مسلم سینا، مستقبل میں رونا

مدثر احمد

ملک کوآزاد ہوئے71 سال ہونے جارہے ہیں، اس دوران اس ملک کے مسلمانوں نے مختلف نشیب وفراز دیکھے ہیں، جہاں خوشیاں دیکھی ہیں وہیں زیادہ دکھ بھی اس ملک کے مسلمانوں نے برداشت کئے ہیں، باوجوداس کے اس ملک کے مسلمانوں نے ہندوستان کواپنا گلستان ہی مانا ہے۔مگر اس ملک میں مسلمانوں کی قیادت کیلئے اب تک جتنی بھی تنظیمیں و ادارے قائم ہوئے ہیں انہوں نے شائد ہی مسلمانوں کی صحیح اور مضبوط رہنمائی کی ہے۔ملک آزاد ہونے سے پہلے انگریزوں کے خلاف آوازا ٹھانے کیلئے جہاں میدانوں کا سہار الیا گیا وہیں مسلمانوں نے میڈیا کااستعمال کرتے ہوئے اس قدر اس ملک کی عوام میں جان بھرا کے تاریخ آج بھی اس بات کی شہادت دیتی ہے۔

الہلال، البلاغ، قومی آواز، پرتاب، قومی تنظیم جیسے اخبارات نے اس ملک کی آزادی میں اہم کردار اداکیا۔مسلم صحافیوں نے نہ صرف اردو اخبارات کا سہارا لیا بلکہ انگریزی وہندی اخبارات کے ذریعے سے بھی جنگ آزادی لڑی گئی تھی۔ مولانا ابولکلام آزاد، محمد علی جناح، سر سید احمد خان، راجا رام موہن رائے جیسے صحافیوں نے اس ملک کی عوام کو بیدار کرنے اور انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے جس طرح سے قلم اٹھایا تھا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مگر آزادی کے بعد مانو ہندوستان کے مسلمانوں میں میڈیا کے تعلق سے جو لاپرواہی پیدا ہوئی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔آج ملک کے مختلف مقامات سے جملہ 892نیو زچینلس ہندوستانیوں کی ذہن سازی پر مامور ہوچکے ہیں۔ لیکن ان892 میڈیا چینلس یا 300 کے قریب میڈیا ہائوزس میں ایک بھی ایسا میڈیا ہائوز یاچینل مسلمانوں کے ماتحت کام کررہا ہے۔آئے دن سننے میں آرہا ہے کہ ہماری کچھ مسلم تنظیمیں مسلم سینا کا قیام کرنے جارہی ہیں، مسلم نوجوانوں کودشمنوں سے لڑنے کیلئے مارشل آرٹس و سیلف ڈیفنس آرٹ کی تربیت دی جارہی ہے۔سوال یہ ہے کہ جو قوم آزادی کے70 سال بعد ایک معمولی میڈیا ہائوز قائم نہیں کرسکی کیا وہ مسلم سینا کا قیام کرلیگی، کیا اگر وہ مسلم سینا کو بنا بھی لے تو کیا وہ اسے برداشت کرلیگی؟

یہ ملک امن وامان کا گہوارا ہے، اس ملک کی بنیاد دستور ہند ہے، یہ ملک جمہوری نظام پر چلنے والا ملک ہے، اس ملک کے آئین کے4 ستون ہیں، جن میں لیجسلیچر، ایگز یکٹیو، جیوڈیشری اور میڈیا ہے۔ہمارے اپنوں نے ان چاروں ستون کو مضبوط کرنے کے لئے مسلم قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنے کے بجائے سیدھے سیدھے مسلم سینا کا قیام کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ نہایت خطرناک ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ویسے بھی کچھ کئے کرے بغیر ہی ہمارے مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا جاتاہے، مسلم تنظیموں کو دہشت گردی اور ملک مخالف تنظیمیں کہتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اب مسلم سینا بناکر مزید معاملے کو بگاڑا جارہاہے۔

 اگر ہماری ملت کے رہنماء چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو سماجی تحفظ ملے، مسلمان اس ملک میں محفوظ رہیں تو اسکے لئے مسلمانوں کی نئی نسلوں کو سویل سرویسس، جرنلزم اور عدلیہ سے جوڑنے کی ضرورت ہے، ان کاموں کو انجام دینے کے لیے کیمپوں کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے ورنہ مسلمانوں کی بقاء ممکن نہیں۔ مسلم سینا جیسی تنظیموں کو عمل میں لاکر مسلمانوں کو مستقبل میں رونا پڑیگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔