مسلمان اور یو پی کی سیاست

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

جوں جوں الیکشن قریب آرہا ہے، تمام پارٹیاں مسلم ووٹوں پر قبضے کی کوشش میں لگ گئی ہیں۔ آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ کے بعد اترپردیش میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد جوہے۔ یہاں مسلمان دلتوں سے دوفیصد کم یعنی 19فیصد ہیں۔ 403سیٹوں والی اسمبلی میں آدھے سے زیادہ سیٹوں پر وہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں کی بدولت ملائم سنگھ اقتدار کی ملائی کھاتے رہے۔ 2012کے انتخاب میں مسلمانوںنے ہی سماجوادی پارٹی کو کامیاب بنایاتھا۔ سیاسی پنڈتوں مع ملائم سنگھ کو ایسی کامیابی کی امید نہ تھی۔لیکن بدلے میں مسلمانوں کو فرقہ وارانہ واقعات، تعصب اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ اس میں بریلی، مظفر نگر، کانٹھ، کیرانہ، دیوبند اور بجنور وہاشم پورہ ،ملیانہ کے مظلومین کو انصاف نہ ملنا جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔ مسلمانوںسے کئے گئے ترقی وروزگار کے وعدے بھلادیئے گئے۔ پہلے دوسال میں سماجوادی سرکار کی بھاجپا کے ساتھ فرقہ وارانہ جگل بندی شاید پارلیمانی انتخابات میں اچھی کامیابی حاصل کرنے کے ارادے سے رہی ہوگی۔ لیکن اس کا الٹا ہی ریزلٹ سامنے آیا۔ ملائم سنگھ اپنے گھر کے لوگوں کی پانچ سیٹیں بھی مشکل سے بچاپائے۔
بہار میں مہاگٹھ بندھن سے ناطہ توڑ کر بھی ملائم سنگھ نے بھاجپا کی مدد کا اشارہ دیاتھا۔ چار سال کے بعد اچانک شیوپال یادوکو پارٹی وسرکار میں موجودبدعنوان،کرپٹ وزیراور آفیسر نظر آنے لگے۔ شیوپال اور اکھلیش کا اختلاف خاندانی جھگڑے کے طورپر چرچا کا موضوع بنا۔ عام طور پر لوگوں نے اسے پارٹی وسرکار پر تسلط کا خاندانی جھگڑا بتایا۔ لیکن اس کی سیاسی عبارت اتنی آسان نہیں ہے۔دراصل اس نوراکشتی کے تین اہم پہلو ہیں۔ پہلا مسلم یادو گٹھ جوڑ کو کیسے قائم رکھا جائے؟ کیوں کہ مسلمانوںمیں موجودہ سرکار سے ناراضگی پائی جاتی ہے۔ دوسرا اقتدار میں موجود دبنگوں کے ذریعہ زمین جائیداد پر چار سال کے دوران قبضے کی مہم سے سماج میں پیدا ہوئے غصہ سے کیسے نمٹا جائے؟ تیسرا قانون وانتظامیہ کے گڑہے میں جانے سے پیدا صورتحال کی کاٹ کیسے کی جائے؟آگرہ کا واقعہ قانون وانتظامیہ کی ناکامی کی بڑی مثال ہے۔یہ تینوں پہلو یوپی کے آنے والے انتخاب پر بہت گہرا اثر ڈالنے والے ہیں۔ یادومسلم گٹھ جوڑ ٹوٹنے کے کگار پر ہے۔ دائو پیچ کی سیاست کے نتیجہ میں سماجوادی پارٹی کی سیاست مشکوک ہوگئی ہے۔ ملائم سنگھ پر بی جے پی کے تئیں’’ملائم‘‘ ہونے کے گمان نے ان کا بھرم توڑ دیاہے۔
اترپردیش کی سماجوادی سرکار میں زمین جائیداد پر قبضے اور کمیشن خوری سے لگے داغوں سے کسی کا دامن بچانہیں ہے۔ شیوپال اور اکھلیش کے تنازعہ سے سرکار اور پارٹی ایسا کرتے ہوئے دکھنا چاہتی ہے کہ اس نے ان سرگرمیوں کو کبھی پسندنہیں کیا تاکہ اس سے ہونے والی بدنامی کو کچھ حد تک کم کیا جاسکے۔ قانون، انتظامیہ کی گڑبڑیوں اور فرقہ پرستوں کی بڑھتی غنڈہ گردی پر قدغن لگانے کے بجائے مجرمانہ بے حسی سے سپا سرکار کو جنگل راج کے الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سماجوادی پارٹی کی یہ پرانی بیماری ہے۔اگر اکھلیش نے وزیراعلیٰ بنتے ہی کوشش کرکے پارٹی اور سرکار پر اپنی پکڑ مضبوط بنائی ہوتی تو شاید وہ ان دبنگوں پر قابو پاسکتے تھے۔ چونکہ انہوںنے اپنے چاچا اور تائو کے اقتدار بانٹنے کی سہل پسند سیاست کرنا پسند کیا اس لئے آج ان کی سرکار سماج کی مخالفت کا سامنا کررہی ہے۔ یوپی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہاں پانچ پانچ وزیراعلیٰ ہیں، اس کے باوجود اکھلیش اقتدار کی نزاکت کو نہیں سمجھ سکے۔ آج وہ ایک سال کے دوران کئے گئے ترقیاتی کاموں کے ذریعہ عوامی مخالفت کو نرم کرنا چاہتے ہیں، یہ آنے والا الیکشن ہی بتائے گا کہ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوئے۔
بہوجن سماج پارٹی ’’سروجن ہتائے، سروجن سکھائے‘‘ کے اپنے پرانے نعرے کے ساتھ میدان میں ہے۔ بسپا نے شروعاتی ریلیوںکیلئے جن مقامات کو چناوہ اس کی سیاست کے اسٹرانگ ہولڈ کیلئے جانے جاتے ہیں۔ ان میں دو جگہ الٰہ آباد اور سہارنپور میں نریندر مودی کی ریلی پہلے ہی ہوچکی ہے۔ مایاوتی نے ان کی ریلی سے بڑی ریلی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ الٰہ آباد میں وہ اس میں کامیاب بھی رہیں۔ دراصل بہوجن سماج پارٹی مودی سے بڑی ریلی کرکے ایک ساتھ کئی پیغام دینا چاہتی ہے۔ ایک تو وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ اصلی مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بسپا کے بیچ ہے، جن میں بسپا بی جے پی سے بیس ہے۔ دوسرے یہ کہ بہوجن سماج پارٹی دوسری پارٹیوں کی طرح الگ الگ علاقوں وریاستوں کے لوگوں کو اکٹھا نہیں کرے گی، بلکہ آس پاس کے رائے دہندگان وسپوٹرس کو بلائے گی۔ ویسے بسپا کا شروع سے یہی طریقہ رہا ہے۔ وہ اپنے ووٹرس کو جمع کرتی ہے پھر انہیں کیڈر میں تبدیل کرتی ہے۔ کئی سطح پر تواس کے ووٹر، سپوٹراور کیڈرمیں کوئی خاص فرق نظرنہیںآتا۔ تیسرے وہ یہ دکھانا چاہتی ہے کہ انتخابی لڑائی میں سماجوادی پارٹی کہیں نہیں ہے۔
مایاوتی نے سماجوادی پارٹی کی گرتی ساکھ کو دیکھتے ہوئے اپنی سوشل انجینئرنگ میں بنیادی تبدیلی کی ہے۔ پچھلی مرتبہ برہمن دلت گٹھ جوڑ کی کیمسٹری کو زمینی سطح تک پھیلانے کیلئے بھائی چارہ کمیٹیاں بناکر شروعات کی تھی۔ اسی طرح 2017کے انتخاب کی حکمت عملی میں دلت مسلم اتحاد کو اہمیت دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے ریلیوں کیلئے ایسے مقامات کو چنا گیا ہے جہاں دلت اور مسلمان آبادی بڑی تعداد میں ہے۔ دلت اور مسلمانوںکے اتحاد کو مضبوط اور اس کا شعور پیدا کرنے کیلئے مقامی وعلاقائی سطح پر دلت۔ مسلم لیڈران کی کور کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کے کارکنان مسلم بستیوں میں جاکر لوگوں کو یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سپا اور بھاجپا آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ مایاوتی نے ستیش چندرا کی جگہ نسیم الدین صدیقی کو اپنا سیاسی محور بنایا ہے۔ انہیں ریاست کے نائب وزیراعلیٰ کے طورپر پروجیکٹ کرتے ہوئے، دلت۔ مسلمانوں کی نمایاں آبادی والے سو حلقوں سے مسلم امید واروں کو کامیاب کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے دلت مسلم اتحاد مضبوط ہوگااور اس کی وجہ سے دوسرے حلقوں میں بھی مسلم رائے دہندگان بسپا کے ساتھ آئیںگے۔ بسپا سپریمو مایاوتی یہ یقین دلارہی ہیں کہ ان کے اقتدارمیںآنے پر دنگے نہیں ہوںگے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے غریب طبقات کو ریزرویشن دینے کیلئے لڑیںگی۔ ان کی سرگرمیاں پسماندہ مسلمانوں کی بستیوں میں زیادہ تیزی سے بڑھی ہیں۔ وہ ’’غریب مسلمان‘‘ لفظ کا استعمال کافی کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری پسماندہ ذاتوں اور غریب طبقات کو بھی جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بار بہوجن سماج پارٹی کا مستقبل اس اتحاد میں اس کی کامیابی سے ہی طے ہوگا۔ مایاوتی دلت ووٹوں کو ہی اپنی بنیاد مانتی ہیں، باقی ووٹوں کو اسٹپنی کے طورپر جوڑنے کی حکمت عملی پر کام کررہی ہیں۔
کانگریس نے شیلا دکشت کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بناکر اپنے قدیم برہمن اور ٹھاکر ووٹوں کو جمع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ راہل گاندھی عوامی رابطہ مہم کے تحت کھاٹ پنچایتیں کررہے ہیں۔ انہوںنے اس رابطہ مہم کے دوران عام دلت، کسان اور مسلمانوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ وہ مہاتما گاندھی کے قتل میں آر ایس ایس کے ملوث ہونے کو لے کر عدالت میںاپنے موقف پر ڈٹے ہیں۔ اس سے کانگریس کی سیکولر امیج بحال ہوئی ہے۔ دراصل کانگریس یوپی میںاپنی موجودگی کا احساس کرانا چاہتی ہے۔ کانگریس کے آر ایس ایس کی معرفت بی جے پی پر حملے کی وجہ سے کچھ سیکولر ووٹ اس کی طرف جاسکتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر وہ مستقبل میںاپنی واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کانگریس کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کی برہمن وادی پالیسی کی وجہ سے ہی اسے یوپی سے باہر ہونا پڑا تھا۔
پارلیمانی الیکشن میں تہتر سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی اس بنیاد پر سماجوادی پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتی ہے۔ اس نے
ٹھاکر، برہمن ووٹوں کو اپنا مان کر اس بار پسماندہ ووٹوں پر دائو لگایا ہے۔ پارٹی کے صدرامت شاہ ریاست میں ریلیاں کررہے ہیں۔ کوزی کوڈ میں وزیراعظم نے مسلمانوں کو نظرانداز نہ کئے جانے کی بات کہہ کر انہیں بی جے پی کے ساتھ جوڑنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس کیلئے مسلم راشٹریہ منچ کے کئی ہزار کارکنوں کو یوپی میں اتاراگیا ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ آرایس ایس ، وشوہندوپریشد، بجرنگ دل جیسی پارٹیوں کو ناراض کئے بغیر مسلمانوں کوجوڑا جائے۔ ان کے ووٹ جزوی طورپر بھی مل جائیںگے تواس میں کوئی گھاٹا نہیں ہے۔ بی جے پی میوات میں پروگریس پنچایت کر مسلمانوںکو جوڑنے کا کامیاب تجربہ کرچکی ہے۔ ا سی طرز پر ملک میں سوسے زیادہ پنچایتیں کرنے کا منصوبہ ہے۔ بہار کی طرح ظفر سریش والا اقلیتوں کی تعلیم وترقی کیلئے کانفرنس کر مسلمانوں کو بی جے پی سے جوڑنے کی کوشش کریںگے۔ کپڑا منتری اسمرتی ایرانی کو بنارس میں لگایا گیا ہے،وہ وزیراعظم کے میک ان انڈیا پروجیکٹ کے تحت بنارسی ساڑی کو تیار کرنے والے مسلم کاریگروں کے فن کو دنیا بھر میں متعارف کرائیںگی۔ اس صنعت سے جڑے بااثر مسلمانوں کی فہرست بھی تیار کی جارہی ہے۔ یہاں کے کسی حلقہ سے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے کر کامیاب کرانے کی بھی خبر ہے۔ اس کے ساتھ تمام تہتر ممبران پارلیمنٹ کو اپنے حلقہ سے امیدوار منتخب کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کیلئے پارٹی رسد مہیا کرائے گی۔
یواین سکریٹری بانکی مون نے بی بی سی سے بات چیت میں سرجیکل اسٹرائیک پر بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ وہیں کجریوال اورکانگریس کے سنجے نروپم نے اسے فرضی قرار دیا ہے۔ بی جے پی نے فوج سے بیان دلواکر اس کی تشہیر کے ذریعہ صوبائی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کی پالیسی اپنائی۔ اس کابھاجپا کو فائدہ ملنے کی توقع ہے۔ بہار کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی سمجھ کی بنیاد پر اسدالدین اویسی کو نکار دیاتھا۔ ان کے پانچ امیدواروں میں سے چار کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ یوپی میں مجلس اتحادالمسلمین ووٹ کٹوا پارٹی کا زیادہ کارگر رول اداکر سکتی ہے۔درحقیقت بھاجپا پارلیمانی انتخاب اور آسام کے ریاستی چنائو کی طرح مسلم ووٹوں کے بغیر جیت کے امکانات بھی تلاش رہی ہے۔
ایسے میں یہ سوال واجب طورپر سامنے آتا ہے کہ مسلمان کہاں کھڑے ہیں۔ کیا وہ اسٹپنی ووٹ کے طورپر کبھی ایک پارٹی کی تو کبھی دوسری پارٹی کی نیا پار لگاتے رہیںگے یا پھراپنی بنیاد پر مسلم سیاست کھڑی کریںگے۔ فرقہ وارانہ فساد،تعصب اور تشدد سے بچنے یاکبھی اس پارٹی کو ہرانے کبھی اس پارٹی کو ہرانے کے نام پر کب تک ووٹ بینک بنیں رہیں گے ۔پچھلے ستر سالوں نے یہ بتا دیا ہے کہ سیاسی ضرورت کے لحاظ سے رہنما سیکولر یافرقہ پرستی کا چولا بدل لیتے ہیں۔ کیا سیکولر کہلانے والوں نے فرقہ واریت کی آخری حدیں پارنہیں کیں؟ کیا فرقہ پرست کہلانے والوں کے ساتھ مل کر سرکاریں نہیں بنائیں؟ مسلم لیڈر شپ کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ جمہوریت میں اس کو اہمیت ملتی ہے جو اقتدار کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ مسلمان اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ہماری ضرورت تو سب کو ہے، بس جو زیادہ دینے کا معاہدہ کرے، برابری کی بنیاد پر اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔