مسلمانوں کے زوال کا اہم سبب: امت واحدہ کی جماعت سے محرومی

مولانا کمال اختر قاسمی

امت مسلمہ خلافت راشدہ کے بعد سے ہی جماعت سے محروم ہوگئی، خلفاء راشدین نبوی ذمہ داریوں ’’تلاوت آیات تزکیہ نفس، اورکتاب و حکمت کی تعلیم کی پوری طرح نیابت کرتے رہے، وہ جہاں بانی و جہاں بینی کی صلاحیتوں سے بہرہ ور تھے، ان میں صالحیت بھی کمال درجہ کی تھی اور صلاحیت و لیاقت میں کوئی ا نکا ثانی نہیں تھا، یہی وہ شرائط ہیں جن کی بنیاد پر قوموں کے لیے زمین کی وراثت طے کی گئی ہے۔

 اورزبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اس میں  ایک بڑی چیز ہے عبادت گذار لوگوں کے لیے۔(الانبیاء: ۱۰۵-۱۰۶)

   لیکن افسوس کہ خلفائے راشدین کے بعد امت کی یہ حالت باقی نہ رہی، فتنوں نے سر اُٹھایا، لوگ مختلف گروہوں اور پارٹیوں میں بٹتے چلے گئے، اور بہت بڑا لمیہ یہ ہوا کہ ان پارٹیوں کو جو خالص سیاسی مقاصد اورعہدہ و مناصب کی حصولیابی کے لیے وجود میں آئیں مذہبی قالب میں ڈھال دیا گیا، لوگ انہیں مذہبی جذبات سے دیکھنے لگے۔

 بہرحال خلافت اپنی اصل حیثیت سے ہٹ کر ملوکیت اور بادشاہی میں منتقل ہوگئی، بادشاہ ملک کو اپنی مملکت سمجھ کر اس کے تمام سیاہ و سفید پر مکمل دسترس رکھنے لگا۔آخر کار منصب نبوت کے تینوں شعبے مختلف حصوں میں منقسم ہوگئے، خلیفہ یا بادشاہ حکمرانی ہیں ، مجتہدین و فقہاء اجتہاد میں اورروحانی اصلاحات کے لیے الگ مستقل جماعت تیار ہوگئی، یہ تینوں قوتیں نہ یہ کہ صرف مستقل ہوگئیں بلکہ ان میں شدید ناروا مخالفتیں پیدا ہوگئیں ۔ارباب اقتدار ان تینوں اداروں پر کنٹرول رکھنا چاہتے تھے اور جس طرح چاہتے استعمال کرتے، ان کے خلاف زبان کھولنے والوں کو سخت سزا بھی دی جاتی تھی، اس طرح مسلمانوں میں انتشار اور خانہ جنگیوں کا طوفان برپا ہوجاتا تھا، رفتہ رفتہ یہ اختلاف بڑھتا چلا گیا اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ اصل خلافت جو منصب نبوت کی نیابت تھی، اس کا تصور تک محو ہوگیا، کہیں تصوف کے کسی سلسلے کو اصل خلافت مان لیا گیا، کہیں اربابِ اجتہاد اور ائمہ کی خلافت کو اصل سمجھا گیا، ادھر اربابِ اقتدار ان اداروں کو اپنی اپنی خلافتوں میں مشغول رکھ کر آزاد حکومت سازی شروع کردی، امت مسلمہ کی کوئی جماعت نہ رہی، بلکہ امت واحدہ کی وحدت متنوع بے اثر اور باہم معارض جماعتوں میں منشر ہوگئی۔

محرومیٔ جماعت کے جتنے سنگین نقصانات ہوسکتے تھے سب اس امت پر در آئے جن کا خمیازہ امت مسلمہ کو ہر قسم کے زوال، ذلت و رسوائی اور بھیانک خسارہ کے ذریعہ بھگتنا پڑا اور سب سے بڑی بات یہ پیش آئی کہ امت مسلکی جھگڑوں اور مکاتب فکر کے تنازعات میں باہم دست و گریباں ہو گئی۔ جماعت کی جگہ اپنی اپنی جماعت کو ہی اصل ماننے لگی اور حق کو اپنے دائرہ میں اس قدر محصور کردیا گیا کہ دیگر مکاتب فکر کی تردید و اابطال کو اپنی نجات کا اہم ترین ذریعہ مان لیا گیا۔

 احادیث میں جماعت واحدہ کے التزام پر خاصا زور دیا گیا ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ کے یہاں وہ اسلام ہی معتبر نہیں ہے جو جماعت کے بغیر ہو، حضرت عمر کا مشہور قول ہے:

انہ لا اسلام الا بجماعۃ ولا جماعۃ الا بامارۃ ولا مارۃ الا بطاعۃ۔(سنن الدارمی، باب ذہاب  العلم، ۲۵۷)

  بلا جماعت کے اسلام کا کوئی تصور نہیں اور کوئی جماعت بغیر امامت کے نہیں ہوسکتی اورامامت اطاعت و فرمانبرداری کے بغیر نہیںچل سکتی، قرآن مجید میں لزوم جماعت کی خاص طور پر تاکید کی اور تفرقہ بازیوں کو کمزوری اور زوال کی لازمی وجہ قرار دیا گیا۔

   ایک جگہ ارشاد ہے:

    واعتصموا بحبل ا ﷲ جمیعاً ولا تفرقوا۔ (آل عمران: ۱۰۳)

   سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔

  ایک جگہ  ارشاد ہے:

واطیعوا للہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم واصبروا ان اﷲ مع الصابرین۔ (الانفال: ۴۶)

 اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں تنازعات پیدا مت کرو ورنہ تم کمزور ہوجائوگے اور تمہاری اکھڑ جائے گی۔

 اس آیت کے ذیل میں اللہ کے رسول نے فرمایا:

   ثلاث لا یغل علیھن قلب مسلم، اخلاص العمل ﷲ و مناصحۃ ولاۃ الامور، و لزوم جماعۃ المسلمین(مسند احمد: ۱۳۳۵۰)

تین چیزیں ایسی ہیں جن سے ایک مسلمان کا دل خیانت نہیں کرسکتا۔ عمل کو اللہ کے لیے خالص کرنا، اولیاء امور کے ساتھ خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کا لزوم۔

  امام نووی ولا تفرقوا کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

     فھو امر بلزوم جماعۃ المسلمین وتالف بعضھم ببعض وھذہ احدی قواعد لاسلام (شرح النووی لمسلم ۱۷۱۵)

   یہ جماعت المسلمین کے لازم پکڑنے کا حکم ہے اور یہ کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر شیرازہ بندی کریں اور یہ اسلام کی اہم بنیاد ہے۔

قرآن مجید میں تمام مسلمانوں کو بھائی قرار دیا گیا ہے۔ ایک خلیفہ اور صالح قیادت پر بیعت کو بعینہٖ اللہ سے بیعت کرنا قرار دیا گیا اور اس کی پابندی پر کامیابی کا وعدہ کیا گیا۔  (الفتح: ۱۰)

ا ے نبی جو لوگ آپ سے بیعت کررہے تھے وہ در اصل اللہ سے بیعت کررہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا، اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا اور جو اس عہد کو وفا کرے گا، جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

جماعت سے محرومی کی چند شکلیں اور محرکات

مرکزیت کا خاتمہ

 فطرت کا تقاضا ہے کہ جب کوئی شئے اپنے مرکز سے اس طرح الگ ہوجاتی ہے کہ اسے اپنے مرکز و مرجع کا علم تک نہیں رہتا تو اس میں اختلاف اور تفریق و انتشار پیدا ہوجاتا ہے، وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بے کار اور دوسروں کی مرہون منت بن جاتی ہے، اس کا اپنا صحیح وسالم وجود تک باقی نہیں رہتا۔

   یہی حال امت مسلمہ کا ہوا، انہیں اپنی مرکزیت کا خیال تک باقی نہیں رہا  اور اس طرح ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوئی کہ ہر گروہ نے الگ الگ دائرے مقرر کرکے خود کو اہل حق اور دوسرے کو باطل قرار دے کر الگ الگ زعم و گمان میں خود کو مرکز فرض کرلیا، نتیجتاً امت مسلمہ پوری دنیا میں بے وقعت ہوگئی، ہر امور میں وہ دوسروں کی مرہون منت بن گئی، اسے مجبور ہونا پڑا کسی اور کو مرکز بنانے پر امور سیاست سے لے کر معاشی اصول و ضوابط اور زندگی گذارنے کے تمام طریقہائے حیات تک میں غیروں کی رہنمائی اور انہی ں قبلہ تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہا۔

 جبکہ قرآن مجیدپوری امت کے لیے ایک مرکز و مرجع مقرر کرتا ہے جس کی طرف تمام امور زندگی اور تماممعاملات میں رجوع کیا جائے، وہی کتاب و سنت اور آئین ربانی کو نافذ کرے، اسی کی نگرانی میں تعلیم و اجتہاد اور قضا و عدالت کے کام انجام پائے۔ اسی کی ماتحتی میں تزکیہ نفوس کی ذمہ داریاں ادا کی جائیں ، ایسا ادارہ ہو جو منصب نبوت کی تمام ذمہ داریوں کی نیابت کرے۔

 اے ایمان والوں اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور ان لوگوں کی جوتم میں سے صاحب امر ہو، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہے۔ (النساء:۹۵)

 مرکزیت کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی ماتحتی میں مشکلات و مصائب کے وقت مناسب حل تلاش کیا جائے، گروہ ہو کر الگ الگ حل تلاش کرنے سے مشکلات دورہونے کے بجائے اور ہی زیادہ خوفناک شکل اختیار کرلیں گی، اس لیے ایک ایسے ذمہ دار ادارہ کے سامنے بات رکھی جائے جو مناسب تجویز پیش کرسکے۔

  یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلادیتے ہیں ، حالاں کہ اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں ، تم لکگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔(النساء:۸۳)

مسلمانوں کا فرقوں اور مذہبی تشد د میں مبتلا ہوجانا

 مسلمانوں کی زبوں حالی میں اس کا اہم کردار رہا ہے کہ سیاسی بنیادوں اور ذاتی اغرا ض و مقاصد کے لیے امت میں تفریق پیدا کی گئی۔ عہدہ و مناصب کے بازی بازی گروں نے اس مضبوط و متحد امت کو شیعہ اور سنی دو متحارب گروپوں میں تسیم کیا، یہ تفریق خالص سیاسی بنیادوں اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تھی، لیکن سیاسی اذہان نے اسے مذہبی قالب میں ڈھال کر اس تفریق کو  مذہبی تقدسات اور دینی جذبات کا حصہ بنادیا، اس طرح امت مسلمہ دو متحارب اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی جماعتوں میں منقسم ہوگئی، آگے چل کر کلامی منہ شگافیوں کا دور دورہ ہوا، اسی طرح فقہکے نام پر شدید اختلافات پیدا کرائے گئے، جبکہ علم کلام یا علم فقہ، نصوص و آثار کے گہرے مطالعہ کا نام تھا جن سے دینی احکام اور ان کے جزئیات کی مناسب تہ تک پہنچا جاسکے، اس طرح نصوص کی تفہیم میں ضرور وسعت ہوئی، فقہاء و مجتہدین کی گراں قدر خدمات کے نتیجہ میں بہت سے مسائل شرعیہ تک رسائی، مختلف آراء رکھنے والے مجتہدین کبھی بھی کسی کی تغلیط و تضلیل نہیں کرتے تھے، بلکہ ا ن کے آپسی احترام اور قدر و منزلت کے سینکڑوں واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔

 لیکن حکمرانوں نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان ا جتہادی اختلافات کو تشدد کا رنگ دے کر سیاسی مشنریز کے ذریعہ امت کے درمیان مسلکی دیواریں کھڑی کیں ، باہمی تنازعات کو بھڑکانے اور مسلکی اختلاف کو تنازع کی شکل دینے کی کوشش کرتے رہے، تاکہ امت کا غیور طبقہ ان تنافرات میں الجھ کر ارباب اقتدار کی زیادتیوں اور ملوکیت کے مظالم سے بے توجہ رہیں چنانچہ حکومت کی طرف سے حسب ضرورت کبھی کسی مسلک کی سرکاری تائید کی جاتی اور دوسرے کی مخالفت، مثال کے طور پر شریف ابوالقاسم جب بغداد میں نظام الملک کی طرف سے سرکاری خطیب مقرر ہوئے تو وہ منبر پرعلی الاعلان کہتے تھے کہ:

 ’’امام احمد بن حنبل اگرچہ کافر نہیں تھے لیکن ان کے تمام پیروکار کافر ہیں ۔‘‘   (ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، طبع : بیروت، جلد ۱۰، ص۱۲۴)

حکومتیں حسب ضرورت کسی مسلک کی ترویج کرتی اور کسی سخت مخالفت، اس طرح مسالک کی ترویج سلطنتوں کے زور سے ہوا کرتی تھی۔علامہ شبلیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’دو مذہبوں نے سلطنت کے زور سے ابتدا میں ہی رواج حاصل کرلیا، ایک ابوحنیفہؒ کا مذہب، کیوں کہ قاضی ابویوسف کو جب قاضی القضاۃ کا منصب ملا تو انھوں نے صرف حنفی لوگوں کو ہی عہدہ قضا پر مقرر کیا، دوسرا اندلس میں امام مالک کا مذہب کیوں کہ امام مالک کے شاگرد یحییٰ صمودی خلیفہ اندلس کے نہایت مقرب تھے اور کوئی شخص ان کے مشورہ کے بغیر عہدہ قضا پر مقرر نہیں ہوسکتا تھا، اور وہ صرف اپنے ہم مذہبوں کو ہی مقرر کرتے تھے۔‘‘ (شبلی نعمانی، سیرت النعمان،ص:۱۴۹)

 یہ مسلکی اختلافات صرف نظریات اور دلائل تک محدود نہیں رہ گئے بلکہ عقائد و ایمانیات تک جا پہنچنے اور ایک دوسرے کو کافرکہنے کا رواج چل پڑا۔ اس کے علاوہ آپسی کشمکش کا طوفان اس حد تک بڑھ گیا کہ ایک ایک مسجد میں کئی کئی مسالک کے ائمہ رکھے جاتے تھے۔ ابن بطوطہ اپنی چشم دید حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ایک مسجد میں تیرہ تیرہ امام مقرر کیے جاتے تھے، شافعی، حنبلی، حنفی، مالکی، مشہد علی والا، مشہد حسین والا، اس طرح متعدد طرز کے ائمہ نماز پڑھنے کے لیے مقرر کیے جاتے تھے۔ (رحلۃ ابن بطوطہ، بیروت ۱۹۶۴، ص: ۹۳)

خود مسجد حرام کا حال یہ تھا کہ ہر مسلک کے الگ الگ امام مقرر ہوتے، اور نمازیں تو لوگ اپنے مسلک کے ائمہ کی اقتدا میں آسانی سے پڑھ لیتے تھے، لیکن مغرب میں وہ لوگ کیا کرتے تھے، ابن بطوطہ کی زبانی سنئے:

 ’’مغرب کی نماز ہر مسلک کے امام اپنے مقتدیوں کو ایک وقت میں پڑھاتے تھے، چنانچہ مقتدیوں میں خلط ملط اور بھول چوک ہوجاتی تھی، کوئی رکوع میں ہے تو کوئی سجدہ میں ۔ (رحلۃ ابن بطوطۃ: ص۱۶۰، حوالہ سابق)

 اس وقت بھی امت کے مصلحین حکمرانوں کی طرف سے کی جانے والی تفریقی سازشوں کو خوب سمجھتے تھے اور وہ لوگ ارباب سیاست کی گرفت بھی کرتے تھے۔ مثلاً امام شوکانی نے حاکم وقت سلطان برقوق کی اس طرح کی سازشی حرکت پر سخت مخالفت کی اور علی الاعلان یہ بیان کیا کہ:

  ’’عمارۃ المقامات بمکۃ المکرمۃ بدعۃ باجماع المسلمین، أحدثھا اشر الملوک الجراکس فرح بن برقوق فی اوائل المائۃ التاسعۃ من الھجرۃ وأنکر ذلک اھل العلم فی ذلک العصر وضعوا فیہ مؤلفات (الارشاد السائل الی دلیل المسائل:ص۵۸)

یعنی مکہ مکرمہ میں مصلوں کا قیام بدعت ہے۔ اس پر مسلمانو ں کا اجماع ہے۔ اس بدعت کو بدترین حکمراں فرح بن برقوق نے نویں صدی ہجری کے آغاز میں رائج کیا۔ اس زمانہ کے بہت سے اہل علم نے اس کی مخالفت کی اور اس تعلق سے متعدد تصانیف لکھیں ۔

   ان کے علاوہ امت مسلمہ کو اختلاف و انتشار کے دلدل میں دھکیلنے کی اور بھی بھیانک صورت حال ہے، جس کی تفصیل کی یہاں پر گنجائش نہیں۔

خلاصہ یہ کہ دین کے نام پر اختلاف دین میں اختلاف کا ذریعہ بن گیا۔ آج امت کی جو صورت حال ہے وہ نہایت گمبھیر ہے۔ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث کی شکل میں جو بھیانک اختلافات امت مسلمہ کے سینے میں خنجر گھونپ رہے ہیں انھوں نے تو بچی کھچی قوت اتحاد کو بالکل جلا کر خاکسر کردیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کی تردید و ابطال کے لیے شعبے قائم کیے جارہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف سینکڑوں مقدمات عدالتوں میں درج کیے جارہے ہیں اور ان پر حکومتیں کاروائیں کررہی ہیں ۔ رسول واحد کی امت واحدہ کی مساجد پر مسلکی آلودگی کی وجہ سے حکومت کو تالے لگانے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔تماشہ یہ کہ ہر ایک کو اپنے حق ہونے اور دوسرے کے باطل ہونے پرشرح صدر اور مکمل یقین بھی ہے۔

 قرآن مجید اختلاف و انتشار کو زہر قاتل سمجھتا ہے اور اس کو مسلمانوں کے زوال کی اہم وجہ بتاتا ہے، قرآن مجید واضح طور پر بیا ن کرتا ہے کہ باہمی اختلاف و انتشار اجتماعی قوتوں کو اس حد تک کمزور کردیتا ہے کہ یہ جماعت دھیرے دھیرے اس حیثیت تک پہنچ جاتی ہے جیسے کسی غبارہ سے ہوا نکل گئی ہو، نہ دم نہ خم، نہ عملی کردار نہ اس میں دشمنوں کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت نہ اپنے بقا و تحفظ کے لیے سعی کا جذبہ اور نہ ہی اس میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی جرأت ہوسکتی ہے۔ اس پر ایسی بزدلی اور نارکارگی چھا جاتی ہے کہ اس کا وجود نہ خود کے لیے نفع بخش ہوتا ہے نہ دوسروں کے لیے۔ نہایت مشکل حالات میں اہم رہنمائی کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ، وَأَطِیْعُوا اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ  (الانفال: ۴۵-۴۶)

 اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب تمہارا کسی گروہ سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں مت جھگڑ،و ورنہ تمہارے اندر کمزور ی پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

قرآن مجید جہاں سبب زوال سے متنبہ کرتا ہے وہیں اس حقیقت کی طرف بھی واضح اشارہ کرتا ہے کہ جو قوم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہو کر تباہ و برباد نہیں ہوسکتی۔ ہاں جو قوم اللہ کی رسی کو چھوڑ کر مسلک و مشرت کے تانے بانے میں الجھ جاتی ہے اور مسلکی تصلب اس کا امتیاز بن جاتا ہے تو پھر وہ کسی اور کے پٹے اپنی گردنوں میں ڈالنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور اس کو گردن کی طوق نہیں بلکہ حسین زیور سمجھ کر فخر و امتیاز کا اظہار کرنے لگتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

 واعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران: ۱۰۳)

  (تم سب مل کر اللہ کی رسی کو  مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو)۔

 قرآن مجید میں ان لوگوں سے رسول اللہ کی برأت اور عدم تعلق کا واضح انداز میں اعلان کردیا گیا جو دین کے نام پر الگ الگ بٹ کر امت مسلمہ کی اتحادی قوت کو ختم کرنے کی شرارت کرتے ہیں ۔

  إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُواْ دِیْنَہُمْ وَکَانُواْ شِیَعاً لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْْء ٍ إِنَّمَا أَمْرُہُمْ إِلَی اللّہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُم بِمَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (الانعام: ۱۵۹)

(جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ بن گئے یقینا ان سے تمہارا کچھ تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتادے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا ہے)۔

 تفرق و انتشار نہ یہ کہ صرف قوموں کے زوال کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ انہیں آگ میں ڈالے جانے کے اسباب بھی فراہم کردیتا ہے، اور بھیانک قسم کے دنیاوی اور اخروی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ قرآ ن مجید میں ارشاد ہے:

وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء  فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (آل آعمران:۱۰۳)

  (اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے، تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑ دئے، اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے اللہ نے تم کو ا س سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے۔ شاید تمہیں سیدھا راستہ نظر آجائے)۔

 ایک جگہ مسلمانوں کو ان قوموں کی طرح نہ بننے کی تاکید کی گئی جنھوں نے واضح تعلیمات کے باوجود اختلاف و تفریق کی شکار

ہوگئیں ، ارشاد ہے:

 وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (آل عمران: ۱۰۵)

(اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے او رکھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوگئے ایسے لوگوں کے لیے بڑا بھیانک عذاب ہے)۔

 قرآن مجید کی بیان کردہ یہ تنبیہات کیا آج ہمارے لیے تازیانہ عبرت نہیں ہے، کیا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ امت مسلمہ فرقوں اور طرح طرح کے انتشار میں مبتلا ہے اور اس کے افراد کی بڑی بڑی بھیڑ کو ایک ساتھ لوگوں آگ میں جلایا جارہا ہے۔ ان کی پوری آبادیوں پر پٹرول اور دھماکہ خیز ذرات چھوڑ کر آگ لگا دی جاتی ہے۔

 قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق اتحاد و اتفاق اتنی عظیم دولت ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے زمین کے خزانوں کے دہانے کھول دیے جائیں تب بھی یہ دولت حاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن امت مسلمہ کے ساتھ اللہ کا خصوصی فضل ہوا کہ ایک رسول کے ذریعہ عظیم اتحاد کی مضبوط بنیاد ڈالی گئی۔ افسوس آج ہم معمولی مفاد اور محض تنگ نظری اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اتنی عظیم دولت کو تباہ و برباد کئے بیٹھے ہیں اور اختلاف و انتشار کی آلودگی میں ملوث ہو کر عروج و بلندیاور کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی واپسی کی تمنا کئے پھر رہے ہیں۔

 ْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَـکِنَّ اللّہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ (الانفال: ۶۳)

 اگر تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کرڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل جوڑ دیئے

تبصرے بند ہیں۔