مسلم دانشوران کی نادانیاں

ندیم عبدالقدیر

کیا آپ جانتے ہیں کہ بھگت سنگھ کے انتم سنسکار میں کتنے لوگ شامل تھے ؟ کیا آ پ کو پتہ ہے کہ ٹیپو سلطان کی آخری رسومات میں کتنے لاکھ لوگوں کا جم غفیر تھا ؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی آخری رسومات میں کتنا بڑا انسانوں کا سیلاب  امڈ آیا تھا؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ چٹگام کے باغی ’ماسٹر دا‘ کے انتمسنسکار میں شامل لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟کیا آپ  کو معلوم ہے کہ  سکھوں کے بہت بڑے لیڈر ’جرنیل سنگھ بھنڈران والے ‘ کی آخری رسومات میں کتنے لوگ شامل تھہ ؟

اب سنئے ۔ بھگت سنگھ کو لاہور   جیل میں پھانسی دی گئی تھی ۔ جیل کی عقبی دیوار توڑ کر ان کی لاش نکالی گئی اوراندھیرے میں ہی اسےلاہور کے مشرق میں بہنے والی راوی ندی میں لے جاکر بہا دیا گیا ۔   ٹیپو سلطان کی آخری رسومات میں چند انگریز فوجی افسران شامل تھے ۔ ان کا کوئی رشتہ دار، کوئی غم گسار دوست و رفیق  شامل نہیں تھے۔ ان کی تدفین انگریزوں نے انتہائی رازداری میں کی ۔ بہادر شاہ ظفر کی آخری رسومات میں ان کا ایک اُردلی اور چند انگریز فوجی افسران موجود تھے ۔ ایک گمنام مقامی مولانا  نے رسومات ادا کیں، اور انہیں انتہائی خاموشی کے ساتھ سپردِ خاک کردیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں کُل ’ہجوم‘ زیاد ہ سے زیادہ ایک درجن لوگوں پر مشتمل تھا۔   چٹگام کے باغی ’سوریہ سین‘ جنہیں ’ماسٹر دا ‘بھی کہتےہیں (جن کی زندگی پر’ اشوتوش گواریکر‘ نے فلم ’کھیلیں ہم جی جان سے بنائی‘تھی) کو قتل کرنے کے بعد انگریزوں نے ان کی نعش کو بنگال کی کھاڑی میں بہاد یا۔آزاد ہندوستان میں پنجاب کے سب سے بڑے لیڈر ’جرنیل سنگھ بھنڈران والے‘ کی آخری رسومات کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ہے ۔ایسا کہاجاتا ہے کہ ان کی لاش کو دفن کردیا گیا اور ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی لاش کو نذرِ آتش کیا گیا۔ جو بات سب سے زیادہ مانی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی لاش کو سخت حفاظتی پہرے میں رات کے اندھیرے میں نذرِ آتش کردیا گیا، اس میں کوئی سکھ عالم کو شامل نہیں کیا گیا، جرنیل سنگھ کی لاش کو پہچاننے کیلئے ان کے ایک دور کے ایک رشتہ دار کو بلایا گیا تھا ۔ان کی آخری رسومات بھی انتہائی راز داری اور خاموشی کے ساتھ ادا کردی گئی تھیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارے لوگ اپنی اپنی قوم کے ہیرو نہیں ہیں ؟ بھگت سنگھ آج ہندوستان میں شہیدوں کے سردار سمجھے جاتے ہیں ؟ آر ایس ایس بھی انہیں شہید مانتی ہے ۔ ٹیپو سلطان آج بھی کم از کم ہندوستان کے مسلمانوں میں تو بہت بڑے ہیرو تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر کو آر ایس ایس اور بی جےپی جیسا مغل مخالف طبقہ بھی مجاہدِ آزادی مانتا ہے۔ حتیٰ کہ ساورکر جیسے ہندوتوا کے بانی نے اپنی کتاب’دی فرسٹ انڈین وار آف انڈیپنڈنس۔ ۱۸۵۷‘  میں بہادر شاہ ظفر کی تعریفوں کے پل باندھے ہیں ۔انہیں سچا مجاہد آزادی مانا ہے ۔ آج بہادر شاہ ظفر کوبھارت رتن سے نوازنے کی بھی باتیں ہوتی ہیں ۔ چٹگام میں انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ’سوریہ سین‘ عرف ماسٹر دا کو بنگال میں آج بہت بڑا ہیرو گردانا جاتا ہے ۔ جرنیل سنگھ بھنڈران والےآج بھی پنجاب کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور  انہیں آج   بھی سکھ قوم ایک بہت بڑے ہیرو کی نظر سے دیکھتی ہے ۔ یہ سب بتانے کی ضرورت اس لئے پڑ گئی کہ بہت سے مسلم ’دانشوران‘ نے مسلمانوں کو لعنت ملامت کرنے کے اپنے شوق میں ایسی ایسی باتیں اور ایسی ایسی دلیلیں گڑھ لی ہیں جن کا دانشمندی سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ چند روز قبل ہی بال ٹھاکرے کی پانچویں برسی منائی گئی ۔ پانچ سال پہلے بال ٹھاکرے کی موت پر ان کی آخری رسومات میں لاکھوں کی بھیڑ امڈ آئی تھی ۔

ہمارے دانشوران نے اس موقع کو قوم پر لعنت  ملامت  کرنے کےلئے غنیمت جانا ۔ بہت سے دانشورانِ قوم و ملت اور صحافیوں نے قوم کو للکارا کہ’ ’دیکھو اسے لیڈر کہتےہیں، اس لاکھوں کی بھیڑ کو دیکھو‘ ‘۔ اُس وقت چند صحافیوں نے اپنے جذبۂ بے اختیار میں بال ٹھاکرے کی آخری رسومات کا موازنہ اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر میں پھینکے جانے تک سے کردیا اور ساتھ ہی اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر میں پھینکے جانے پر غالب کے اس مصرعہ کا بھی حوالہ دے دیا کہ ؎

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

دہشت گردی کے راستے کی تباہ کاریوں سے قوم کو آگاہ کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن اس کےلئے اوٹ پٹانگ  دلیلیں اورغالب کی شاعری کا بے محل استعمال کرنا قطعی مناسب نہیں ہے ۔ بال ٹھاکرے یقینا مراٹھی برادری کی بڑی شخصیت تھی ۔اگر ان کی آخری رسومات میں بھیڑ نہیں بھی آتی تو بھی ان کی شخصیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن  ہمارے دانشورانِ قوم اور صحافیوں نے اس بھیڑ کو ہی کامیابی سمجھ لیا ۔     یہ دانشوران اور صحافی حضرات اپنی کم علمی کو اپنے تک محدود رکھتے تو بھی ٹھیک تھا، لیکن انہوں نے اپنی کم علمی کا ڈھنڈورا پیٹا اور ساری قوم کو ہی اپنی لا علمی میں شامل کرنے کی کوشش کی۔

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا  کی بات ہی اگر قوم کا ہیرو ہونے یا نہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے تو بھگت سنگھ، ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر، سوریہ سین اور بھنڈران والے جیسے لوگوں آج اپنی قوم کے ہیرو نہیں ہوتے، کیونکہ ان میں سے بھی اکثر کا جنازہ نہیں اٹھاتھا۔ اب آخری بات جو ہمارے دانشوران کو یاد رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ’’ قومیں اپنے ہیرو کو اس کی آخری رسومات میں شامل بھیڑ سے نہیں یاد رکھتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    بےوقوف کی صحبت
    ______________________________________

    حضرت عیسیٰ علیہ السلام تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے ایک پہاڑ کی طرف جا رہے تھے۔ ایک آدمی نے بُلند آواز سے پُکار کر کہا "اے خُدا کے رسول علیہ السلام.! آپ اِس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں, آپ کے پیچھے کوئی دشمن بھی نظر نہیں آ رہا پھر آخر آپ کی وجہِ خوف کیا ہے۔؟ ۔”
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "میں ایک احمق آدمی سے بھاگ رہا ہوں, تُو میرے بھاگنے میں خلل مت ڈال۔”
    اُس آدمی نے کہا "یاحضرت آپ کیا وہ مسیح علیہ السلام نہیں ہیں جن کی برکت سے اندھا اور بہرا شفایاب ہو جاتا ہے۔؟” آپ نے فرمایا "ہاں”
    اُس آدمی نے کہا "کیا آپ وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مُردے پر کلامِ الہٰی پڑھتے ہیں اور وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔؟” آپ نے فرمایا "ہاں”
    اُس آدمی نے کہا "کیا آپ وہ ہی نہیں ہیں کہ مٹی کے پرندے بنا کر اُن پے دَم کر دیں تو وہ اُسی وقت ہَوا میں اُڑنے لگتے ہیں۔؟” آپ علیہ السلام نے فرمایا "بیشک میں وہی ہوں۔” تو اُس شخص نے حیرانگی سے پوچھا کہ "اللّٰہ نے آپ کو اِس قدر قوت عطا کر رکھی ہے تو پھر آپ کو کس کا خوف ہے۔؟”
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "اُس رب العزت کی قسم کہ جس کے اسمِ اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروں پر پڑھا تو وہ شفایاب ہو گئے, پہاڑوں پر پڑھا تو وہ ہٹ گئے, مُردوں پر پڑھا تو وہ جی اُٹھے لیکن وہی اسمِ اعظم میں نے احمق پر لاکھوں بار پڑھا لیکن اُس پر کچھ اثر نہ ہُوا۔”
    اُس شخص نے پوچھا "یاحضرت, یہ کیا ہے کہ اسمِ اعظم اندھوں, بہروں اور مُردوں پر تو اثر کرے لیکن احمق پر کوئی اثر نہیں کرتا حالانکہ حماقت بھی ایک مرض ہے۔؟” تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا "حماقت کی بیماری خُدائی قہر ہے۔”

    درسِ حیات: "بیوقوف کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔”

    .. حکایت نمبر 6, کتاب: "حکایاتِ رومی” از حضرت مولانا جلال الدین رومی رح ..

تبصرے بند ہیں۔