مسلم سماج کی پسماندگی کا ازالہ مسلم قوم کی ذمہ داری

ظفر اقبال

ہمارا ملک ہندوستان اپنی غلامی کی زندگی گذارنے کے بعد پندرہ اگست 1947 ء کو برطانوی حکومت کی چنگل سے آزاد ہوا، تقریبا دو سو سال کی مکمل غلامی کی زندگی نے یہاں کے حالات کو بہت حد تک بدل ڈالا تھا، ملک کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کے اندر مکمل مایوسی اور نا امیدی کے آثار پیدا ہو گئے تھے، اور وہ تمام خرابیاں بھی کم و بیش تقریبا پورے سماج میں پھیل چکی تھیں جو ایک غلام قوم کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں، پست ہمتی، پست خیالی، خود غرضی، چند لقمہ پر قناعت  جیسی دیگر خرابیاں۔ آج ہندوستان کو آزاد ہوئے عرصہ ہوگیا لیکن آج بھی یہ ساری خرابیاں پائی جاتی ہیں، آزادی کے بعد ہندوستان کے ان لوگوں نے جن کے اندر دانشمندی اور شعور و آگاہی تھی ہر ملنے والے موقع کو غنیمت سمجھا اور اس سے  فائدہ اٹھا نے کے لئے جدو جہدبھی کیا۔ خواہ وہ معاشیات یا اقتصادیات کا میدان ہو، تجارت یا زراعت ہو یا پھر علو م و فنون کو حاصل کرنے کی بات ہو۔ لیکن اس دوڑ میں پیچھے رہنے والو ں میں مسلمان  قوم کا نا م بھی سرفہرست ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ مسلمانوں کو تقسیم ہند کا ذمہ دار ٹہراکر بہت سارے حقوق سے انہیں دانستہ طور پر محروم رکھا گیا  اور سیاسی قائدین کی ذاتی مفاد پرستی نے تو مسلم پسماندگی کو بڑھانے میں تیل میں نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی پستی کا ذمہ دار حکومت بھی ہے  لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کے منافق صفت لوگوں کی چالبازی، مسلم علماء کی حالات سے بے آگہی، مسلم تعلیم یافتہ لوگوں کی سماج سے دوری  اور مسلم عوام کی ہندوستانی سیاست سے ناواقفیت نے مل جل کر ہندوستانی مسلمانوں کو حاشیہ پر کھڑا کر دیا ہے۔ مسلم پسماندگی کے موضوع پرگفتگو کا آغاز روز اول سے ہی ہے  لیکن زمینی سطح پر کام بالکل نہ کے برابر ہے، اس امت کے بیشتر افراد کی حالت یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری بھلائی کے لئے کو ئی دوسرا کام کر رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا ہے ہر ایک کو اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے خود ہی کام کرنا پڑ تاہے۔ اور ایک بات تو مسلم ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی اسی وقت دور ہو سکتی ہے جب یہ خود اپنے آ پ کو بدلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اور اس کے لئے بالترتیب گاؤں، پنچایتی، بلاک، ضلعی، صوبائی اور مرکزی سطح پر تمام مسلم جماعت کو سیاسی اور معاشی  مسئلہ پر ایک ہی کڑی میں پرونے کے لئے آگے آئیں  اور اس مقصد کے حصول کے لئے تمام مسلکی گروہوں کے قائدین، اسلامی اداروں کے ذمہ داران، سماج کے دور اندیش حضرات اور مسلم تعلیم یافتہ نوجوان  ایک ساتھ مسلسل محنت کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں  اور اس کوشش کو اس وقت تک جاری رکھنے کی ٹھان لیں جب تک مقصد حاصل نہ ہو جائے۔ یہ ایک طویل المدت عمل ہوگا جس میں سال دوسال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ درکار ہوگا۔ اور اس کوشش کا محور ہر خطہ کے مسلمانوں کو اپنی مدد آپ کرنے پر ابھارنا، تعلیمی انتظامات کو بہتر کرنا، غریبوں، مجبوروں اور پسماندہ لوگوں کی مدد کے لئے مقامی طور پر مسجد کے تحت بیت المال کے قیام اور اس میں علاقائی طور پر صدقات اور زکوۃ کو جمع کرکے پوری ایمانداری سے مستحقین تک پہونچانے کا انتظام کرنا، نوجوان طبقہ میں بڑھتی ہوئی اخلاقی خرابیوں کے ازالہ کی اجتماعی تدبیر اختیار کرنا، نشہ خوری کے خلاف ایک تحریک چھیڑ نا، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے پروگرام چلانا اور اس جیسے دیگر ضروری امور کو بنائیں۔ جبکہ مسلم سماج کی موجودہ حالت یہ ہے کہ تبدیلی اور بہتری کی کو شش کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو دن رات انفرادی طور پر محنت کر رہے ہیں، لیکن ان کے مابین آپسی روابط ناپید ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی محنت اور کوشش کو شک کی نظر سے دیکھنے کا عادی ہے، ہر کو ئی فیصلہ لینے اور عملی اقدام کرنے کا اولین حقدار اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہے، امت مسلمہ کے یہ درد مند حضرا ت اور زمینی سطح پر کام کرنے اور سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے تعاون لینے اور دینے لگے اور اجتماعی طور پر کام کو آگے بڑھانے لگے تو آدھا مسئلہ تو یہیں حل ہو جائے گا اور اس کا مثبت نتیجہ فور ی طور پر دکھنے لگے گا۔ عوام الناس کے اندر پائی جانے والی کمیاں تو ایسی ہیں کہ اسے تھوڑی سی محنت کے بعد دور کی جا سکتی ہیں۔ لیکن  اصل مشکل کام تو قوم کے اندر اصلاحات لانے والوں کے نظریات اور ان کے مابین کے ترجیحات کو ترتیب دینے اور پھر اس کو حل کرنے کا ہے۔ عوام الناس کے جذبات اور ان کی ہمت تو قابل دادہے۔ کمی بس انتظام اور نظام میں ہے۔ آپ مدارس اسلامیہ کو مسلم عوام کی طرف سے دئے جانے والے چندہ ہی کو دیکھ لیں۔ اگر مدارس اسلامیہ کو منظم طریقہ سے فنڈکیا جانے لگے تو اسی فنڈسے ہندوستان کے ہر شہر میں ایک بہترین ادارہ قائم کیا جا سکتاہے اور اس کو بہتر طریقہ سے چلایا بھی جا سکتا ہے ، اس کے علاوہ مختلف علوم و فنون کے ریسرچ سینٹر اور تربیتی ادارہ کو بھی بآسانی چلایا جا سکتاہے۔ ہندوستانی مسلمان کی طرف سے دیا جانے والا مالی امداد  کے اندر بالقوۃ اس کی صلاحیت ہے کہ وہ ہندوستانی سماج سے غربت کا خاتمہ کرسکے لیکن بالفعل یہ تبھی ممکن ہوگا جب  انتظام کو بہتر کر دیا جائے۔ کیونکہ بہتر انتظام سے کسی بھی کام کو فنڈ کی قلت کے باوجود پایہء تکمیل تک پہونچانا ممکن ہو جاتا ہے۔ آج ہندوستانی مسلمان زندگی کے ہر میدان میں اجتماعی طور پر دوسری اقوام سے پیچھے ہیں اس میں نہ صرف حکومت ذمہ دار ہے بلکہ مسلم سماج کی بے حسی، بے ایمانی، جہالت و تغافل او ر پست ہمتی بھی شامل حال ہے۔ آپ تعلیم ہی کو دیکھ لیں، ہندوستان کے تقریبا ہر گاؤں اور علاقہ میں سرکاری اسکول قائم ہیں۔ آپ ایک غیر مسلم علاقہ کے سرکاری اسکول کے تعمیر کاری، تعلیمی صورتحال اور اساتذہ اور طالب علم کے مابین روابط اور والدین کی تعلیم سے دلچسپی کا تجزیہ کریں اور یہی تجزیہ آپ ایک مسلم علاقہ کا بھی کریں آپ کو صحیح صورتحال کا اندازہ ہو جائے گا۔ مسلم سماج کے اکثرو بیشتر سرکاری اسکول تو مقامی لوگوں کی سیاست کی جگہ بنے ہوئے  ہیں  جہاں مقامی لوگوں کی نظر صرف اسکول کے فنڈ پر ہوتی ہے۔ اور صرف شک و شبہ اور ذاتی مفاد کی بنیاد پر مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے الجھا دیا جا تا ہے۔ ان اسکولوں میں نہ صرف اساتذہ پڑھانے میں سستی سے کام لیتے ہیں بلکہ والدین کو بھی تعلیمی عمل سے کو ئی دلچسپی ہی نہیں ہو تی ہے۔ جبکہ تعلیم کا عمل والدین، اساتذہ اور طالب علم کے مشترکہ تعاون سے جاری رہتاہے۔ مسلم سماج کی اس بے توجہی او رلاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ سرکار ی فنڈ سے ہم خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں اور نہ ہی ہمارے سماج کے امراء کو اس بات سے کوئی سروکار ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں سرمایہ لگائیں جب کہ مسلم سماج میں ایسے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہیں جن کے لاکھوں روپئے سودی بینکوں میں پڑے رہتے ہیں اور بینک ان ایمان والے سود کے خلاف نفرت رکھنے والے لوگوں کے مال سے سودی کارو بار کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ سودی لین دین میں کسی طرح کی بھی شرکت حرام ہے ۔ لہذا فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم عوام اپنے اپنے علاقہ کے سرکاری اسکول کو بہتر بنانے کے لئے حکومت اور اساتذہ دونو ں سے مدد حاصل کرے اس لئے کہ ہماری قوم کے زیادہ تر بچے انہیں سرکاری اسکول میں تعلیم پارہے ہیں جہاں ان کی زندگی کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے اور اس کوایک اچھا انسان بنانے کے بجائے اس کے اندر احساس کمتر ی پیدا کر دی جا رہی ہے، جس احساس کے بعد اس کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں رہتی کہ وہ زندگی کے میدان میں جد و جہد کرکے آگے بڑھ سکے۔ اگر اب بھی مسلم قوم حالات کی نزاکت اور وقت کی ضرور ت کو اچھی طرح سمجھ کر اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے  اجتماعی کوشش کا آغاز کردے تو یقینا  بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے بس شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے نقصان کا احساس ہو جائے اور نقصان کی تلافی کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔