جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

محمد حسن

انسان جہاں رہائش اختیار کرتا ہے وہاں کے رموزواوقاف سے اتنی اچھی طرح واقف ہوتا جاتا ہے کہ وقت آنے پر اس کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے، اگرجگہ من کو بھا جائے تو جب تک چاہے ٹھکانہ بنائے رکھے اور جب من بھر جائے تو اس کی مذمت کرکے اسے نذر آتش کردے، انسانی فطرت میں اس قدر تبدیلیاں اور عروج وزوال ہیں کہ ایک پل نہیں لگتا حالات کے بدلتے اور فکری تبدیلی آتے، انسان جب تک آرام وآسائش کی سانس لے کوئی بھی جگہ اسے چاہے کتنی بھی قبیح کیوں نہ ہو بھلی معلوم ہوتی ہے اور جب وہاں دق محسوس ہونے لگے تو محل بھی اس کے سامنے ہیچ پڑجاتا ہے اور وہ اس طرح اُب جاتا ہے کہ وہاں لاکھوں خیر میں بھی اسے صرف شر ہی شر نظر آتا ہے، کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں صحیح اور غلط اور ہر چیز میں خیر اور شر کا پہلو شامل ہوتا ہے، ہاں غلبہ جس چیز کا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور استعمال کرنے والے پر انحصار رہتا ہے کہ وہ اسے کس طریقے سے استعمال میں لاتا ہے اور اس کے منفی اور مثبت اثرات سے کس طرح محظوظ ہوتا ہے، چاہے تو وقت رہتے پہلوتہی اختیار کرے اور چاہے تو اسی میں ملوث رہے لیکن وقت گزرجانے پر ہاتھ پیر مارنا کچھ کام نہیں آتا لیکن کسی طرح گرم توے پر روٹی سینکنے کا عمل ضرور ثابت ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں علی گڑھ کے پروگرام میں سابق وزیز قانون اور کانگریس کے بزرگ لیڈر سلمان خورشید صاحب نے بہت صاف لہجے میں یہ قبول کیا کہ ہاں کانگریس کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں اور انہوں نے یہ بھی قبول کیا کہ کانگریس کے دورِحکومت میں بھی بیشتر بڑے فسادات ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی جانیں گئی ہیں اور ان کی حکومت خاموش چپی سادھے رہی، کوئی قانون عمل میں لایا گیا اورنہ ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا گیا، ان کا یہ بیان جہاں سیاسی گلیاروں میں نیا رنگ بھرتا ہے وہیں ان کا رویہ بھی کانگریس کے تئیں صاف ظاہرہوجاتا ہے اوراس سے یہ بات صاف ہے کہ ان کا رجحان کانگریس سے ہٹ کر کسی دوسری پارٹی کی طرف ہوتا جارہا ہے جس کی گتھیاں صرف وقت ہی سلجھا سکتا ہے۔

آج کے اس سیاسی ہلچل میں کس کا چہرہ کتنی پرتوں میں ڈھکا ہوا ہے قیاس سے پرے ہے، لیکن سیاسیت کرتے وقت کچھ حقیقتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے ورنہ منہ کے بل گرتے دیر نہیں لگتی جیسے اپنے دور اقتدار میں کیا کچھ اقدامات خیروشر کے لئے کئے گئے اور کہاں تک ان کی حمایت عوام کو ملی اور بروقت پارٹی میں ان کا رول اس کےتئیں کیسا رہا، وہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہوگا کہ ہنگامی حالات میں جب تک آدمی اپنے ٹوٹے آشیانے میں سرچھپائے ہے محفوظ ہے لیکن باہر نکلتے کچلتے دیر نہیں لگتی، حالیہ دنوں میں بہار کی سیاست نے جہاں اپنے رخ کوموڑکر نئے سنگینیوں کا سامنا کیا ہے وہیں کھلے عام سیاست کے پہریداروں کو یہ پیغام گیا ہے کہ کوئی قدم اٹھاتے دیر نہیں لگتی لیکن انجام سے جھجھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ تاریخ میں ضبط ہوکررہ جاتا ہے۔

سیاست کے اس دور میں جہاں ملک کے بیشترعوام برسر اقتدار پارٹی کے سارے اوامر وتنفیذات سے نالاں ہیں، وہیں آئے دن نت نئے دشواریوں کا سامنا کرکے راہ نجات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے وقت میں جہاں ملک میں کسان کی روٹی خطرے میں ہے اور معصوموں کی آبرو داؤ پر ہے، غریب کی زندگی اذیت بنتی جارہی ہے اوراقتصادی حالات قابل افسوس ہوتے جارہے ہیں، ملک کے حالات میں سدھار اور بہتری کی کوشش کے بجائے سیاسی بازام گرم کرنا، ایک طرف سے دوسری طرف چھلانگنے کی کوشش کرنا، مفاد پرستی پر نظر رکھنا، اپنے مطلب پر نگاہیں جمانا اور ماضی کو برا بھلا کہنے کو صرف یہی کہا جاسکتا ہےکہ جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اردو گلشن ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب محمد حسن صاحب

تبصرے بند ہیں۔