مسلمان سیاسی قوت پیدا کرے

محمد شاذ

مسلمان سیاسی قوت پیدا کریں۔ جنگل میں شور مچا، ہر طرف بهگدڑ مچی، تمامجانوروں نے اکٹھے ہوکر آواز اٹهائی کہ جان کیسے بچائی جائے ؟ جو ظلم و نا انصافی ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ تمام جانور فکر مند ہوے، مگر سب سے زیادہ فکر بهیڑیے کو ہوئی کہ اب اس حالت میں کیا کیا جائےمسلمان سیاسی قوت پیدا کریں محمد وسیم30/01/2017جنگل میں شور مچا، ہر طرف بهگدڑ مچی، تمامجانوروں نے اکٹھے ہوکر آواز اٹهائی کہ جان کیسے بچائی جائے ؟ جو ظلم و نا انصافی ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ تمام جانور فکر مند ہوے، مگر سب سے زیادہ فکر بهیڑیے کو ہوئی کہ اب اس حالت میں کیا کیا جائے ؟

کیونکہ کہ اگر سب اکٹھا ہوگئے تو میری خیر نہیں ہے۔ چنانچہ بهیڑیے نے گھاس کا تنکہ منہ میں لیا اور ایک موٹی چادر اپنے اوپر اوڑھ کر بھیڑوں کے پاس گیا اور بہت ہی پیارے انداز میں کہنے لگا کہ اب وقت بدل گیا ہے۔ دیکھو میں گوشت خور ہوں لیکن اب میرےمنہ میں گھاس کا تنکہ ہے۔ آج سے میں نے گوشت کھانا بند کر دیا ہے۔ اب ہم اور تم مل کر ساتھ رہیں گے۔ یہی حالت سیاسی پارٹیوں کی ہے۔ جنگ آزادی سے لے کر اب تک 70 برسوں میں دنگا فساد کرانے والے جمہوریت اور مسلمانوں کے ہمدرد بن گئے.ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حالت تشویشناک ہے۔ اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی ہماری حیثیت صفر کے بهی برابر نہیں ہے۔ دلتوں نے اپنے ووٹوں کا احساس دلایا تو مایاوتی وزیر اعلیٰ بن بیٹهی۔ یادوںنے ملائم سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ بنایا، مگر مسلمان 20 فیصدی ہونے کے بعد بھی بکهرا ہوا ہے۔

ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹوں کو اہمیت دی مگر الیکشن میں فتح کے بعد مسلمانوں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جیسےہی الیکشن قریب آتا ہے ہر پارٹی مسلمانوں کو ایک دوسری پارٹی سے ڈرانا شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح سے دوسری پارٹیوں سے ڈرا کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرتی ہے اور یہی 70 سالوں سے ہوتا آ رہا ہے، مگر آج بهی مسلم قیادت کوئی سنجیدہ قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے، ہندوستان کے 5 ریاستوں میں الیکشن ہونے کو ہے، اتر پردیش کے الیکشن پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔اتر پردیش میں 7 مرحلے میں ووٹنگ ہونی ہے مگرمسلمان بالکل بکهرا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ مسلم تنظیمیں، مسلم قائدین اپنی مضبوط قوت بنانے کے بجائے اپنی اپنی من پسند پارٹیوں کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتر پردیش کے 20 فیصدی مسلمان متحد ہو کر کوئی فیصلہ لیتے، تاکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کا احساس لوگوں کو ہوجاتا اور مسلمانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوششکی جاتی، مگر ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ؟

مسلمان سیاسی قوت پیدا کریں محمد وسیم30/01/2017جنگل میں شور مچا، ہر طرف بهگدڑ مچی، تمامجانوروں نے اکٹھے ہوکر آواز اٹهائی کہ جان کیسے بچائی جائے ؟ جو ظلم و نا انصافی ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ تمام جانور فکر مند ہوے، مگر سب سے زیادہ فکر بهیڑیے کو ہوئی کہ اب اس حالت میں کیا کیا جائے ؟ کیونکہ کہ اگر سب اکٹھا ہوگئے تو میری خیر نہیں ہے۔ چنانچہ بهیڑیے نے گھاس کا تنکہ منہ میں لیا اور ایک موٹی چادر اپنے اوپر اوڑھ کر بھیڑوں کے پاس گیا اور بہت ہی پیارے انداز میں کہنے لگا کہ اب وقت بدل گیا ہے۔ دیکھو میں گوشت خور ہوں لیکن اب میرےمنہ میں گھاس کا تنکہ ہے۔ آج سے میں نے گوشت کھانا بند کر دیا ہے۔ اب ہم اور تم مل کر ساتھ رہیں گے۔ یہی حالت سیاسی پارٹیوں کی ہے۔ جنگ آزادی سے لے کر اب تک 70 برسوں میں دنگا فساد کرانے والے جمہوریت اور مسلمانوں کے ہمدرد بن گئے.ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حالت تشویشناک ہے۔ اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی ہماری حیثیت صفر کے بهی برابر نہیں ہے۔ دلتوں نے اپنے ووٹوں کا احساس دلایا تو مایاوتی وزیر اعلیٰ بن بیٹهی۔ یادوںنے ملائم سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ بنایا، مگر مسلمان 20 فیصدی ہونے کے بعد بھی بکهرا ہوا ہے۔

ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹوں کو اہمیت دی مگر الیکشن میں فتح کے بعد مسلمانوں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جیسےہی الیکشن قریب آتا ہے ہر پارٹی مسلمانوں کو ایک دوسری پارٹی سے ڈرانا شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح سے دوسری پارٹیوں سے ڈرا کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرتی ہے اور یہی 70 سالوں سے ہوتا آ رہا ہے، مگر آج بهی مسلم قیادت کوئی سنجیدہ قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے، ہندوستان کے 5 ریاستوں میں الیکشن ہونے کو ہے، اتر پردیش کے الیکشن پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔اتر پردیش میں 7 مرحلے میں ووٹنگ ہونی ہے مگرمسلمان بالکل بکهرا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ مسلم تنظیمیں، مسلم قائدین اپنی مضبوط قوت بنانے کے بجائے اپنی اپنی من پسند پارٹیوں کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتر پردیش کے 20 فیصدی مسلمان متحد ہو کر کوئی فیصلہ لیتے، تاکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کا احساس لوگوں کو ہوجاتا اور مسلمانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوششکی جاتی، مگر ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

قارئینِ کرام ! ہمیں اس چیز کا ضرور احساس ہونا چاہئے کہ ہم ووٹ کے اعتبار سے ایک بڑی طاقت ہیں ، مگر اس کے باوجود بھی ہم ہر طرف سے پریشانیوں کا شکار ہیں ، ہماری کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، مگر اب وقت آ گیاہے کہ ہم سیاسی طور پر اپنی طاقت کا احساس دلائیں ، کیونکہ ہمارے مسائل کو کوئی بھی سیاسی پارٹی حل کرنے والی نہیں ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں سیاسی پارٹی ہمارے مفاد کی بات کرتی ہے مگر ایسا نہیں ہے، اگر بی جے پی ہمارے لئے تلوار ہے تو کانگریسچهری ہے، اگر سماج وادی پارٹی ہمارے لئے تیر ہے تو بی ایس پی آری ہے، یعنی ہر پارٹی کا کام ہے مسلمانوں کو کاٹنا اور ان کو تکلیف پہونچانا، کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کے مفاد میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے، جب بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم پارٹیوں سے اتحاد کے لئے تیار نہیں ہیں تو بهلا ان کے مفاد میں کیوں کر کوئی قدم اٹھائیں گی ؟ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں سے بار بار ہمدردی کا ناٹک کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرنے کے بجائے اپنی الگ سیاسی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، اور یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ اگر دلت اور یادو اپنا اپنا وزیر اعلیٰ بنا سکتے ہیں تو 20 فیصدی مسلمان کیوں کر اپنا وزیر اعلٰی نہیں بنا سکتا ہے؟

کیونکہ کہ اگر سب اکٹھا ہوگئے تو میری خیر نہیں ہے۔ چنانچہ بهیڑیے نے گھاس کا تنکہ منہ میں لیا اور ایک موٹی چادر اپنے اوپر اوڑھ کر بھیڑوں کے پاس گیا اور بہت ہی پیارے انداز میں کہنے لگا کہ اب وقت بدل گیا ہے۔ دیکھو میں گوشت خور ہوں لیکن اب میرےمنہ میں گھاس کا تنکہ ہے۔ آج سے میں نے گوشت کھانا بند کر دیا ہے۔ اب ہم اور تم مل کر ساتھ رہیں گے۔ یہی حالت سیاسی پارٹیوں کی ہے۔ جنگ آزادی سے لے کر اب تک 70 برسوں میں دنگا فساد کرانے والے جمہوریت اور مسلمانوں کے ہمدرد بن گئے.ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حالت تشویشناک ہے۔ اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی ہماری حیثیت صفر کے بهی برابر نہیں ہے۔ دلتوں نے اپنے ووٹوں کا احساس دلایا تو مایاوتی وزیر اعلیٰ بن بیٹهی۔ یادوںنے ملائم سنگھ کو وزیرِ اعلیٰ بنایا، مگر مسلمان 20 فیصدی ہونے کے بعد بھی بکهرا ہوا ہے۔ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹوں کو اہمیت دی مگر الیکشن میں فتح کے بعد مسلمانوں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جیسےہی الیکشن قریب آتا ہے ہر پارٹی مسلمانوں کو ایک دوسری پارٹی سے ڈرانا شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح سے دوسری پارٹیوں سے ڈرا کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرتی ہے اور یہی 70 سالوں سے ہوتا آ رہا ہے، مگر آج بهی مسلم قیادت کوئی سنجیدہ قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے، ہندوستان کے 5 ریاستوں میں الیکشن ہونے کو ہے، اتر پردیش کے الیکشن پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔اتر پردیش میں 7 مرحلے میں ووٹنگ ہونی ہے مگرمسلمان بالکل بکهرا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ مسلم تنظیمیں، مسلم قائدین اپنی مضبوط قوت بنانے کے بجائے اپنی اپنی من پسند پارٹیوں کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔

جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتر پردیش کے 20 فیصدی مسلمان متحد ہو کر کوئی فیصلہ لیتے، تاکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت کا احساس لوگوں کو ہوجاتا اور مسلمانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوششکی جاتی، مگر ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔قارئینِ کرام ! ہمیں اس چیز کا ضرور احساس ہونا چاہئے کہ ہم ووٹ کے اعتبار سے ایک بڑی طاقت ہیں ، مگر اس کے باوجود بھی ہم ہر طرف سے پریشانیوں کا شکار ہیں ، ہماری کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، مگر اب وقت آ گیاہے کہ ہم سیاسی طور پر اپنی طاقت کا احساس دلائیں ، کیونکہ ہمارے مسائل کو کوئی بھی سیاسی پارٹی حل کرنے والی نہیں ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں سیاسی پارٹی ہمارے مفاد کی بات کرتی ہے مگر ایسا نہیں ہے، اگر بی جے پی ہمارے لئے تلوار ہے تو کانگریسچهری ہے، اگر سماج وادی پارٹی ہمارے لئے تیر ہے تو بی ایس پی آری ہے، یعنی ہر پارٹی کا کام ہے مسلمانوں کو کاٹنا اور ان کو تکلیف پہونچانا، کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کے مفاد میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے، جب بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم پارٹیوں سے اتحاد کے لئے تیار نہیں ہیں تو بهلا ان کے مفاد میں کیوں کر کوئی قدم اٹھائیں گی ؟ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں سے بار بار ہمدردی کا ناٹک کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرنے کے بجائے اپنی الگ سیاسی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، اور یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ اگر دلت اور یادو اپنا اپنا وزیر اعلیٰ بنا سکتے ہیں تو 20 فیصدی مسلمان کیوں کر اپنا وزیر اعلٰی نہیں بنا سکتا ہے…. ؟؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔