ہجری سال کا آغاز ،فراست عمرؓ کا شاہکار

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

سیدنا عمر ؓ جو در حقیقت مطلوب ِ نبی ﷺ ہیں،اور آپ کے اسلام و ہدایت کے لئے نبی کریم ﷺ نے دعا مانگی،اور آپ ؓ مرادِ نبی بن کر دائرہ اسلام میںتشریف لائے،آپ کے قبولِ اسلام سے نبی کریم ؐ نے خود خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا،اور تمام صحابہ میں فرحت و شادمانی کی لہر دوڑگئی،کس مپر سی کی حالات میں رہنے والے حضرات ِ صحابہ کو اب ایک مضبوط اور پر جوش اسلام کا حامی و مدد گار مل گیا،اور بنی ؐکو اپنا ایک اور جاں باز رفیقِ کار مہیا ہوگیا،اسلام کی عظمت و شوکت اور اس کے پیغام ِ حق و صداقت کے پھیلنے کا خدائی انتظام ہوگیا۔اللہ تعالی نے حضرت عمرؓ کو عجیب و غریب اسلامی ذوق اور بصیرت سے نوازا تھا،معاملہ فہمی،دقت ِ نظراوراصابت ِ رائے کی خوبیوں سے سرفراز کیاگیا،احقاقِ حق و ابطال ِ باطل آپ کا خاص امتیاز تھا۔اسی بنیاد پر آپ کو نبی کریم ﷺ نے فاروق کے لقب سے نوازا ،اور ارشاد فرمایاکہ :ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ(ترمذی؛حدیث نمبر:3644)کہ اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو رکھ دیا۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کے بارے میں فرمایا کہ : عمر ایسا آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔(امیر المؤمنین عمر بن الخطاب:31لابن الجوزیؒ) اللہ تعالی نے آپ کو فہم و فراست اور دانائی و بصیرت سے خوب نوازا تھا، آپ کے کئی ایک مشورے وحی الہی بن کر اترے،اور اللہ تعالی نے آپ کی آراء کو شریعت کا حصہ بنادیا،جن کو’’ موافقاتِ عمر ؓ‘‘ کہا جا تاہے علامہ سیوطیؒ (۔849۔911ھ)نے ابو عبد اللہ الشیبانی کے حوالے سے اس کی تعداد21 بیان کی ہے(تاریخ الخلفاء:100،دار ابن حزم)اسی طرح بہت ساری چیزیں ہیں جن کو سیدنا عمر ؓ نے سب سے پہلے ایجا دکیا ،اور اسلامی تاریخ میں اس کا اضافہ کیا ۔ جن کو ’’اولیات ِ عمرؓ ‘‘کہاجاتا ہے ۔جن کو تمام کتب سے نکال یکجا طور علامہ شبلی نعمانیؒ (1857ء۔1914ء)نے اس کی تعداد۴۵ بتائی ہے۔( الفاروق:401)
بلاشبہ سیدنا عمر فاروقؓ کی ذات ِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت کچھ فیض پہونچا،اور آپ ؓ کی زندگی اسلام لانے کے بعد پوری اسلام کے لئے وقف تھی،آپ نے بہت کچھ اصلاحات دین کے مختلف شعبوںمیں فرمائی ،اور ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوںکے نظام کو بھی درست کیا۔اور بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو ابو بکر و عمر کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔مشہور مصری ادیب عباس محمود العقاد(1889ء۔1964) نے کھا ہے کہ : جو مؤرخ بھی حضرت عمر ؓ کی تاریخ لکھے گا تو وہ آخر میںیہ تاریخ بھی لکھے گا کہ عمر وہ شخصیت ہے جس نے سب سے پہلے ان ان چیزوںکو شروع کیا،اور ان ان چیزوں کی وصیت کی۔یہاں تک کہ وہ اولیات ِعمر کی انتہاء کو پہونچے گا جس کی تعداد دسیؤںہیں۔یہی وہ عبقری ہستی ہیں جس کی مثال نہیں۔ (عبقریۃ عمر:23 بیروت)
الغرض سیدنا عمر ؓ کے کارنامے حیر ت انگیز بھی ہیں اور ان گنت بھی،آپ ؓ نے جن جن عظیم ترین کاموں کی بنیاد ڈالی،اور اپنی فراست ِ ایمانی کے ان کو قائم کیا ان میں ایک سن ِ ہجری کا قیام بھی ہے۔
سن ہجری کی ضرورت:
جب اسلام کا دامن دنیا میں پھیلنے لگا،اور دوردراز کے علاقوں میں پرچم ِ اسلام لہرانے لگا،تو اسی طرح عمال و حکام مختلف شہروں سے خلیفۂ وقت اور امیر المؤمنین سے بہت سے امور میں خط و کتابت بھی کرتے،اور دیگر حال واحوال کی اطلاعات بھی پہونچاتے۔اور جب حضرت عمرؓ کی خلافت کو شروع ہوئے ڈھائی سال کی مدت گذر چکی تو ایک مرتبہ سیدنا عمر ؓ کے پاس ایک چک آیا جس پرصر ف شعبان کا مہینہ لکھا ہوا تھا،جب آپ کے سامنے وہ پیش ہو ا تو آپ نے فرمایا کہ شعبان سے مراد کون سا گذرا ہوا،موجودہ یا آنے والا؟اس واقعہ کے بعد آپؓ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا تاکہ اس مسئلہ کا کچھ حل نکا لا جائے ۔آپ نے صحابہ کے مجمع میں فرمایا کہ ہمیں کس سن سے تاریخ کا آغازکرنا چاہیئے ؟اور پھر مشاورت شروع ہو ئی تو مختلف صحابہ نے الگ الگ رائے پیش کی۔کسی کہا کہ اہل ِ روم کی تاریخ پر شروع کریں ،کہا کہ یہ تو بہت طویل ہوجائے گی کیوں کہ وہ تو ذوالقرنین سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں۔کسی نے اہل ِ فارس کی متابعت کے لئے کہا۔بالآخر حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ اس دن سے اسلامی سن آغاز کیا جائے جس دن رسول اللہﷺ نے شرک کی سرزمین کو چھوڑایعنی ہجرت سے۔حضرت عمر ؓ نے اس رائے کو قبول فرمایا اور سب نے اس پر اتفاق بھی کرلیا،اس طرح سن اسلامی کا آغاز ہجرتِ رسول اللہ ﷺ سے کیا گیا۔(امیر المؤمنین عمر بن الخطاب :61لابن الجوزی ؒ)اور ماہِ محرم الحرام سے سال کی ابتداء طئے پائی کیوں کہ محرم سے ہجرت کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔
ہجرت کو بنیا د کیوں بنایا؟
نبی کریم ﷺ کی زندگی میں اوبھی ر بے شمار مواقع ایسے ہیں جس کو اگر چاہتے تو سن اسلامی کے آغاز کے لئے بلا شبہ اختیار کیا جاسکتا تھا،آپ کی ولادت انسانیت کے لئے ایک عظیم مژدہ تھا،آپ کی بعثت یقینا انسانیت کے لئے بڑی نعمت تھی،فتح ِ مکہ لا ریب بنیا د بن سکتی،پہلا معر کہ ٔ حق و باطل غزؤ بدر کوبھی منتخب کیا جاسکتا،اور اس کے علاوہ ان گنت تاریخی واقعات کو بنیاد بنایا جاسکتا تھا لیکن رائے ہجرت کی دی گئی اور سب نے قبول بھی فرمالیا؟؟؟ؐٔ
دراصل ہجرت رسول کریمﷺ کی حیات ِ مبارکہ کا وہ عظیم پہلو ہے جس نے تاریخ عالم میں انقلاب برپا کردیا،اور دین ِ حق کے کٹ مرنے والے جاں نثار مظلوموں کو سر بلندی اور رفعت کی انتہاء پر پہو نچادیا۔مفکر اسلام حضرت مولانا ابوا لحسن علی ندوی ؒ( 1913ء۔1999ء)نے لکھا ہے کہ: رسول اللہ ؐکی ہجرت سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز و محبوب اور ہر مانوس و مرغوب شے اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے،جس کو ترجیح دینے اور جس سے بہر صورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے،بے دریغ قربان کیا جا سکتاہے،لیکن ان دونوں اول الذکر چیزوں کو ان میں سے کسی بھی چیز کے لئے ترک نہیں کیا جاسکتا۔(نبی ٔ رحمت:213)
امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒا(1888ء۔1958ء)رقم طراز ہیں کہ:
پہلا دور تخم کا تھا،دوسرا اس کے برگ وبار تھے،پہلا دور بنیاد تھا،دوسرا ستون و محراب،پہلانشونماکا عہد تھا، دوسرا ظہور و انفجار کا،پہلا معنی و حقیقت تھا،دوسرا صورت واظہار،پہلا روح تھا، دوسرا جسم ، پہلے نے پیدا کیا، درست کیا،اور مستعد کردیا،دوسرے نے قدم اٹھایا ،آگے برھایا اور فتح و تسخیر کا اعلان کردیا،دوسرے کا ظہورکتنا ہی شاندار ہو ،لیکن بنیادواستعدادکی عظمت پہلے ہی کو حاصل ہے۔(مضامین الہلال بحوالہ:ہجرت مصطفی: 200)
پیغام ِ نصیحت:
بہر حال سن ہجری کا قیام ،اور مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے وابستہ رکھنے میں حضرت عمر ؓ کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے کہ آپ کی فراست نے اس کو حل کردیا،اور اللہ تعالی نے آپ کو جہاں اور سارے اہم امور کو طے کرنے کا خاص ملکہ عطا کیا تھا،اسی ذوق اورمزاج سے ایک ایسی تاریخ سے جوڑ دیا جو ہر قدم پر ایمان والے کو دعوت ِ فکر و عمل دیتی ہے،قربانیوں کی بنیاد پر تعمیر کی گئی اسلام کی اس حسین عمارت کے بقاء و تحفظ،اور ایثار فداکاری کے جذبۂ فراواں کے ساتھ سینچے گئے اس گلشن ِ اسلام کی حفاظت کا انمول سبق دیتی ہے۔اور اس تاریخ کا ہر ماہ بے شمار عبرتوں کے پیغام کے ساتھ جلوہ فگن ہوتاہے،خدا جانے کن کن فکروں اور امیدوں کے ساتھ نبی ﷺ کے ان جیالوں نے آنی والی نسلوں کو اسلامی تاریخ مہیا کرنے کے لئے ہجرت کے واقعہ کو خاص کر اپنایا؟بلاشبہ اسلامی ماہ وسال سے وابستگی کی بنیاد پر یہ امت اپنے اسلاف واکابر کی قربانیوں سے واقف رہے گی،اور اعمال افعال سے منسلک رہے گی،ورنہ تاریخ کے روشن باب،اور دلآویز واقعات کی حسین روداد دوسروں کی تہذیب و ثقافت میں دب کر رہ جائے گی۔اب جب کہ اسلامی سال کا آغاز ہوگیا، اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی سال کو بھی اپنی تاریخوں میں استعمال کریں۔

تبصرے بند ہیں۔