مولانا محمد سالم قاسمی: علم و عمل کا کوہِ گراں

راحت علی صدیقی قـاسمی

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو

جب ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے

   اردو کے مشہور شاعر فراق گورکھپوری نے اپنے ہم عصروں کے لئے یہ شعر کہا ہے، اپنے وجود کو ہم عصروں کے لئے باعث فخر ثابت کیا ہے، یقینی طور پر ان کی شخصیت قابل قدر تھی، ان کے لئے یہ شعر موزوں تھا۔

  خطیب الاسلام حضرت مولانا سالم قاسمی کے انتقال پر احساس ہوا، ان کا دیدار کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا، وہ علماء کی جماعت میں ممتاز تھے، ان کا مقام بلند تر تھا، ان کی شخصیت ہشت پہلو تھی، وہ مصنف بھی تھے، محدث و مقرر بھی، فلسفہ و منطق میں بھی انہیں مہارت حاصل تھی، استدلال کی قوت بھی ان کے جملوں سے عیاں ہوتی تھی، جب پہلی مرتبہ انہیں دیکھا، تو نگاہیں ان کے چہرے پر ٹھہر گئیں، حسن و دلکشی، متانت و سنجیدگی، تصوف و بزرگی کے تمام تر لوازمات ان کے چہرے پر موجود تھے، لمبی ستواں ناک،درازی مائل چہرہ، سفید رنگ، سرخی مائل، سفید داڑھی، کشادہ پیشانی، نورانیت سے بھرپور نگاہیں، جو اٹھتی کم جھکی زیادہ رہتی تھیں، ان کے چہرۂ پُر نور پر نگاہ پڑتے ہی قلب میں اُن کی بزرگی کی چھاپ لگ جاتی تھی، نرم و نازک نحیف و نزار بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے، لیکن جب وہ مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوئے، بخاری پر گفتگو شروع ہوئی تو محسوس ہوا، طاقت ور اور توانا ہیں، دو گھنٹہ مسلسل تقریر ہوئی، زبان و بیان کی لذت کا احساس ہوتا رہا، الفاظ کا انتخاب زبان پر عبور اور علمی شوکت کو ظاہر کررہا تھا، وہ گرج نہیں رہے تھے، برس رہے تھے، ان کی تقریر میں روانی تھی سلاست اور بہاؤ تھا، جس سے مجمع پر سکوت اور ہیبت طاری تھی، ان کی زبان سے الفاظ یوں نکل رہے تھے، جیسے موسلادھار بارش برس رہی ہے، قلوب میں علوم کی کاشت کے لئے ماحول تیار کیا جارہا ہے، طلبہ نے یہ تقریر سنی اپنی اپنی استطاعت کے بقدر سمجھی، حصول علم کی تڑپ قلب میں لے کر اٹھے، اتنی سلاست و روانی  سے تقریر کرنے والا شخص زندگی کی ستر دہائیوں کا طویل سفر طے کرچکا تھا،جن لوگوں نے ان کی تقریر نہیں سنی خطبات خطیب الاسلام کا مطالعہ کریں وہاں پر بھی جملوں کی ساخت و پرداخت سے تقریر کی سلاست و روانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، ان کی علمی قوت، موضوعات کی ندرت بھی خطبات میں محسوس کی جاسکتی ہے،علمی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، اعلیٰ اور معیاری زبان بولتے تھے، منطقی اصطلاحات ان زبان کی پر بے ساختہ جاری ہوتی تھیں، جس سے علوم عقلیہ میں ان کی مہارت کا اندازہ ہوتا تھا،بزرگی و کمزوری کے باوجود جب انہیں لکھتے پڑھتے، مسند درس پر علم کے گو ہر لٹاتے، مطالعہ کرتے مجلس میں علمی و استدلالی گفتگو کرتے دیکھا جاتا تو زبان عش عش کر اٹھتی تھی، قلب ان کا عقیدت مند ہوجاتا، زبان ان کی محنت و جفاکشی اور علم دوستی کی ثنا خواں ہوجاتی تھی، کئی مرتبہ عصر بعد ملاقات کے لئے جانا ہوا ہمیشہ حضرت مہتمم صاحب کو مطالعہ میں مصروف پایا، جب تک ہوش باقی تب تک مطالعہ باقی رہا۔

 تصوف و سلوک میں بھی وہ اعلیٰ مقام پر فائز تھے، میرے ذہن میں اب بھی وہ واقعہ تازہ ہے، جس سے ان کی باطنی کیفیت اور عند اللہ مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے، ساتھ ہی ان کے مضبوط حافظے کی بھی  پہچان ہوتی ہے، کئی سال قبل کی بات ہے، دیوبند و اطراف دیوبند قحط سے دوچار تھا، کئی ماہ تک بارش نہیں ہوئی تھی، کھیتیاں خشک ہونے لگیں تھیں، کسانوں کی پیشانیوں پر بل پڑنے لگے تھے، گرمی کی شدت سے لوگ بلبلا رہے تھے، دارالعلوم وقف دیوبند کے صحن میں نمازِ استسقاء کا انتظام کیا گیا، خطیب الاسلام حضرت مولانا سالم قاسمی نے نماز پڑھائی، سورہ قٓ کی تلاوت فرمائی، اگر چہ ایک دو مرتبہ لڑکھڑائے، لیکن عمر کے اس مرحلہ میں بھی آواز صاف تھی ذہن میں پختگی تھی، یادداشت مضبوط تھی، اللہ نے ایسی دعا قبول فرمائی، باران رحمت کا خوب نزول ہوا، سب خوش ہوگئے، طلبہ کی زبانوں پر حضرت مہتمم صاحب کی بزرگی کا چرچا تھا، یقینی طور پر وہ بزرگ تھے، تصوف میں ان کو اعلیٰ مقام حاصل تھا، حضرت حکیم الاسلام کے خلیفہ و مجاز تھے، حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری سے بھی ان کا اصلاحی تعلق قائم رہا، انتظامی و تدریسی امور میں مشغول ہونے اور اسفار کی کثرت کے باوجود انہوں نے بیعت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا، ان کے خلفاء کی تعداد سو کے قریب ہے، جس سے ان اصلاح باطن کی کوششیں ظاہر ہوتی ہیں اور تصوف کی تئیں ان کی لگن کا اندازہ ہوتا ہے۔

 موجودہ زمانے میں ایک بہت بڑی نسبت حاصل تھی، یوں تو خداوند قدوس نے بہت نوازا تھا، اور وہ خانوادۂ قاسمی کے چشم و چراغ تھے، حضرت نانوتوی سے انہیں نسبی تعلق تھا، علمی اعتبار سے ان کے سچے جانشین تھے، اس کے ساتھ انہیں حضرت تھانوی کے خاص شاگرد ہونے کا شرف حاصل تھا، جو بہت عظیم نسبت ہے، موجودہ زمانے میں کسی دوسرے شخص کو یہ شرف حاصل نہیں ہے، میزان انہوں نے حضرت تھانوی سے پڑھی، علوم تھانوی کی ترجمانی کا حق بھی ادا کیا، پوری زندگی مسند تدریس پر جلوہ افروز رہے، نور الایضاح سے شروع ہوا، ان کا تدریسی سفر بخاری تک پہنچا، درس نظامی کی اہم ترین کتابیں ان سے وابستہ رہیں، عرصہ دراز سے بخاری کا درس دے رہے تھے اور اپنی علمی بصیرت سے احادیث رسول کو طلبہ کے قلوب میں راسخ کررہے تھے، ان کے معانی و مفاہیم پر مطلع کررہے تھے، جب تک زبان میں حرکت رہی، قال اللہ قال الرسول صدا لگاتے رہے، ان کا درس بارہا سنا، بخاری شریف جلد اول کا ابتدائی حصہ ان سے پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا، یقینی طور پر تعلیم وتدریس کے میدان میں وہ یکتا تھے، ان کا مثل تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے، ان کے انتقال سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، اس کا پُر ہونا اس دور قحط الرجال میں انتہائی مشکل ہے، ہو سکتا ہے قارئین مجھے مایوس کا شکار سمجھیں، میں مایوس نہیں ہوں، مگر بظاہر قلب میں یہ احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ مولانا سالم قاسمی کا بدل کیا ہو سکتا ہے، علمی گتھیوں کو اتنی آسانی سے سلجھا دیتے تھے کہ احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ اور مشکل تھا، ایک مجلس میں اس صفت کو میں نے خود محسوس کیا، عقائد سے متعلق ایک مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کئی لوگوں سے دریافت کرنے کے بعد حضرت مولانا سالم قاسمی سے معلوم کیا چند لمحات میں مسئلہ کو واضح کردیا،اور قلب کو تشفی ہوگئی اور یہ احساس ہوا کہ واقعتاً کتنی آسان سی چیز تھی جسے ہم پیچیدہ مسئلہ سمجھ بیٹھے تھے، جس طرح انہوں نے طلبہ کے مسائل کو حل کیا اسی طرح اپنی زندگی کے مسائل کو بھی حل کیا، صبر و تحمل، بردباری و سنجیدگی، ان کی اہم صفات تھیں، قیام دارالعلوم وقف دیوبند ان کے حوصلے ہمت محنت صبر و تحمل کی کھلی دلیل ہے، زندگی کے مشکل دور میں بھی خدمت دین کا فریضہ انجام دیتے رہنا آسان کام نہیں ہے مجبوریاں تجارت و زراعت کی طرف متوجہ کردیتا ہیں، لیکن انہوں نے صبر و ضبط سے کام لیا، اور یہ ادارہ قائم کیا، پوری محنت و توانائی کے ساتھ زندگی بھر اس کی خدمت انجام دیتے رہے، قلم، زبان، وقت ہر شء اس کے لئے قربان تھی، ان کی محنتوں کا صلہ ہے کہ آج یہ ادارہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے، اور تعارف کا محتاج نہیں ہے۔

 انتظامی صلاحیتوں میں وہ قاری صاحب علیہ الرحمہ کے سچے جانشین ثابت ہوئے، جس کا مظاہرہ انہوں نے پوری زندگی دارالعلوم وقف دیوبند کے اہتمام سے وابستہ رہ کر کیا، ملازمین کا خیال رکھتے تھے، نرم مزاج و نرم دل تھے، ملازمین کو اپنے عزیزوں کی طرح رکھتے تھے، طلبہ سے بے پناہ محبت و شفقت کا معاملہ کرتے تھے، مدرسہ میں مشہور تھا جس طالب علم کا کھانا بند ہوتا، اور وہ درخواست لے کر حضرت مہتمم صاحب تک پہنچ جاتا تو فوراً کھانا جاری کردیا کرتے تھے، کبھی یہ نہیں سنا کہ وہ کسی طالب علم سے ناراض ہیں، کسی ملازم سے ناراض ہیں یا کوئی ملازم ان سے ناراض ہے، شفقت کا معاملہ کرنا ان کا امتیازی پہلو تھا،وہ ایک کامیاب مہتمم و منتظم تھے، اور بھی بہت سے اداروں نے آپ کی اس مہارت سے فائدہ اٹھایا، اور آپ کئی عظیم اداروں کی انتظامیہ سے وابستہ رہے، جن میں قابل ذکر مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے، جو مسلمانوں کی سب اہم تنظیم ہے، آپ اس کے نائب صدر تھے، مجلس مشاورت کے صدر تھے، اور ان تمام اداروں میں ان کی خدمات قابل قدر تھیں ۔

 آپ کی شخصیت عظیم تھی، ان چند سطروں میں اس کا احاطہ ممکن نہیں ہے، قلم کاروں پر قرض باقی رہے گا، جب تک وہ آپ کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر گفتگو نہیں کرتے، چونکہ آپ کی زندگی آنے والے افراد کے لئے سبق ہوگی، یقینا فراق کا شعر پڑھ کر احساس ہو رہا ہے، آنے والی نسلوں کے لئے وہ نگاہیں قابل قدر ہوں گی جنہوں نے اِس عظیم شخصیت کو دیکھا، ان سے فیض حاصل کیا، ان کے علم وکمال فضل و تقوی کے گواہ بنے اور ان سے استفادہ کیا۔ ہمارے لئے باعث فخر ہے، ہم نے حضرت مولانا سالم قاسمی کو دیکھا، ان کے علم و فضل سے استفادہ کیا، ان کے علمی کمالات کا مشاہدہ کیا، مجلس میں بھی ان کی علمی بلندی کے نمونے دیکھے، دوران تدریس ان کے علم کا جوہر دیکھا، ان کی چال ڈھال، عادت و اطوار کو دیکھا، وہ یقیناً بہت بڑے آدمی تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔