مسلم تنظیمیں اور ان کی حقیقت

مفتی عبداللہ غزالی

کسی بھی قوم کی جان وہ لوگ سمجھے جاتے ہیں جنکے اندر کچھ نمایاں قابلیت ہوتی ہے۔ چاھے وہ کسی بھی شعبے اور کسی بھی مکتب فکر سے ہوں۔ ایسے ہی لوگ اپنی قوم کی بقا وتحفظ، عروج وارتقاء کی فکر کرتے ہیں اور اس کے لئے ہر طریقے سے طرح طرح کی عملی کوششیں کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض انفرادی طور پر، بعض کمیٹی اور محلی اور بعض صوبائی اور ملکی پیمانے پر اپنی قوم کے لئے مستقل جدو جہد میں لگے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی قوم کو معاشرے اور سماج میں ایک باعزت اور باوقار مقام نصیب ہوتا ہے۔

ہماری مسلم قوم ہمیشہ ایسے افراد سے مزین رہی ہے چاھے قومی سطح ہو یا ملکی اور عالمی، ہمیشہ مسلم قوم کی قیادت ایسے قابل، مخلص، مجاہد اور خدمت ملت کے جذبے سے لبریز قابل فخر افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے جن کی انتھک محنتوں اور بے مثال اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ ایک امتیازی شان ملتی رہی ہے جس سے ہر وہ شخص جس نے ذرا بھی اسلامی تاریخ پڑھی ہے بخوبی واقف ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے زمانے میں ہماری قوم اس طرح کی قیادتوں سے بالکل محروم ہے۔ کہنے کے لئے تو ہمارے ملک ہندوستان میں سیکڑوں تنظیمیں ہیں جو پرخلوص خدمت قوم کا دم بھرتی ہیں  اور اپنے بڑے بڑے بھاری بھرکم نام اور خدمات کی لمبی لمبی رودادیں طبع کراکے سر عام نشر کرتی ہیں۔ ان کے سفراء سال کے بارہ مہینے اپنی خود نوشت رودادیں لےکر ملک و بیرون ملک مسجد، مسجد اپنی خدمات کا بڑے مؤثر طریقے سے ذکر کرتے اور پھر اپنے ہی طے شدہ مستقبل کے ایسے وزنی اور اشک ریز منصوبے بتاتے ہیں کہ ہر مسلم ان کی قربانیوں کو سن کر سب سے اہم دینی وملی فریضہ سمجھ کر حسب استطاعت اپنا تعاون ان کے حوالے کردیتا ہے۔

اس بات کے ذکر کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان کے وصولی زر کے مخالف ہیں۔ بلکہ تکلیف دہ بات یی ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلم سماج کی خدمت کے نام پر بھت ساری تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں اور دین وملت کے نام پر نہ جانے قوم کا کتنا سرمایہ وصول کرتی ہیں جس کا شاید ان کے اپنے ممبران کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو پاتا ہو۔ ہماری کمیونٹی صرف یہ سوچ کر ان سے باز پرس نھیں کرتی کہ ان کے عمل کو وہ جانیں ہمیں ان سے سرو کار رکھنے سے کوئی مطلب نھیں۔ جبکہ ہمیں یہ سمجھنا بھت ضروری ہے کہ یہ انفرادی یا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ہے جس کے ہم سب یکساں ذمہ دار ہیں اور  اس طرح کی ساری جماعتیں، جمعیتیں، ٹرسٹس اور تنظیمیں پوری قوم کے لئے انتہائی مہلک و تباہ کن ہیں ایسی تمام جماعتوں کی باز پرسی وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔

دوسری قسم ان تنظیموں کی ہے جو ہمارے مخلص اکابرین، علماء، قائدین اور دانشوروں کی دور اندیش افکار کے نتیجے میں بروئے کار آئیں اور اپنی خدمات کا لوہا منوایا۔ _اللہ پاک ان کی قربانیوں کو بے حد قبول فرمائے_ ہم ان کی دانش مندی کو سلام کرتے ہیں۔ لیکن وہی  تنظیمیں اس وقت  ایسی  بد  نیتی کا  شکار ہوچکی ہیں جس کی شاید کوئی نظیر نہ مل  سکے۔ ہمارے ان اکابرین کی روحیں نہ جانے اس منظر سے کیا محسوس کرتی ہونگی جنھوں نے ہم مسلمانوں کی عزت وآبرو کی ضمانت سمجھ کر ان کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہی تنظیمیں تھیں جن کو ہر فرد امت اپنی پناہ گاہ سمجھتا تھا۔ اور اس کی آبیاری کے لیے تن من دھن سے حاضر رہتا تھا۔

اچھی بات یہ تھی کہ ایسی تنظیموں کو سارے ملک کے علماء اپنا ایک گھر آنگن سمجھتے، اور پورے ملک کے دانش وران باہم ایک پریوار اور خاندان مانتے اور ہر ایک اس کی مضبوطی کے لئے حتی الامکان کوشاں رہتا۔ ہر موقع پر ملک کے تمام علماء کرام سے علی العموم رائے لی جاتی اور اسی کے مطابق لائحہ عمل تیار کیا جاتا جس کی وجہ سے ہر ہر قدم میں اتنی طاقت ہوتی تھی کہ اسے کامیابی سے ہمکنار ہونے میں کوئی چیز مانع نھیں ہوپاتی تھی۔

لیکن آج وہ تنظیمیں بس ایک نام بن کر رہ گئی ہیں۔ وجوہات کی ایک لمبی فھرست ہو سکتی ہے لیکن کچھ ایسی ہیں جنکا ذکر کرنا ضروری ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی جمعیت یا جماعت اور کسی مقصد اور مشن پر قائم کی جاتی ہے۔ پھر اس کو منصہ شہود پر لانے کے لئے ایک مکمل لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے نظم ونسق کو مرتب کرنے کے لیے عہدے، مراتب اور ذمہ داریاں تقسیم کی جاتی ہیں پھر ان دانشوروں میں جو جس لائق ہوتا ہے اسے مشورے کے ذریعے وہ ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کو ملی فریضہ سمجھ کر اسے پرخلوص ہو کر نبھاتا ہے۔

لیکن جب یہی تنظیم کامیاب ہوچکی ہوتی ہے تو کچھ ناخلف لوگ اس کو ایک سجی سجائی سیج سمجھ کر اس پر قابض ہوجانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور اسی کے پیسے اور عہدے کی مدد سے خود کو ایک طاقتور حاکم سمجھنے لگتے ہیں۔

جب ایسا ہوتا ہے تو تنظیم اپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ کر محض ایک جلوہ گاہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اور وہی حاکم اسے اپنی مرضی سے چلانے لگتا ہے اور اپنے آس پاس ایسے چٹے بٹوں کو رکھتا ہے جو ذاتی مفاد کے لئے اس کی وفاداری میں کتے کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔

ان کے بنائے اس حصار کے باہر سے اگر کوئی ذی شعور یا باصلاحیت قومی ہمدردی میں خدمت کے جذبات سے آنا چاھے تو ان وفاداروں کی دیوار سد سکندری سے بھی مضبوط ثابت ہوتی ہے جو کسی بھی شخص کو اندر آنے کے لئے روز قیامت تک کا انتظار کرواسکتی ہے۔ اس لئے اب کسی بھی دانشور کے لئے ان کی کیبنیٹ میں جانا ناممکن سا ہی ہے۔

رہی بات داخلی ممبران کی تو ان میں اختلاف دو وجوہات سے ہوسکتاہے ایک تو یہ کہ کسی عہدے کی حرص میں کوئی خود کو زیادہ بھتر سمجھ کر صاحب مسند کی مخالفت پر آمادہ ہو جائے اور بالجبر جلوہ افروز ہونے کی کوشش کرے اور اسکے لئے کسی بھی حد تک کو پار کردے جیسا کہ بعض جگھوں پر ہو بھی چکا ہے۔

دوسری یہ کہ کسی کی رحلت کے بعد اس کے خاندانی وارثین میں ہی اختلاف ہو جائے اور وہ مصالحت پر راضی نہ ہو سکیں۔ اوراس صورت میں کیسے ہو سکیں گے جب کہ امت کے دئے ہوئے مال و زر کی فراوانی اور ملک کے اصحاب اقتدار کی کرم فرما نگاہیں بھی مہربان نظر آئیں۔

بہر حال! ہم ہی کیا ملک کے تمام علماء کرام ان کے بنائے ہوئے حصار سے باہر ہیں سوائے ان کے ہی منتخب کردہ وفاداروں کی جماعت کے۔

ہمارے ملک ہندوستان میں نہ جانے کتنے قابل علماء کرام اور دانشوران موجود ہیں جو مخلصانہ طور پر امت کے لئے بھت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور کوشاں بھی ہیں لیکن انھیں سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ مذکورہ قسم کی انھیں تنظیموں کے وفاداران ان کے راستے کا روڑا بن بیٹھتے ہیں اور کسی صورت ساتھ دینا یا تعاون کرنا تو دور بلکہ بسا اوقات مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

ایک بات یہ بھی حیرت کرنے والی ہے کہ ہمارے زمانے کے اکثر باصلاحیت افراد قوم و ملت کے لئے بھت کچھ کرنے کی سوچتے ہیں اور اس کے لئے ان کے ذھنوں میں ایک مرتب اور ٹھوس طریقہ کار بھی موجود ہوتا ہے بس پریشانی تب سامنے آتی ہے جب وہ اپنے عزم کو اپنے جیسے باصلاحیت لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس کی تفصیل، طریقہ کار اور حاصل ہونے والے نتائج کو بتاتا ہے۔ لیکن وہ اس وقت مایوس ہوجاتا ہے جب عملی اقدام کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ خود کو تنھا پاتاہے۔ اس کے تنھا پڑجانے کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ داخلی حسد ہے۔

یاد رکھئے ! جتنی جماعتیں، تنظیمیں، ٹرسٹس اور جمعیتیں جن کا نظم ونسق قوم وملت کی امداد اور چندے سے چلتا ہے وہ کسی کی اپنی یا اپنے خاندان واعزہ واقرباء یا کسی مخصوص ذات وبرادری کی جاگیر نہیں ہے۔ بلکہ پوری ملت کے ایک ایک فرد کی اتنی ہی شراکت ہے جتنی صاحب مسند صدر محترم اور دیگر عہدہ داران کی ہے۔

یقین جانیے! اگر ان تنظیموں اور جمعیتوں پر کسی نے قبضہ کیا  یا اسے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر  اپنے ہی  گھرانے اور  رشتہ داروں میں  تقسیم کردیا تو وہ  خود بے حس اور بھت بڑے جرم کا مرتکب ہے لیکن قوم کے وہ قابل علماء اور دانش وران بھی مجرم ہیں جنھوں نے اتنے بڑی خیانت اور قوم کے ساتھ بد دیانتی کو دیکھ کر سکوت اختیار کیا یا کر رہے ہیں۔

یہ ناقابل تلافی جرم ہے اور اس کے بارے میں ان سے سؤال کیا جائے گا۔ ہاں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان تنظیموں کے اصحاب اقتدار کی بغاوت یا انہیں وہاں سے ہٹانا ایک مشکل امر ہے۔ ان کی جی حضوری اور چاپلوسی کرکے قوم کو دھوکہ دے کر اپنی جیب گرم کرنے والے ناہنجاروں کا سامنا کرنا دیوانے کتوں کی جھنڈ سے مقابلہ کرنے کے مرادف ہے اور یہ بھی مشکل ہے لیکن اتنا بھی مشکل نہیں کہ اسے ناممکن گمان کر لیا جائے۔

اب علماء کرام ودانشوران کو پیش قدمی کی ضرورت ہے۔

ملت وقوم کی ذمہ دار ہر جماعت، جمعیت اور تنظیم کی ہر ذمہ دار مسند پر اس کے موزوں اور قابل شخص کو پھنچانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے

صبر و ضبط ذاتی مسائل میں قابل تلافی ہوسکتا ہے سماجی، معاشرتی، دینی اور ملی معاملات میں ہرگز نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔