آدی باسیوں یا ان کے حقوق کیلئے لڑنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ گیارہ مئی کو سہارنپور کے تعلق سے شائع ہونے والی رپورٹ پوری طرح یکطرفہ ہے ۔اس میں ٹھاکروں کے ذریعے دلتوں کے گھروں کو آگ کی نذر کئے جانے کا کوئی ذکر نہیں لیکن دلت جو نا انصافی اور ظلم کے خلاف گاندھی پارک میں جمع ہوئے تھے انہیں الزام دیا گیا کہ ان کا منصوبہ پورے شہر کو جلادینے کا تھا ۔

میں نے مسلم کش فسادات کے دور کی خبریں بھی پڑھی ہیں ان میں اس طرح خطرناک حد تک کسی فرقہ کا نام لے کر اسے تشدد کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جاتا تھا ۔لیکن اب تو کمال ہی ہو رہا ہے کہ ٹھاکروں کی شرارت ان کی فسادی ذہنیت اور دلتوں اور پسماندہ طبقات کے تئیں ان کی نفرت کو ڈھانپنے کیلئے سیدھے بھیم سینا کی آڑ میں پوری دلت برادری کو فسادی اور قاتل ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ تو خیر ہے کہ منڈل کمیشن کے نفاذ کے بعد سرکاری ملازمت اور پولس فورس میں دلتوں کی قابل ذکر تعداد ہے ورنہ جس طرح مسلمانوں کے خلاف پولس کا رویہ ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح آج دلتوں کی لاشوں کے ڈھیر بھی لگادیئے جاتے ۔یہاں وشو ناتھ پرتاپ سنگھ کو مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے انہوں نے کس حکمت سے منڈل کمیشن کو نافذ کیا جس کی وجہ سے ایک شرارت انگیز طبقہ جس کی آبادی کا تناسب تین ساڑھے تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے ۔اس کا دبدبہ ختم نہیں تو کم ضرور ہوا ہے ۔جو رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا اگر کانشی رام کے فارمولے ’’جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی بھاگیداری ‘‘ پر عمل پیرا ہوا جائے ۔اس سے یقینی طور پر یہ آئے دن کے فسادات سے بھی چھٹکارا مل جائے گا ۔لیکن مقتدر طبقہ کسی بھی حال میں یہ نہیں ہونے دے گا ۔وہ تو موجودہ تحفظاتی نظام کو بھی ختم کرنے کیلئے طرح طرح کی دلیل دیئے جاتا ہے ۔

یہاں موجودہ سہارنپور اور دیوریا فسادات سے مسلمانوں کیلئے سبق ہے کہ ملک میں مظلوم صرف وہی نہیں ہیں ۔ظالموں کے نشانے پر وہ اکیلے نہیں ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ انہیں سب سے زیادہ خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ بقیہ طبقوں کو اپنے جال میں پھنسانے میں آسانی ہو ۔اب ضروری ہے کہ مسلمان اور ان کے قائدین اور تنظیمیں ’میں ‘ کو بھول کر ’ہم ‘ میں آجائیں ۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمان اس کو نہیں سمجھتے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ عملی اقدام کی جانب اس تیزی کے ساتھ آگے نہیں بڑھاجارہا ہے جیسا کا حالات اور وقت تقاضا کررہا ہے ۔جماعت اسلامی ہند برسوں سے پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کی تعلقات استواری کے لئے کوشاں ہے ۔اس کے علاوہ ابھی تک عملی طور پر دلتوں کی کسی تنظیم سے صرف ایک مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ہی کا چہرہ دکھ رہا ہے جو برہمنزم کے خلاف وامن میشرام کی تنظیم کے ساتھ عملی طور پر وابستہ ہیں ۔ایسے چہروں کی تعداد بڑھنی چاہئے ۔رضا اکیڈمی نے بھی اس جانب قدم بڑھایا ہے ان لوگوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے آنند راج امبیڈکرسے ملاقات کرکے موجودہ صورتحال پر گفتگو کی ۔

معلوم ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں کی جانب سے پیش قدمی کے منتظر ہیں ۔یہ تعداد کم صرف اس لئے ہے کہ ہم نے حالات کا صحیح ادراک آج بھی نہیں کیا ہے ۔بہتر ہو گا کہ ہم اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر صرف مسلمان کی حیثیت سے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش کریں اور حالات پر گہری نظر رکھنے کیلئے اسٹڈی گروپ تشکیل دیں جو ہمیں ہوا کے رخ کی خبر بتاتا رہے ۔اسی کے مطابق ہم اپنا سیاسی فیصلہ کریں بجائے اس کے کہ کوئی کسی پارٹی اور کوئی کسی پارٹی کی نشاندہی کرے ہمیں مشترکہ جد و جہد کی جانب بڑھنا ہی ہوگا ۔

اگر آج دلتوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کی جارہی ہے تو مسلمانوں کو ان کے ساتھ ہر صورت میں کھڑا ہونا چاہئے ۔گجرات میں تو مسلمانوں نے ایسا کیا ہے لیکن اور دوسری جگہ اس کی مثالیں دستیاب نہیں ہیں ۔اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو یقین جانئے کہ ہندوستان میں ہم آج بھی باوقار طریقے سے رہ سکتے ہیں ۔ورنہ تو حالات دیکھ ہی رہے ہیں ۔اس ملک میں خلفشار کا ذمہ دار صرف وہی ڈھائی تین فیصد آبادی ہے جو نسلی برتری میں مبتلا ہے ۔اس کا علاج پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے اتحاد اور مشترکہ لائحہ عمل سے ہی ہو پائے گا ۔کیا ہمارے قائدین اس جانب پیش قدمی کو تیار ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔