شفاعت علی صدیقی: اردو ادب کا ایک اور ستون گرگیا

محمد اویس سنبھلی

 ماضی قریب میں ہماری زبان وادب کی کئی اہم ترین شخصیات دنیا سے اٹھ گئیں۔ قدرت کا قانون بھی یہی ہے کہ جو آیا ہے وہ جائے گا بھی مگر یہ بھی فطرت کا ہی ایک عمل ہے کہ جانے والے کا دکھ بھی ہوتا ہے۔ کل شفاعت صاحب (دادا)کے انتقال کی خبر سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں فوراً ان اپنے ایک ساتھی محمد نورعین کے ساتھ الماس باغ، ہردوئی روڈپرواقع ان کے گھر کے لئے نکل پڑا۔گھر پہنچ کر راقم نے شفاعت صاحب کے صاحبزادگان سے تعزیت کی اور پھر شفاعت صاحب کو آخری بار جی بھر کر دیکھا۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم لوگ واپس لوٹ آئے۔شفاعت صاحب، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی مرحوم کے تعلق سے مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور میں نے بھی ہمیشہ انھیں اس رشتہ کی وجہ سے دادا کہہ کر ہی پکارا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کے وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اوران کے صاحبزادگان اطہر اقبال، اختر اقبال اورمظفر اقبال نیز تمام اہل خانہ کو صبر عطا فرمائے۔آمین

  شفاعت صاحب لکھنؤ کی جانی پہچانی شخصیت تھے اور اسی کے ساتھ جن لوگوں نے بھی انھیں قریب سے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا تھے۔ شفاعت صاحب بے حدسیدھے سادے، ملنسار، خوش اخلاق، سادہ کلام تھے۔ ان کی شرافتِ مزاج، خلوص ندامت اور جذبے کی پاکیزگی کا ہر جاننے والا گواہی دے سکتا ہے۔وہ ہنسی مذاق تو بہت کم کرتے تھے لیکن ایک خاص طرح کی متانت اور سنجیدگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ بہت نرمی اور اپنائیت کے لہجہ میں بات کرتے تھے۔لکھنؤ کے پرانے لوگوں (خاص کر جن کا تعلق اردو ادب سے تھا) کا ذکر بڑے احترام سے کرتے تھے۔وہ ہمیشہ دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف اور اپنے چھوٹوں پر شفقت کی نظر رکھتے تھے۔شفاعت صاحب نے بہت کام کیا، انھیں وقت کی قدر تھی۔ شاید ان کے اس عمل کے نتیجے میں اللہ پاک نے ان کو اپنی خصوصی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا تھا جس کا اثر ان کے حسن سلوک اور جذبۂ خلوص و خدمت سے ظاہر ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ شفاعت علی صدیقی کے انتقال کا سانحہ اردو والوں کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے۔ شفاعت صاحب اپنی ذات میں ایک درسگاہ تھے، ایک انجمن تھے۔ قدرت نے اعلیٰ ادبی و تنظیمی صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔لکھنؤ کا آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن ایک زمانے میں بڑا ممتاز رہا ہے اس میں جو لوگ کام کرتے تھے وہ بڑی صلاحیتوں والے تھے، انھیں میں ایک نام شفاعت علی صدیقی کا تھا، انھوں نے لکھنؤ ریڈیو کے ذریعہ باذوق سامعین اور افراد کے جو پروگرام پیش کئے انھیں کسی زمانے میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں اس کے ذریعہ عوامی دلچسپی کو ہی پیش نظر نہیں رکھا بلکہ اس سے عوامی معلومات میں اضافہ بھی کیا۔شفاعت صاحب کے کئی پروگرام مثلاً اُتّرائن (پہاڑوں سے متعلق) ’پروگرام برائے اطفال ‘’یہ بستیاں ہماری(شخصیات پر)‘ بولتی تحریریں (کلاسیکی ادب پر) لکھنؤ کے محلے، گلی گلی آباد تھی جن سے، بہت پسند کئے گئے۔

        ریڈیوکی خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد حیات اللہ انصاری صاحب نے شفاعت علی صدیقی کو قومی آواز کے ادبی ضمیمہ کا ایڈیٹر مقرر کر دیا، یہاں بھی شفاعت صاحب نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور قومی آواز کی ادبی میگزین کو نئی بلندی عطا کی۔ماہنامہ فروغ اردو نے جگر مرادآبادی نمبر اور سعادت علی صدیقی نمبر شائع کئے تو اس کے لئے شفاعت صاحب کی خدمات حاصل کیں۔ جگر مرادآبادی کے انتقال کے بعد ان کی شخصیت اور شاعری پر شائع ہونے والا یہ پہلا نمبرتھا جو تقریباً ۶۲۰ صفحات پر مشتمل تھا۔ رئیس المتغزلین جگرمرادآبادی کو زندگی ہی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اردو شاعری کی تاریخ میں اس کی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں۔ جگر صاحب کے انتقال پرپورے ملک میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ان کا سوگ پورے ملک میں جس طرح منایا گیا اس سے عوام میں ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ماہنامہ فروغ اردو کے جگر مرادآبادی نمبر کی ترتیب کاکام شفاعت صاحب نے نہ صرف بحسن و خوبی انجام دیا بلکہ ’’داغ جگر‘‘ کے عنوان سے اس پر ایک اداریہ بھی قلم بند کیا۔

 ڈاکٹرسعادت علی صدیقی، شفاعت صاحب کے بڑے چہیتے بھتیجے تھے۔ اکلوتی بیٹی شاہین کے انتقال کے بعد سعادت صاحب کی وفات نے شفاعت صاحب کو توڑ کررکھ دیا۔سعادت صاحب کے انتقال پر ماہنامہ فروغ اردو نے ایک نمبر شائع کیا۔ اس نمبر میں ایک مختصر اداریہ شفاعت علی صدیقی صاحب نے لکھا تھا، یہ پہلی تحریر تھی جو میں نے شفاعت صاحب کی پڑھی تھی۔اس کا عنوان تھا ’’سعادت کی وفات‘‘۔درد میں ڈوبی ہوئی انگلیاں جب قلم ہاتھ میں لیتی ہیں تو ایسے جملے نکلتے ہیں جنھیں پڑھ کر چیخ نکل جائے۔

   شفاعت صاحب کی ان تحریروں کے مطالعہ سے بخوبی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جو صلاحیتیں عطا کی تھیں ان میں ایک صلاحیت اچھی نثر لکھنا بھی تھا۔یہ الگ بات کہ انہو ں نے اس کی طرف باقاعدہ توجہ نہیں دی۔

  یکم اگست۲۰۱۸ء کی شام ۴؍بج کر ۱۵ منٹ پر شفاعت صاحب نے آخری سانس لی اور ۲؍اگست کی صبح گیارہ بجے عیش باغ قبرستان میں اہل علم و دانش نیز ان کے خاندان کے لوگوں نے شفاعت علی صدیقی کو ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی، ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کے قریب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سپرخاک کردیا۔ اللہ تعالیٰ آگے کے مراحل آسان فرمائے اور شفاعت علی صدیقی مرحوم کی مغفرت فرمائے۔آمین

 چراغ علم و ادب جو لکھنؤ کی آبرو ہوا کرتے تھے، بجھتے جارہے ہیں۔ لکھنؤ خالی ہوتا جارہا ہے۔ شفاعت صاحب کے چلے جانے سے علم و ادب کا ایک چراغ اور بجھ گیا اب پچاس برس پہلے کے لکھنؤ کے بارے میں بتانے والے بس انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔